امریکی بے وفائی

شبیر احمد ارمان  منگل 29 اگست 2017
shabbirarman@yahoo.com

[email protected]

نائن الیون کے بعد عالمی دہشت گردی کے خلاف عالمی مہم جوئی میں پاکستان کا اہم کردار ہے، اس تمام دورانیے میں اس وقت کے امر یکن صدور بش ، اوباما ، سابق امریکن وزرائے خارجہ اہم معاملات میں پاکستان سے رابطے کرچکے ہیں۔

اسی طرح دیگر پاکستانی اور امریکی شخصیات کے باہمی رابطے اورامریکا کی جانب سے پاکستان کو غیرنیٹو اتحادی کا درجہ دینا ، پاکستان کو امریکی پابندیوں سے آزاد کردینا ، سات کروڑ امریکی ڈالرزکی امداد فراہم کرنا ، دیگر سہولتوں سے نوازدینا اور مطلب نکل جانے پر اکیلا نہ چھوڑ دینے کی یقین دہانی کرانا، جیسے معاملات پاک امریکا خوشگوار تعلقات کی وہ مثالیں ہیں جو درحقیقت امریکی تحفے نہیں ہیں بلکہ پاکستان ان کے لیے جانی اور مالی قربانی دینی پڑ رہی ہے۔

واشنگٹن کی جنگ نے ہمیں اپنوں سے نبرد آزما کیا ، پاکستان اندرونی و بیرونی خطرات سے آج بھی دوچار ہے، ملک کی اعلیٰ شخصیات خود کش اور قاتلانہ حملوں سے معجزانہ طور پر بچتے رہے ہیں، ملک میں متعدد مقامات پر خود کش بم دھماکے ہوئے جس کے نتیجے میں ہزاروں بے گناہ اور فوجی جوان شہید ہوئے، جن کی تعداد ستر ہزار سے زائد ہے، وانا آپریشن میں اپنے لوگوں سے سامنا کرنا پڑا ۔ اس کے باوجود پاکستان کو دھمکیاں ملتی رہی کہ اگر پاکستان میں طالبان یا انتہا پسند گروپوں کی پناہ گاہیں ختم نہ ہوئیں تو اتحادی فوج امریکی قیادت میں پاکستان میں داخل ہوکر ان کے خلاف کارروائی کرے گی ، پاک فوج کی قربانیوں سے دہشت گردوں کا صفایا کیا گیا اب پاکستان کے اندر دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں موجود نہیں ہیں اور نہ ہی پاکستان کی سر زمین کو افغانستان کے خلاف استعمال کیا جا سکتا ہے ۔

لیکن اس کے باوجود امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیاں نظر اندازکرکے دہشت گردوں کو پناہ دینے کا الزام عائد کررہا ہے اور ساتھ ہی کھلی وارننگ بھی دیدی کہ دہشت گردوں کی مدد جاری رکھی تو پاکستان کو بہت کچھ کھونا پڑے گا ، افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے سے پاکستان کو فائدہ دوسری صورت میں نقصان ہوگا ، دہشت گردوں کو پناہ دینے والوں پر اقتصادی پابندیاں لگائیں گے ۔ پاکستان نے ٹرمپ کی دھمکیوں کو مسترد کردیا ہے ۔ اطلاعات کے مطا بق پاکستان نے نئی امریکی پالیسی کے تحت ڈومور کو قبول نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔

امریکا کے لیے نو ڈومور اور برابری کی سطح پر سفارتی تعلقات کی پالیسی برقرار رہے گی ۔ پاکستان اپنی سلامتی پر کوئی سمجھوتہ قبول نہیں کریگا اور تمام فیصلے اپنی خود مختاری کو مدنظر رکھتے ہوئے کیے جائیں گے ۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اگر امریکا نے مستقبل میں پاکستان کی امداد پر پابندی یا کوئی ممکنہ دیگر پابندیاں لگانے کی پالیسی اختیار کی تو وفاق چین ، روس ، اسلامی اور دیگر دوست ممالک سے روابط میں توسیع کرے گا ۔ پاکستان دہشت گردی کے خلاف دی گئی اپنی قربانیوں کو عالمی سطح پر مذید اجاگر کرنے کے لیے مربوط سفارتی مہم چلائے گا ۔

تاریخی حقیقت یہ ہے کہ امریکا کے کہنے کے مطابق افغانستان سے سوویت یونین کی فوجوں کو نکالنے کے لیے جہاد کا نعرہ بلند کیا گیا تھا اور جب ان فوجیوں کا انخلاء ہوا اور سوویت یونین کا شیرازہ بکھرگیا تو ہمیں ( پاکستان ) کوکیا ملا ؟، اوجڑی کیمپ کا دھماکا جس میں افغان جنگ میں استعمال ہونے والا گولا بارود تھا جس کے نتیجے میں بیک وقت پانچ ہزار سے زائد گھر تباہ ہوگئے،اس وقت کے وزیر اعظم محمد خان جونیجو ( مرحوم ) نے اس واقعے کی سچائی سے قوم کو آگاہ کرنا چاہا تو اس وقت کے صدر پاکستان جنرل محمد ضیاء الحق نے امریکا کے اشارے پر ان کی حکومت برطرف کردی ، لیکن خود بھی اپنے رفقاء کار سمیت امریکی مفاد پرستی ، خود غرضی سے محفوظ نہ رہ سکے ۔ 17اگست 1988ء کو ان کے جہاز C-130 کو فضاء میں اڑا دیا گیا ۔ قبل ازیں افغان وار کی معرفت ملک میں کلاشنکوف کلچر متعارف ہوچکا تھا ۔ ہیروئن کی تجارت معمول بن چکی تھی ۔

پبلک مقامات بم دھماکوں کی زد میں آچکے تھے اور امریکا ہمیں ( پاکستان ) بھول چکا تھا ۔ نیو یارک 9,11کے بعد ایک بار پھر ہم ( پاکستان ) امریکا کی ضرورت بن گئے ، کیوں ؟ اس کیوں میں کئی پہلو پوشیدہ ہیں جنھیں سمجھنے کی ضرورت ہے ۔ جنھیں دودھ پلا پلا کر پا لا پوسا گیا ، انھیں جن بنانے میں امریکی کردار سے انکار ممکن نہیں ۔ اب انھیں بوتل میں بند کرنے کے لیے یا ہوا میں تحلیل کرنے کے لیے جو امریکی اسٹیج سجا ہوا ہے ، اس کی معیاد اتنی طویل نہیں ہے جتنی کہ سمجھی جارہی ہے۔

غور طلب پہلو یہ ہے کہ کل تک جن ممالک نے امریکی مفادات پر مبنی افغان جنگ میں اپنے اپنے حصے کا کردار ادا کیا تھا ، ان ہی ممالک کے توسط سے بتوں کو شوکیس میں بندکیا جانے اور توڑے جانے کا عمل آج بھی جاری ہے اور ساتھ ساتھ ان ممالک کے اندر مختلف النوع دہشت گردیاں بھی عروج پر رہی ہیں ۔ اگر غورکیا جائے تو دہشت گردی کی کڑیاں ایک جیسی نہیں ہیں بلکہ دہشت گردی کے بعض واقعات سے گمان گزرتا ہے کہ انھیں دانستہ طور پر مذہبی انتہا پسندی سے تعبیر کرنے کی کوشش کی جاتی رہی ہے جسے جواز بنا کر اگلا قدم اٹھا نے کی شروعات کی گئی ہے جس سے مسلم ممالک امریکی پالیسیوں کے مضمرات سے واقفیت حاصل کریں۔

اب جب کہ دھیرے دھیرے حقائق سامنے آرہے ہیں تو ایسے میں مسلم ممالک بھی اس نئی امریکی افغان پالیسی پر غور کریں اور صرف اس زاویے پر نظر نہ کریں کہ یہ جنگ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ ہے ۔ درحقیقت یہ امریکی مفادات کی جنگ ہے جسے دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ غورطلب پہلو ہے کہ امریکی ، اتحادی اور افغان افواج تمام تر سہولیات رکھنے کے باوجود اپنا ہدف پورا کرنے سے کیوں قاصر ہیں ؟ ایسے میں پاک فوج کی کامیابی کے بعد بھی پاکستان کوکیوں دھمکیاں دی جارہی ہیں؟ ا

س امر میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ کل کی طرح آج بھی امریکا کا کوئی اتحادی پاکستان کی طرح اہم نہیں ہے لیکن اس دوستی کے صلے میں پاکستان کو کیا کچھ ملتا رہا ہے اور مزید کیا ملنے کی توقع ہے یہ اب ایک مرتبہ پھر واضح ہوگیا ہے کہ امریکا صرف اپنے مفادات کے تابع ہے،امریکا پاکستان کو صر ف استعمال کرنے کی حد تک چاہتا ہے اس حوالے سے امریکا کی بے وفائی اپنی مثال آپ ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔