بات صرف بم کی ہی نہیں

عبدالقادر حسن  بدھ 30 اگست 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

امریکا کو پاکستان کی ہر بات منظور ہے سوائے ایٹم بم کے اور بھارت کو تو پاکستان ہی منظور نہیں۔بھارت کی منظوری یا نامنظوری سے ہمیں کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ہم اب ایک ایٹمی طاقت ہیں اور بھارت یہ بات اچھی طرح جانتا اور سمجھتا ہے کہ ہم اس صلاحیت میں اس سے کہیں آگے ہیں اب وہ جو بھی کرتا رہے ہم ایک ایٹمی حقیقت ہیں اور دنیا یہ بات تسلیم کر چکی ہے مگر اس کے باوجود دنیا کی طاقتور طاقتیں صرف ہمارے ہی ایٹم بم کے درپے ہیں اور کسی بھی قیمت پر اس کو ختم کرنا چاہتی ہیں لیکن ہم ایک کمزور ملک ہونے کے باوجود ابھی تک اپنی اس ایٹمی صلاحیت کا کامیابی سے دفاع کرتے آئے ہیں کہ اسی میں ہماری بقاء ہے اور یہ ایٹم بم ہی ہماری سلامتی کا ضامن ہے۔

ہماری ہر حکومت بار ہا یہ اعلان کر چکی ہے کہ ہمارا ایٹمی پروگرام پُرا من مقاصد کے لیے ہے لیکن پاکستانیوں کو امریکا اور بھارت کی طرح اپنی حکومتوں کی اس بات سے اختلاف رہا ہے کہ جب دنیا کی دوسری طاقتیں ایٹم کی صلاحیت حاصل کر چکی ہیں اور ہمارا دشمن بھارت بھی ایٹمی ملک ہے تو ہم اپنے ایٹم کو پُرامن کیوں کہتے رہتے ہیں یہ ہمارے دفاع کی سب سے بڑی کامیابی ہے۔

عالمی حالات میں ہماری حکومت کی کیا مجبوریاں ہیں اور اس کا کچھ کچھ اندازہ قوم کو بھی ہے کہ ذرایع ابلاغ کے وسیع ذرایع موجود ہیں جو کہ دنیا بھر کی پل پل کی خبر ایک کونے سے دوسرے کونے تک پہنچاتے رہتے ہیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ محب وطن اور باعزت پاکستانی اپنی حکومت کی اس تاویل پر خاموش رہتے ہیں۔

مجھے ان تمام باتوں کی یاد بھارتی جرنیل کی اس بات سے آئی ہے کہ بھارت کو ہمارا چین کے ساتھ مشترکہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ منظور نہیں ہے اور وہ اسے اپنے ملک کی بقاء کی خلاف سمجھتے ہیں۔ پہلے پہل تواس  منصوبے کے بارے میں ڈھکے چھپے لفظوں میں یہ بات کہی جا رہی تھی کہ پاکستان میں بد امنی کی موجودہ لہر کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے اور وہ ہماری اس اقتصادی خوشحالی کے منصوبے کو پسند نہیں کر رہا لیکن اب یہ بات ان کے اپنے جرنیل نے واضح کر دی ہے اور اس نے اس منصوبے کے خلاف اعلان ِ جنگ کر دیا ہے اور ہمیں ایک بار پھر للکارا ہے کہ بھارت پاکستان کے اندر بھی منصوبوں کو پسند نہیں کرتا اور ان کے خلاف وہ اپنی بھر پور کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔

بھارتی جرنیل کا یہ بیان صرف ہمارے خلاف ہی نہیں بلکہ اس خطے کی ایک بڑی طاقت چین کے بھی خلاف ہے جو اس منصوبے کا روحِ رواں ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ چین کا ردِ عمل کیا ہوتا ہے کہ بھارتی صدر مودی جلد ہی چین کا دورہ کرنے والا ہے اور وہاں پر اس بڑی طاقت کے سامنے وہ اس منصوبے کی مخالفت کا کیا جواز پیش کرتا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت آبادی کے لحاظ سے ایک بڑا ملک ہے لیکن اس بڑائی کے باوجود وہ ایک خوفزدہ ملک بھی ہے اور ہندوؤں میں یہ جرات ہی نہیں کہ وہ کھل کر مسلمانوں کا مقابلہ کر سکیں، ہاں ہندوؤں نے اپنے ساتھ رہنے والے مسلمانوں کو بہت تنگ کر رکھا ہے اور آئے روز وہ کسی نہ کسی بہانے مسلمانوں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگین کرتے رہتے ہیں۔اصل میں وہ مسلمانوں کی ایمانی طاقت سے حواس باختہ ہیں اور ان کی حکومت اپنے عوام کے حوصلے بلند رکھنے کے لیے اپنی بڑائی کے دعوے کرتی رہتی ہے جس سے شہہ پا کر ہندو مسلمانوں کو اپنے عتاب کا نشانہ بناتے رہتے ہیں۔

سیاسی فیصلے کرنا سیاستدانوں کا کام ہوتا ہے، ہمارے سائنسدانوں نے تو ہمیں ایٹم بم بنا کر دے دیا اور جن حالات میں بنایا وہ سب کے سامنے ہیں، ہاں اس کی وقتاً فوقتاً یاد دہانی کراتی رہنی چاہیے کہ ہماری نوجوان نسل کو بھی یہ بات معلوم ہو کہ ان کے بڑوں نے ان کے مستقبل کو محفوظ کر نے کے لیے کتنی قربانیاں دی تھیں۔

ہمیں محسن پاکستان ڈاکٹر قدیر اور ان کے گمنام ساتھیوں کو بھی اپنے لوک گیتوں کی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ یہ لوگ ہی ہماری قوم کی آبرو ہیں اور ہمارے دلوں سے ان کا پیار اور محبت کبھی ختم نہیں ہو سکے گی۔ انھوں نے ہمیں ایک ایسے خواب کی تعبیر دی جو ہمیں دنیا میں نکتہ عروج پر لے گئی بس ہماری قوم کی زندگی میں ایسے ہی حقیقت بننے والے خواب ہیں جن کے سہارے ہم زندہ ہیں ورنہ ہماری سیاسی حکومتوں کی مجبوریوںکو اگر دیکھا جائے تو پھر ہماری باعزت زندگی کا کوئی بھی جواز باقی نہیں رہتا کہ وہ اپنے سیاسی مقاصد کو ترجیح دیتے ہیں۔

ہمارے ایٹم بم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ امریکا اور اس کے حواری ہیں جو کہ ایک مسلمہ ایٹمی طاقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہیں اور ان کا مقصد صرف یہی ہے کہ کسی طرح پاکستان کی اس طاقت کو ختم کر دیا جائے۔ امریکا ہمارے کسی بھی سربراہ سے ہاتھ ملانے کے بعد خیر وعافیت دریافت کر نے کے سے بھی پہلے یہ سوال کرتا ہے کہ آپ ایٹم کوختم کر دیں اور دوسری بات اس کے منہ یہ نکلتی ہے کہ بھارت اس خطے کا ایک بڑا ملک ہے آپ اس کی بڑائی کو تسلیم کر لیں۔ امریکا کا یہ موقف اس کی عالمی پالیسیوں کے مطابق ہے اور حال ہی میں اس کے صدر کی پاکستان کو دھمکیوں کے اس کے موقف کی تائید بھی ہوتی ہے کہ اصل میں اس کو تکلیف کیا ہے۔

امریکا کو یہ حق حاصل ہے کہ جہاں اس کا بس چلے وہ اپنی بات منوائے لیکن بات گھوم پھر کر ہمارے اوپر آجاتی ہے۔ جنوبی ایشیاء میں امن کے لیے طاقت کا توازن آبادی کی تعداد پر قطعی طور پر منحصر نہیں ہے بلکہ ہند اور مسلم دو قوموں کی برابری پر منحصر ہے، تعداد اور رقبے میں بے شک دونوں قوموں میں کتنا ہی فرق کیوں نہ ہو کچھ دوسرے ناقابل ِ تردید حقائق اس خطہ میں امن کے لیے دونوں قوموں میں سو فیصد توازن کا تقاضہ کرتے ہیں ۔ان حقائق کو تسلیم کیے بغیر نہ بھارت باقی رہ سکتا ہے اور نہ کوئی مسلم ملک۔بھارت کے ہر حکمران کو بھی ان حقائق کا ہمیشہ احساس رہا ہے مگر وہ اپنے اندرونی ڈر کی وجہ سے اس کا اظہار اور اعتراف کی جرات نہیں کر پاتے اور غلط فہمیوں اور خوش فہمیوں میں پناہ ڈھونڈے ہوئے ہیں۔

اگر بھارت پاکستان کے ایٹم بم کو کھلے دل سے تسلیم کر لے تو طاقت کا توازن کا پلڑا جو کہ وہ اپنے حق میں بھاری سمجھتا ہے برابر ہو جائے اور جنوبی ایشیاء میں بد امنی اور جنگ کے خوف کے بادل ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائیں۔ طاقت کے اس توازن کو تسلیم کیے بغیر بھارت امریکا کی حمایت سے جتنا بھی زور لگا لے اس خطے کے عوام امن اور خوشحالی کی زندگی بسر نہیں کر سکتے کیونکہ یہ کسی طور ممکن نہیں کہ اس خطے میں بسنے والے مسلمان ہندوؤں کی برتری تسلیم کر لیں اس خطے کے مسلمانوں کا ایٹم بم امن کی واحد ضمانت ہے اور برصغیر کی آج تک کی تاریخ کے تقاضوں کے عین مطابق ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔