مسٹر ٹرمپ! بہت ہوگیا

عابد محمود عزام  منگل 29 اگست 2017

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جنوبی ایشیا اور افغانستان کے لیے نئی امریکی پالیسی جاری کی، جس میں پاکستان کو سنگین نتائج کی کھلی دھمکی دی ہے۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے افغانستان کے لیے مزید 39 ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان جان لے افغانستان میں ہمارا ساتھ دینے کا فائدہ ہوگا اور دہشتگردوں کی مدد جاری رکھنے سے بہت کچھ کھونا پڑے گا۔ پاکستان کو اربوں ڈالر دے رہے ہیں اور وہ اپنی سرزمین پر ان دہشتگردوں کو محفوظ پناہ گاہیں دے رہا ہے جو آئے روز ہمارے لوگوں کو مارنے کی کوششں میں ہیں۔

بھارتی کردار کی چاپلوسی کرتے ہوئے پاکستان پر دہشت گردوں کو محفوظ ٹھکانے فراہم کرنے کا الزام دھرتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں امریکی صدر نے کہا کہ ’’ہم پاکستان میں موجود دہشت گرد تنظیموں کی محفوظ پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہیں گے۔‘‘ اگرچہ پاکستان کو امریکا سے کسی خیر کی توقع نہیں رکھنی چاہیے تھی، کیونکہ احسان فراموشی امریکیوں کے لہو میں شامل ہے، لیکن یہ امید بھی نہ تھی کہ کم ظرف امریکا یوں پاکستان کی برس ہا برس کی قربانیوں کو یکسر نظر انداز کردے گا۔

امریکا کی نئی افغان پالیسی پر ردعمل دیتے ہوئے پاکستان کے مختلف تجزیہ کاروں، سیاست دانوں اور سابق وزرا نے امریکا کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ عالمی ماہرین نے بھی امریکی صدر کے موقف کو غیر دانشمندانہ قرار دیا ہے۔ ’’نیویارک ٹائمز‘‘ کے مطابق ماہرین کا موقف ہے کہ صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات کے منفی نتائج برآمد ہوں گے اور ٹرمپ کی تنقید پاکستان اور چین کے تعلقات مزید مستحکم کرنے کا باعث بھی بنے گی، کیونکہ دونوں ممالک بھارت کو خطے میں اپنا مخالف سمجھتے ہیں۔

امریکا نے پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کو بھی تھپکی دی ہے، حالانکہ اس نے دہشتگردی کی جنگ میں کسی بھی قسم کی قربانی نہیں دی۔ صدر ٹرمپ نے بھارت کو افغانستان میں مزید کردار ادا کرنے کی دعوت دی ہے، حالانکہ بھارت خود اس خطے میں دہشتگردی کو فروغ دے رہا ہے۔

بھارت کی بدنام زمانہ انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ برسوں سے افغانستان کی سرزمین کو بلوچستان اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں دہشت گردی کروانے کے لیے استعمال کر رہی ہے۔ امریکی افواج کی افغانستان میں موجودگی کے دوران پاکستان کو ناراض کرنا ایک غیر دانشمندانہ اقدام ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکا اسے حوالے سے ایک مخصوص حد تک ہی پاکستان پر دباؤ ڈال سکتا ہے، کیونکہ امریکا افغانستان میں پاکستان کے بغیر ہرگز نہیں لڑ سکتا۔

صدر ٹرمپ پاکستان کو دی جانے والی امداد کا احسان جتارہے ہیں، اس سے کئی گنا زیادہ مالی نقصان افغانستان میں امریکا کی شروع کردہ جنگ میں فرنٹ لائن اسٹیٹ کا کردار ادا کرنے کی وجہ سے ملک کے اندر بدامنی، خوں ریزی اور دہشت گردی کی شکل میں پاکستان کو اٹھانا پڑا ہے۔ امریکا کی جنگ میں کود کر پاکستان کو 150 ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑا ہے، جب کہ 2002 سے اب تک امریکا نے صرف 33 ارب ڈالر پاکستان کو امداد کے نام پر دیے ہیں، جس میں 15 ارب ڈالر کے قریب تو جنگی اخراجات کی رقم تھی۔

پاک فوج اور شہریوں کا جانی نقصان بھی ستر ہزار سے متجاوز ہے۔ پاکستان نے نائن الیون کے بعد اپنے ایئر پورٹس امریکا کو دیے، فضائی حدود امریکی طیاروں کے لیے کھول دیں۔ ڈرون حملوں کی اجازت دی۔ سلالہ حملہ برداشت کیا۔ ایبٹ آباد حملے پر خاموش رہا، اس کے برخلاف امریکا نے افغانستان میں پاکستان مخالف قوتوں کو مضبوط کیا اور بھارت کو افغان سرزمین سے پاکستان کے خلاف دہشت گردی کی سہولت دی۔ جس کے بدلے میں امریکا کو پاکستان کی قربانیوں کی داد دینی چاہیے تھی، لیکن امریکا 16 سال افغانستان میں طالبان کے ہاتھوں پٹنے کے بعد اپنی ناکامی کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے۔

16 سال تک 783 ارب ڈالرز خرچ کرکے بھی ڈیڑھ لاکھ امریکی فوج تمام جدید ترین آلات و ہتھیاروں کے باوجود افغانستان کو دہشت گردی سے نجات نہیں دلاسکی، بلکہ پاکستان میں دہشت گردی کے لیے بھی دہشت گرد افغانستان سے آتے ہیں، لیکن امریکی ناکامی تسلیم کرنے کے بجائے پاکستان کو ہی موردالزام ٹھہرارہے ہیں۔ اس صورتحال کی زیادہ ذمے داری پاکستان کے ان نااہل اور عاقبت نااندیش حکمرانوں اور اپوزیشن پر بھی عائد ہوتی ہے، جنھوں نے اپنے فیصلوں، اقتدار کے لالچ اور غیروں کے ایجنڈے کی تعمیل کے لیے پاکستانی سرزمین او رعوام کو دوسروں کے ہاتھ بیچ ڈالا۔

پاکستان کے سنجیدہ حلقے برسوں سے یہ کہتے چلے آرہے ہیں کہ یہ جنگ پاکستان کی ہے ہی نہیں، بلکہ امریکا کی جنگ ہے، اس جنگ میں امریکا کا ساتھ دینا کسی طور بھی نقصان سے خالی نہیں ہے۔ امریکا کسی بھی ملک کو استعمال کر کے ٹشو کی طرح پھینک دیتا ہے۔ ہوا بھی ایسا ہی ہے۔ امریکا کی جنگ میں پاکستان کو ہمیشہ نقصان ہی اٹھانا پڑا ہے اور اب ایک بار پھر امریکا پاکستان کو دھمکیاں دے رہا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ امریکا پاکستان کو سفارتی طور پر تنہا کرنے کے بھارتی منصوبے کا حصہ بن گیا ہے اور امریکی وزارت دفاع بھارت کی آلہ کار بن چکی ہے۔

اب وقت آگیا ہے کہ پاکستان کے حکمران جرات کا مظاہرہ کریں اور اب بھی اپنے راستے امریکاسے جدا کرلیں تو بہتر ہے۔ وقت آگیا ہے کہ امریکا کو کہہ دیا جائے کہ اب بہت ہوگیا۔ اب امریکا افغانستان میں خود لڑے، ان کی عقل ٹھکانے آجائے گی، کیونکہ امریکا اور درجنوں دوسرے ملکوں کی افواج کی جدید ترین ہتھیاروں اور ٹیکنالوجی کے ساتھ افغانستان میں موجودگی کے باوجود اس ملک کے آدھے حصے پر آج بھی طالبان کا کنٹرول ہے۔

طالبان افغانستان میں امریکی فوج کے خلاف مزاحمت جاری رکھے ہوئے ہیں اور ٹرمپ انتظامیہ کو باور کرارہے ہیں کہ اگر اس نے افغانستان سے اپنی فوجیں نہ نکالیں تو افغانستان کو امریکی فوج کا قبرستان بنا دیا جائے گا۔ اس حقیقت سے ہرگز انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اگر پاکستان مدد نہ کرتا تو امریکا افغانستان میں کبھی بھی قدم نہیں جما سکتا تھا۔ پاکستان کے اس وقت کے آمر حکمران پرویز مشرف نے نہ صرف امریکا کو ہوائی اڈے دیے، بلکہ ان کے ساتھ قدم قدم پر مکمل ساتھ بھی دیا۔ اس کے باوجود امریکا 16 سال سے کوشش کے باوجود افغانستان میں کامیابی حاصل نہیں کرسکا ہے۔

امریکی صدر ٹرمپ کو سوچنا چاہیے کہ یہ جنگ بہت پرانی ہے اور امریکا کے دو صدور اسے کسی انجام تک پہنچانے کی حسرت دل میں لیے وائٹ ہاؤس سے رخصت ہو گئے۔ صدر اوباما بھی افغانستان میں فوجی موجودگی کم کرنا چاہتے تھے، لیکن اپنے کمانڈوز کی وجہ سے مجبوراً فوجیں بڑھانا پڑیں۔ امریکی جنگی کمانڈروں کا یہ منصوبہ تھا کہ اتنی زیادہ امریکی فوج بالآخر افغان طالبان کو نیست و نابود کر دے گی، لیکن امریکا تمام تر اسلحہ اور طاقت کے باوجود طالبان سے افغانستان کو خالی نہیں کروا سکا ہے۔ امریکا اب پاکستان کے تعاون کے بغیر افغانستان میں خود لڑنا چاہتا ہے تو لڑ کر دیکھ لے اور خود بھگتے۔

امریکی صدر چار ہزار فوجی افغانستان میں بھیج کر یہ جنگ جیتنا چاہتے ہیں، یہ ان کی بھول ہے۔ مستقبل جلد یہ فیصلہ کردے گا کہ پاکستان کے بغیر امریکا کو افغانستان سے نکلنے کا محفوظ راستہ بھی نہیں ملے گا۔ اب ہمیں امریکی ’’ڈومور‘‘ کو ’’نو مور‘‘ میں بدلنا ہے، جس کے لیے تمام قومی، سیاسی، دینی اور عسکری قائدین کے یکسو ہونے کی ضرورت ہے۔ موجودہ حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ حکومت اپنی قومی خارجہ پالیسی پر نظرثانی کرکے قومی تقاضوں سے ہم آہنگ جرات مندانہ پالیسیاں وضع کرے اور پاکستان کی آزادی و خودمختاری مضبوط ہاتھوں میں مکمل محفوظ ہونے کا متعلقین کو ٹھوس پیغام دے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔