نجی کرکٹ لیگز بڑا مسئلہ بنیں گی

سلیم خالق  منگل 29 اگست 2017
کم وقت میں زیادہ پیسے کمانے اور کمزور اینٹی کرپشن نظام کے سبب بیشتر لیگز آلودہ ہو چکیں۔ فوٹو : فائل

کم وقت میں زیادہ پیسے کمانے اور کمزور اینٹی کرپشن نظام کے سبب بیشتر لیگز آلودہ ہو چکیں۔ فوٹو : فائل

آئندہ چند برسوں میں عالمی کرکٹ کا منظر نامہ ہی بدلنے والا ہے، پیسے کمانے کیلیے اب ہر بورڈ اپنی ٹوئنٹی 20 لیگ کرا رہا ہے جس سے ایک دن ایسا آئے گا جب کھلاڑیوں کے پاس اپنے ملک کی نمائندگی کا وقت ہی نہیں بچے گا،اس وقت بورڈز اور کرکٹرز آمنے سامنے کھڑے ہوں گے.

آپ ویسٹ انڈیز کا حال دیکھ لیں گزشتہ کچھ عرصے میں کئی بار ایسا ہوا جب ان کی ٹیم انٹرنیشنل کرکٹ کھیل رہی تھی مگر وہ آئی پی ایل کی وجہ سے اس میں شریک نہ ہو سکے، بورڈ  کی روک ٹوک سے بچنے کیلیے ہی بعض کھلاڑی معاہدے سے بھی آزاد رہنا چاہتے ہیں، شکر ہے ابھی پاکستان پر ایسا وقت نہیںآیا مگر جو حالات چل رہے ہیں اس سے صاف ظاہر ہے کہ آئندہ چند برسوں میں ہمیں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا، اس وقت یہ حال ہے کہ افغانستان بھی اپنی لیگ کرا رہا ہے،پاکستان، بھارت، ویسٹ انڈیز، آسٹریلیا، بنگلہ دیش میں بھی لیگز ہوتی ہیں۔

جنوبی افریقہ نے حال ہی میں گلوبل لیگ لانچ کی، انگلینڈ کے ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ میں بھی معروف غیرملکی کرکٹرز حصہ لیتے ہیں، وہ بھی مستقبل میں الگ ایونٹ کرانے کا سوچ رہا ہے،اب تو ایسے حالات ہیں کہ کل کو زمبابوے بھی ٹی ٹوئنٹی لیگ کے انعقادکا اعلان کر دے گا، اب آپ سوچیں جب اتنی ساری لیگز ہوں گی تو قومی ٹیم کیلیے میچز کھیلنے کا وقت کب ملے گا، آئی سی سی نے بھی اس حوالے سے کوئی واضح حکمت عملی نہیں بنائی،فل ممبرز کو تو اجازت لینے کی بھی ضرورت نہیں پڑتی، ایسے حالات میں  پی سی بی کوتو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں.

آپ نے اپنے کھلاڑیوں کو آزاد چھوڑ رکھا ہے جس کا دل چاہے کسی بھی لیگ سے معاہدہ کر لیتا ہے، ابھی تو خوش قسمتی سے ٹیم میں بڑے اسٹارز شامل نہیں، چیمپئنز ٹرافی کی فتح کے بعد اس جانب سفر شروع ہوا ہے لیکن ایک، دو اور ایونٹس جیت کر جب یہ کھلاڑی مزید مقبولیت حاصل کریں گے تو انھیں کنٹرول کرنا آسان نہ ہو گا، لہذا بورڈکو نجی کرکٹ لیگز پر مہربانی ختم کر کے اس حوالے سے کوئی حکمت عملی تیار کرنا پڑے گی، اب چونکہ پاکستان بھی پی ایس ایل کرا رہا ہے۔

اسے بھی اپنے ایونٹ کیلیے غیرملکی کرکٹرز کی ضرورت پڑے گی لہذا مکمل انکار تو نہیں کیا جا سکتا، مگر اس کیلیے ایک پلان بنائیں کہ فلاں لیگ میں اتنے کھلاڑیوں کو این او سی ملے گا، دوسرے میں اتنے کرکٹرز جا سکیں گے، بڑے کھلاڑیوں کو بڑے ایونٹس کھیلنے دیں، چھوٹی لیگز میں کم معروف پلیئرز کو بھیجیں،جس کا مالی نقصان ہو رہا ہو اسے کچھ زر تلافی دیں، اس دوران اپنی پی ایس ایل اتنی مضبوط بنا لیں کہ کسی  سے ڈرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے،غیرملکی کرکٹرز کو زیادہ معاوضہ دیں گے تو وہ دوڑے چلے آئیں گے، جیسے بھارتی کرکٹرز اپنی آئی پی ایل کے سوا کسی ٹی ٹوئنٹی لیگ میں حصہ نہیں لیتے، مگر دنیا بھر کے کھلاڑی ان کے ایونٹ میں شرکت کیلیے بے چین رہتے ہیں.

اس وقت پی سی بی کی کوئی پالیسی نہیں، کیریبیئن لیگ کیلیے کھلاڑیوں کو جب این او سی دے دیے تھے تو ان کی پاسداری کرنی چاہیے تھی،قومی ٹیم کی مصروفیت ہوتی تو ضرور بلاتے صرف فٹنس ٹیسٹ کیلیے بلانے کا کوئی جواز نہ تھا، ہاں اگر ٹور کیلیے ویسٹ انڈین بورڈ پر دباؤ ڈالنے کیلیے ایسا کیا تو یہ جائز بات ہے۔

مگر اس کا نقصان قومی کرکٹرز کو اٹھانا پڑا، ان کے متبادل ٹیموں میں آ گئے اور اب وہ سی پی ایل نہیں کھیل سکیں گے،مستقبل میں این او سی مخصوص کرکٹرزکو دیں تاکہ مسئلہ ہی پیش نہ آئے، افسوس کی بات یہ ہے کہ ڈائریکٹر کرکٹ آپریشنز ہارون رشید بغیر سوچے سمجھے فیصلے کر رہے ہیں، ٹی ٹوئنٹی ایونٹ کا اعلان ہوا پھر ملتوی کر دیا.

قائد اعظم ٹرافی پہلے کرانے کا فیصلہ ہوا پھر ڈپارٹمنٹس کے احتجاج پر تاریخیں بڑھا دیں، پھر ڈرافٹنگ کی تاریخ بھی بدل دی، اس سے ان کی اہلیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، انھیں چاہیے کہ کسی فیصلے سے قبل سب کو اعتماد میں لیں، دیگر معاملات دیکھیں پھر اعلان کریں،تاریخیں بدلنے سے وہ اپنی نااہلی اور نجم سیٹھی کی سفارش پر تقرری کا ڈھول خود ہی پیٹ رہے ہیں، اب آگے بنگلہ دیش لیگ آٓنے والی ہے، اس کیلیے بھی تھوک کے حساب سے پاکستانی کرکٹرز نے معاہدے کیے،اس ایونٹ میں ماضی میں فکسنگ کے سنگین واقعات پیش آ چکے لیکن پی سی بی کو کوئی پروا نہیں، اگر ہوتی تو اپنی پی ایس ایل بھی ایسے معاملات سے بچ جاتی، بنگلہ دیش میں اینٹی کرپشن کا نظام انتہائی ناکارہ ثابت ہوا ہے۔

ان کا بورڈ ہم سے کبھی تعاون نہیں کرتا، ٹور سے بار بار انکار کیا اورخود اپنے ملک میں کئی دہشت گردی کے واقعات پر بھی ٹیموں کو ہاتھ پاؤں جوڑ کر بلا لیا، ہوم سیریز کا پی سی بی نے حصہ مانگا تو انکار کر دیا، ایسے ملک کی لیگ کیلیے تو کسی ایک پاکستانی کو بھی این او سی نہیں دینا چاہیے، اسی طرح جنوبی افریقہ نے اپنی لیگ دوبارہ لانچ کی ہے، ماضی میں اس سے فکسنگ کے کئی واقعات جڑے ہوئے ہیں،اس کیلیے بھی پی سی بی کو این او سی دیتے ہوئے سو بار سوچنا چاہیے، کہیں یہ نہ ہو کہ مزید کئی کرکٹرز کسی مسئلے میں پھنس جائیں۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ جنوبی افریقہ کو پہلے سے پتا تھا کہ بنگلہ دیش بھی اپنی لیگ کرا رہا ہے اس کے باوجود انہی تاریخوں پر ایونٹ کے انعقاد کا اعلان کر دیا، اس سے یہ بھی واضح ہے کہ مستقبل میں بورڈز بھی ایسی لیگز کے سبب متصادم ہوںگے۔

کم وقت میں زیادہ پیسے کمانے اور کمزور اینٹی کرپشن نظام کے سبب بیشتر لیگز آلودہ ہو چکیں، سری لنکا میں ایسی لیگ سٹے بازی کے سبب ہی ختم ہوئی،بھارت میں آئی پی ایل کے دوران بڑا اسکینڈل سامنے آیا، آسٹریلوی بگ بیش اور کیریبیئن لیگ کے بارے میں اب تک کوئی واقعہ شاید رپورٹ نہیں ہوا یا منظرعام پر نہیں آیا، اس وقت آئی سی سی کا کردار بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

اگر کوئی پالیسی نہ بنائی تو ورلڈ کپ، ورلڈٹی ٹوئنٹی اور چیمپئنز ٹرافی میں بھی دلچسپی کم ہونے لگے گی، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ جیسے ورلڈکپ چار سال میں ہوتا ہے، ہر 2 سال میں کسی ملک کو لیگ کرانے کی اجازت دیں، اس کو فیوچر ٹور پروگرام میں جگہ دیں، باری باری سب کو موقع ملے، اینٹی کرپشن کے معاملات کونسل خود سنبھالے ، شاید پھر معاملات کنٹرول میں رہیں، فی الحال تو یہ مسئلہ بڑا بنتا دکھائی دے رہا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔