ہم شکوؤں والی گلی کے مکین ہیں

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 30 اگست 2017

شاید ہی کبھی کوئی تحریر ایسی بروقت لکھی گئی ہو جیسی کہ فرانس کے شہر لی ہاوغ نے سونے کے قلم سے اس بکس پر لکھی تھی جو فرینک کیلاگ کو پیش کیاگیا تھا۔ جب انھوں نے پیرس جاتے ہوئے فرانس کے ساحل پر پہلا قدم رکھا تھا فرانس اور دنیا کی دوسر ی بڑی طاقتوں کے ساتھ معاہدے پر دستخط کے لیے 27 اگست 1928ء کو اور کہا تھا ’’اگر امن چاہتے ہوتو امن کے لیے کام بھی کرو‘‘ مستقبل کبھی مایوسی، شکوؤں، بد اعتمادی، غم و غصے اور شک پر تعمیر نہیں کیا جاسکتا۔ سمجھ یقیناً پہلی لازمی شرط ہوتی ہے۔

سب سے پہلے خود بیماری کی وجہ اور نوعیت کی سمجھ ہونی چاہیے۔ سمجھ ان رحجانات کی جو ہمارے وقتوں پر نظر رکھتے ہیں۔ ایسی سمجھ یقیناً ایک دن میں پیدا نہیں کی جا سکتی۔ مگر اس کے حتمی حصول کی پہلی شرط سمجھنے میں سنجیدگی ہوتی ہے کہ یہ اس سمت میں پہلا بڑا قدم ہوتی ہے۔ ہمیں یاد رہے ’’اگر ہم خوشحالی، ترقی، سکھ اور سکون چاہتے ہیں تو ہمیں ان کے لیے کام بھی کرنا ہوگا‘‘ جہاں ہم نے اور بہت کچھ ترک کر دیا ہے وہاں ہم نے سوچنا اور ہنسنا بھی چھوڑ دیا ہے۔

اب نہ تو ہمیں زندگی سے کوئی سروکار ہے اور نہ ہی اپنے آپ سے کوئی دلچسپی ہے۔ بس اس طرح جئے جا رہے ہیں جیسے یہ کوئی عادت ہو۔ جب حضرت عیسیٰ کے شاگردوں نے اس سے پوچھا کہ وہ تبلیغ کرتے وقت تمثیلیں کیوں بیان کرتے ہیں تو انھوں نے جواب دیا ’’اس لیے کہ آنکھیں رکھتے ہوئے بھی لوگ نہیں دیکھتے، کان رکھتے ہوئے بھی نہیں سنتے اور عقل رکھتے ہوئے بھی سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے‘‘ ہم سب اس وقت شکوؤں والی گلی کے مکین ہیں۔ بات کا آغاز بھی شکوے سے کرتے ہیں اور اختتام بھی شکوے پر ہوتا ہے۔ ہر بات پر شکوہ، ہر چیز میں شکوہ، ہر ایک پر شکوہ۔ ایک دبلا پتلا مریض سا شخص ابھی کچھ تقریر کرکے بیٹھا ہی تھا کہ یارک شائر کے ایک تیز فہم اور دانش مند آدمی نے کہا :

’’میں سمجھتا ہوں کہ جو بھائی ابھی بیٹھے ہیں ان کا مکان گلوں شکوؤں والی گلی میں ہے۔ میں بھی کچھ عرصہ وہاں رہ چکاہوں اور جتنے عرصہ میں وہاں رہا میری صحت کبھی اچھی نہ رہی۔ ہوا خراب، مکان خراب، پانی خراب۔ اس گلی میں تو پرندے بھی آکر نہیں چہچہاتے اور میں سدا غمگین اور اداس رہتا تھا۔ پھر میں وہاں سے بھاگ نکلا۔ میں نے مکان صبر و شکر والی گلی میں لے لیا ہے اس وقت سے میری اور میرے کنبے کی صحت اچھی ہے۔ ہوا صاف ہے، مکان اچھا ہے، سورج وہاں سارے دن چمکتا رہتا ہے، پر ندے صدا لگا تے رہتے ہیں اور مجھے زندگی کا لطف آتا ہے۔

میں اپنے بھائی کو صلاح دیتا ہوں کہ وہ بھی گلوں اور شکوؤں کی گلی والا مکان چھوڑ دیں صبروشکر کے کوچہ میں بہت سے مکان کر ائے کے لیے خالی پڑے ہیں مجھے یقین ہے کہ اگر ہمارے بھائی وہاں آجائیں تو وہ اپنے آپ کو تبدیل شدہ شخص پائیں گے۔ مجھے تو ان کو اپنا پڑوسی دیکھ کر بڑی ہی خوشی ہوگی‘‘ ہم سب اپنے لیے خوشحالی، ترقی، سکھ اور سکون تو چاہتے ہیں لیکن ان کے حصول کے لیے کچھ کر بھی نہیں رہے ہیں ہم آنکھیں،کان اور عقل بھی رکھتے ہیں لیکن انھیں استعمال بھی نہیں کررہے ہیں۔ ہم سب ہیں تو مریض لیکن ہمیں اپنے مرض سے کوئی سروکار نہیں ہے۔ ہم سب زندگی کو ایک عذاب سمجھ بیٹھے ہیں۔

گوئٹے ہم سے سوال کرتا ہے ’اگر ہم زندگی کو بڑی فکر والی چیز سمجھ لیں تو اس کی کیا قدروقیمت ہے۔ اگر صبح جاگ کر ہم کوکوئی خوشیاں نہیں ملتیں، اگر شام اپنے ساتھ نئی خوشیوں کی امید نہیں لاتی تو کپڑے پہننا اور اتارنا کیا وقعت رکھتا ہے؟

کیا سورج آج مجھ پر اس لیے چمکتا ہے کہ میں گزرے ہوئے ایام پر غوروفکرکروں یامیں ان چیزوں کو قبل از وقت دیکھنے اور زیرکرنے کی کوشش کروں جو نہ قبل از وقت دیکھی جاسکتی ہیں اور نہ ہی زیر ہوسکتی ہیں۔ یعنی آنیوالے ایام میں کیا کچھ مدعا ہے اس کی فکر کروں‘‘ ایڈورڈ دوئم بادشاہ انگلستان کے پرانے نسخہ جات کی کتب میں ہیوم کو ایک باب ملا ’’بادشاہ کو ہنسانے کے لیے‘‘ لنکن کہا کرتا تھا ’’اگرکبھی کبھی کھلکھلا کر ہنسنے کاعادی نہ ہوں تو مر جاؤں‘‘ آلورونیڈل ہالمیز لکھتا ہے ’’کئی سال گزرے کوہ آئرن پر قبر ستان میں پھرتے پھراتے میں نے ایک ایسی قبر دیکھی جس پر ایک سیدھا سادا سنگ مرمر کا ٹکڑا لگا ہوا تھا اور جس پر صرف چار لفظوں کاایک کتبہ لکھا ہوا تھا گو لفظ چار تھے مگر آس پاس کے لمبے چوڑے کتبوں کی نسبت میرے خیال میں زیادہ پر معنیٰ تھے۔

وہ لفظ یہ تھے ’’ She was so pleasant‘‘ صرف اتنا ہی کتبہ تھا اور یہ کافی سے زیادہ تھا اس ایک فقرہ سے ایک زندگی کی ہم آہنگی ظاہر ہوتی تھی۔ امریکی سابق صدر لنکن کے میز کے درازکے ایک کونے میں لطائف و ظرائف کی ایک کتاب پڑی رہتی تھی اور یہ اس کی عادت تھی کہ جب کبھی تھک جاتا یا رنجیدہ و ملول ہوجاتا تو اس کتاب کو نکال کر پڑھ لیتا۔

ایمرسن کا قول ہے ’’اپنی دیواروں پرکوئی اداس و غمگین تصویر نہ لٹکاؤ اور اپنی گفتگو میں رنج و ماتم کا ذکر درمیان میں نہ لاؤ۔ سینیکا کہتا تھا ’’جو ضرورت سے پہلے رنج کرتا وہ ضرورت سے زیادہ رنج پاتا ہے‘‘ دنیا میں کہیں بھی کسی ایسے شخص کا کوئی وجود نہیں ہے جسے مسائل اور دکھوں کا سامنا نہ ہو۔ ہم سب ہمیشہ ہی سے مسائل اور دکھوں کے درمیان جیتے آئے ہیں اور جی رہے ہیں۔ مسائل اور دکھوں کا وجود اس بات کی دلیل ہوتا ہے کہ ہم زندہ ہیں۔

صرف مُردوں کو مسائل اور دکھوں کا سامنا نہیں ہوتا ہے۔ ہاں یہ صحیح ہے کہ کبھی وقت اچھا ہوتا ہے اور کبھی برا۔ یہ بھی صحیح ہے کہ اس وقت ہمارا وقت برا چل رہا ہے ہمیں دنیا بھرکے لوگوں کے بر خلاف زیادہ مسائل اور دکھوں کا سامنا ہے لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہونا چاہیے کہ ہم سب جینا ہی چھوڑ دیں اور مسائل اور دکھوں کے سامنے ہاتھ باندھ کر اکڑوں بیٹھ کر ان سے معافی مانگنے لگ جائیں اور اپنے آپ کو ’’دکھ اور مسائل کی مخلوق‘‘ سمجھنا شروع کردیں۔

کسی روز آپ ٹھنڈے دل سے سوچیے گا کہ ہمیں اس کیفیت میں مبتلا کرنا کہیں ہمارے خلاف ایک سوچی سمجھی سازش تو نہیں ہے۔ کہیں یہ سب ایک پلاننگ کے تحت تو نہیں کیاگیا ہے، جب آپ سوچیں گے تو آپ فوراً نتیجے پر پہنچ جائیں گے اور آپ کے ہونٹوں پر اسی وقت مسکراہٹ آجائے گی، اس کے بعد آپ ہنستے ہوئے اٹھیں گے اور اپنی ’’خوشحالی، ترقی، سکھ اور سکون ‘‘ کے لیے کام کرنا شروع کردیں گے۔ پھر آپ جیئیں گے بھی اور ہنسیں گے بھی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔