ججوں، تفتیشی افسران اور گواہان کو تحفظ حاصل نہیں، چیف جسٹس

نمائندہ ایکسپریس / آئی این پی  اتوار 17 فروری 2013
ٹھوس شواہدنہ ہونے کی بنا پردہشت گردی میں ملوث ملزمان بری ہوجاتے ہیں. فوٹو: فائل

ٹھوس شواہدنہ ہونے کی بنا پردہشت گردی میں ملوث ملزمان بری ہوجاتے ہیں. فوٹو: فائل

اسلام آ باد: چیف جسٹس آف پاکستان افتخار محمد چوہدری نے کہا ہے کہ انسداد دہشت گردی ایکٹ کا مؤثر نفاذ نہ ہونے کی وجہ سے ججوں، تفتیشی افسران اور گواہان کو تحفظ حاصل نہیں ہے جس کی وجہ سے مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے،ججز اورگواہان کو تحفظ دینا ہوگا۔

ٹھوس شہادتوں کے بغیر مقدمات کا فیصلہ ممکن نہیں، ٹھوس شواہد نہ ہونے، ناقص تحقیقات اور کمزور پراسیکیوشن کے وجہ سے دہشت گردی کے مقدمات میں ملوث ملزمان کو بری کردیا جاتا ہے ،شواہد مکمل نہیں ہوں گے تو عدالتیں انصاف نہیں دے سکیں گی، التوا کی ایک وجہ ججوں کی عدم دستیابی ہے، جن ملزمان کا ٹرائل مکمل ہوچکا ہے ،انھیں سزا ملنی چاہیے۔وہ ہفتے کو سپریم کورٹ میںانسداد دہشت گردی کے مقدمات کا جائزہ اور قانون کے نفاذ کی نگرانی کیلیے اعلیٰ سطح کے اجلاس کی صدارت کررہے تھے۔ اجلاس میں سپریم کورٹ کے سینئر ججز اور خصوصی عدالتوں کی مانیٹرنگ کرنے والے ہائی کورٹس کے ججز نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں چاروں صوبوں کے آئی جی ، ہوم سیکریٹریز اور پراسیکیوٹر جنرل بھی موجود تھے۔

 

چیف جسٹس نے کہا کہ تفتیش اور استغاثہ کی کمزریوں کے سبب انسداد دہشت گردی عدالتوں پر بھی تنقید ہوتی ہے۔انھوں نے کہا کہ یہی وجہ ہے کہ استغاثہ، تفتیشی اہلکاروں کا حوصلہ بھی پست ہو جاتا ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ اے ٹی سی ایکٹ میں ججوں، گواہان، تفتیشی افسران کو تحفظ حاصل ہے لیکن اے ٹی سی ایکٹ کی کچھ شقوں کے عدم نفاذ سے مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہو رہے۔ اے ٹی سی ججوں، تفتیشی افسران اور گواہان کو تحفظ مہیا نہیں اس لیے گواہان دہشت گردی اور فرقہ وارانہ ہلاکتوں کے مقدمات میں آگے نہیں آتے۔ گواہان کے تحفظ کے اہم معاملے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔