تم یاد آئے

جاوید قاضی  جمعرات 31 اگست 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

یوں لگتا ہے زمانہ بیت گیا۔ کتنے راستے اور بہت سے ہاتھ چھوٹ گئے پھر یوں بھی ہوا کہ بہت سے ہاتھ ان راہوں پر نئے ملے۔ بر صغیرکی تاریخ ورثے میں ملی، میں اْس گھر میں پیدا ہوا جہاں گاندھی سے نفرت نہیں، گر محبت نہیں تو کم از کم عزت کرنا سکھائی گئی۔ میرے والد متحدہ ہندوستان میں پیدا ہوئے۔ طالب علمی کا زمانہ کانگریس کے ساتھ گزرا ۔ سبھاش چندر بوس اْن کے ہیرو تھے، گاندھی سے ان کو کھدر پہننے کی روایت ملی۔ مسلم لیگ میں آئے تو پاکستان بننے کے بعد مسلم لیگ کو خیر باد کہا اور باقی زندگی سندھ کے دہقانوں کے نام کر دی۔

میرا گھر جو کل ہندوستان میں تھا، آج پاکستان میں ہے۔ سندھ کو ہندوستان کے ساتھ ایک صدی بیت گئی تھی۔ 1843ء سے یہ سفر شروع ہوا۔1947ء میں ختم۔ ستر سال بیت چْکے پاکستان کو وجود میں آئے۔ گاندھی کے سینے میں اگرگولیاں ماری گئیں تو اْس کی وجہ یہ تھی کہ وہ بہت زیادہ پاکستان کی حمایت کرتے تھے۔ پھر یوں ہوا کہ دلی میں پاکستان کی وکالت کرنیوالے باقی نہ رہے اور پاکستان میں ہندوستان کی حمایت کرنے والے کافر ٹھہرے، یہ دوریاں جس تیزی سے بڑھی ہیں، یہ دیواریں جتنی اونچی ہوئیں ان دیواروں نے کبھی لتا منگیشکر کی آوازکو تو نہ روکا، مکیش کی آواز اِن سرحدوں کے تناؤ سے بہت بڑی ہے۔ نوشاد کی موسیقی کسی کے روکے نہیں رکی، ہم جسے ’’اردو‘‘ کہتے ہیں وہ اْسے’’ہندی‘‘ کہتے ہیں۔

جب سْنو تو سب ایک جیسا لگتا ہے اور اگر پڑھو تو صرف’’ناگری اسکرپٹ‘‘ بیچ میں آتا ہے۔ میرے شاہ لطیف کے استاد تھے۔ ’’بھگت کبیر‘‘ اور بھگت کبیرکے استاد تھے’’مولانا جلال الدین روْمی’’اِن کی آپس میں کبھی کوئی ملاقات نہ تھی، طویل فاصلے تھے، صدیاں اِن کے درمیان۔ فارسی، سندھی، ہندی زبانیں تھیں مگر محبت اِن کا سب کچھ تھا،خیال ایک تھا بس اْس خیال کا اظہارسب نے اپنی اپنی زبان میں کیا۔ بقول غالبؔ

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیںخیال میں

غالبؔ سریر خامہ نوائے سروش ہے

یہ سب یونیورسل تھے۔ یعنی فقیر صفت لوگ تھے۔ ایک کائناتی سوچ کے حامل تھے۔ پھر جو تھے وہ تم تھے یا میں تھا یوں بیچ میں زبانیں، ثقافتیں، مذاہب آگئے۔

ہماری تاریخ ہمارے لا شعور میں رہتی ہے۔ ہم اپنا بیانیہ بناتے وقت تاریخ سے منہ نہیں موڑ سکتے، تاریخ کی نفی کرنا مطلب اپنی شناخت کو مسخ کرنا ہے۔ آٹھ سو سال پہلے ہندوستان میں مسلمانوں کی کیا وقعت تھی اور پھر یوںبھی ہو ا کہ مسلمانوں نے پانچ سو سال تک ہندوستان پر راج کیا۔انگریزوں نے دلی کے تخت کو ہندوؤں سے نہیںمسلمانوں سے چھینا تھا ۔1940ء میں گاندھی کی تحریک ’’ہندوستان چھوڑ دو‘‘ کوئی پہلی تحریک نہ تھی۔ انگریزوں کو ہندوستان سے نکالنے کی پہلی تحریک 1857ء میں شروع کی گئی تھی جس کی قیادت مسلمانوں نے کی تھی۔ اس تحریک کا آغاز مسلمانوں نے اِس لیے نہیں کیا تھا کہ اْن کو ایک آزاد وطن ملے بلکہ یہ تحریک متحدہ ہندوستان کے لیے تھی۔

کتنا Embodied Labour تھا مسلمانوں کا ہندوستان کو بنانے میں۔ ہم اْس سے کیسے منکر ہو سکتے ہیں۔ گر یہ مان بھی لیا جائے کہ مسلمانوں دور حکومت میں ہندوؤں کو غلام بنا کر رکھا گیا مگر اْس کو انگریزسامراجیت کے برابر نہیں سمجھا جاسکتا۔ انگریز اور نادر شاہ کے حملے میں ایک چیز مشترک تھی وہ یہ کہ ہندوستان کو لْوٹ کر چلے جانا ہے۔ نادر شاہ کے حملے کا موازنہ اگر انگریزوں سے کیا جائے، تو انگریزوں کی غلامی بہتر تھی اِس لیے کے انگریزوں نے System دیا، اپنے ساتھ تعلیم لائے اور ایسا قانون لائے جو اپنی روح میں آفاقی تھا، منطقی تھا، جامع اور Organic تھا۔ وہ قانون وقت کے نئے تقاضوں میں ڈھل جاتا تھا۔ لیکن انگریز کو جانا تھا۔ مسلمانوں کو نہیں، کیونکہ ان کا وطن یہی تھا۔ ہندو اور مسلمان آپس میں پڑوسی تھے۔ دونوں ایک ہی تاریخ کے وارث تھے۔

گاندھی اور جناح کیا تھے؟ میرے والد لکھتے ہیں کہ1948ء میں نواب شاہ کے کلکٹر مسعود کھدر پوش اور میرے والد کے درمیان ایک بحث چِھڑگئی کہ گاندھی بہتر یا جناح بہتر۔ یہ بحث اِس ترتیب میں نہ تھی کہ ان میں سے کون بڑا ہے۔ گھنٹوں یہ بحث چلتی رہی، دونوں دوست کھدر پہنتے تھے جوکہ گاندھی کی روایت تھی۔ میرے والد مسلم لیگ میں تھے مگر تھے گاندھی کے Fan۔ انھوں نے اپنی سوانح حیات میں اْس دن کا ذکر بھی کیا ہے جس دن گاندھی کو مارا گیا۔ اس دن سناٹا سا چھا گیا تھا۔ آج گاندھی مجھے بھی بہت یاد آئے جب مْودی کے ہندوستان پر میں نے اپنی نگاہ ڈالی۔ ہندوستان اور پاکستان کے بڑھتے اور کم ہوتے تعلقات کے اِن ستر برسوں میں، اب جو نظر آ رہا ہے کہ اب ان دونوں ممالک کے تعلقات کہاں جا کر ختم ہونگے۔ اب کی بار جو دوریاں بڑھیں ہیں لگتا ہے جیسے دشمنی ازل سے تھی۔

پوری دنیا میں سب سے پس ماندہ خطہ ساؤتھ ایشیاء ہے۔ ہمارے باہمی اور تجارتی تعلقات نفرت کا شکار ہیں۔ ہم جنگی جنون میں اپنے اربوں روپے خرچ کر رہے ہیں۔ جو بجٹ ہم صحت و تعلیم کے لیے مختص کرتے ہیں وہ بھی کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔

ہندوستان کا پرائمری ایجوکیشن سسٹم ہم سے قدرے اگر بہتر ہو گا یا ہمارا پرائمری ہیلتھ سسٹم شاید ان سے کچھ بہتر ہو گا مگر دونوں ممالک دنیا کی نظروں میں پسماندہ ہیں۔ غربت اِن دونوں ممالک میں ایسے راج کرتی ہے کہ جیسےIndigenousدیس کا ماوا ہو، میں جب افریقہ کی پسماندگی کے بارے میں سوچتا ہوں تو وہاں کے باشندوں کے بھوک سے نڈھال چہرے میری نظروں کے سامنے گھومنے لگتے ہیں اور کم و بیش یہی ماجرہ ساؤتھ ایشیاء کا بھی ہے۔ بھوک و افلاس کے مارے لوگوں کے چہرے میری نظروں کے سامنے رہتے ہیں۔

میری سوچ محدود نہیں شاید جہاں نریندر مودی کی نگاہ نہیں جاتی وہ میں سوچ سکتا ہوں۔ کیونکہ میں صوفی تحریک کا وارث ہوں۔ اِنھیں نفرتوں اور تضادوں سے اْبھری تھیں صوفی تحریک اور بھگتی تحریک۔ ’’بگھت کبیر‘‘ ہند کو ہندو پس ِمنظر میں نہیں دیکھتے تھے نہ ہی ہندومذہب،کومذہب مانتے تھے۔ ان کی نظر میں اِس خطے کے تمام رہنے والے ’’ہند‘‘ کے باشندے ہیں چاہے وہ ہندو ہو یا پھر مسلمان۔ ہِند ایک وشال آغوش کا نام تھا۔ وہاں طرح طرح کے لوگ آتے تھے اور بس جاتے تھے۔ ہزار ہا سالوں کی تہذیبیں ہیں جو ’’ہند‘‘سے وابستہ ہیں۔

مجھے یہ تمام خیال اْس وقت آئے جب ہمالیہ کی اور ڈو کلام سے ہندوستانی فوجوں نے واپسی شروع کی اور چین کے ساتھ تناؤ کم ہوا اور یوں مودی کے بنے بیانیہHindu Hyper Nationalism کو جھکنا پڑا۔ اگر اسی طرح کی سوچ ہماری قوم میں بھی ہے تو میں اس کا حمایتی کبھی بھی نہیں ہوں۔ ہم اور وہ تمام لوگ جو کبیر کے، بْلھا کے، باہو کے، شاہ لطیف کے Followers ہیں چاہے یہاں یا پھر سرحد کے اْس پار، اْن سب کو Hyper Nationalism کے اس بیانیے سے لڑنا ہوگا۔ ہندوستان کو گاندھی چاہیے اور پاکستان کو جناح یا پاکستان اپنی تاریخ میں گاندھی کوRe-write کرے اور ہندوستان اپنی تاریخ میں جناح کو۔ لگ بھگ تین ارب لوگ چین اور ساؤتھ ایشیاء میں رہتے ہیں۔ کنفیوشیس کا چین، بھگت کبیر کا ہندوستان، بلھا، باہو اور بھٹائی کا پاکستان، جامی، عِطار اور رومی کا فارس۔

اگلی صدی ہماری ہے۔ ہمیں سامراجی سوچ کوشکست دینی ہو گی جس نے کشمیر کے بٹوارے کو ادھورا چھوڑا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔