کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر ایک اور حملہ

ایڈیٹوریل  اتوار 17 فروری 2013
جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ فوٹو : اے ایف پی

جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ فوٹو : اے ایف پی

ایک ماہ کے وقفے کے بعد بلوچستان کی ہزارہ منگول برادری پر ایک بار پھر قیامت گزر گئی، جب ہفتے کو کوئٹہ کی ایک رہائشی آبادی ہزارہ ٹاؤن میں بارودی مواد سے بھرے پانی کے ٹینکر میں دھماکے کے ذریعے 90 سے زاید انسانی جانوں کو تلف اور دو سو سے زائد کو زخمی کر دیا گیا۔ جاں بحق اور زخمی ہونے والوں میں بڑی تعداد عورتوں اور بچوں کی ہے۔ کوئٹہ میں گزشتہ ماہ اسی برادری کے سو کے لگ بھگ افراد ایک خود کش بم دھماکے میں جاں بحق ہوگئے تھے ۔

اس کے بعد تین روز بعد تک جنازوں کو سڑک پر رکھ کر احتجاج کے نتیجے میں13 جنوری کو صوبہ میں وزیراعلیٰ نواب اسلم رئیسانی کی حکومت توڑ کر گورنر راج نافذ کر دیا گیا تھا۔ گزشتہ روز کے دھماکے کے بعد سیکیورٹی ایجنسیوں اور انتظامیہ کے پاس منہ چھپانے کی کوئی جگہ نہیں رہی۔ دھماکے  کے بعد کالعدم لشکر جھنگوی کی طرف سے اس انتہائی افسوسناک ہلاکت خیز کارروائی کی ذمے داری قبول کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ کام ان کے خود کش بمبار نے کیا ہے ۔سرکاری ذرایع کا کہنا ہے کہ پانی کے خالی ٹینکر میں 8 سو سے ایک ہزار کلو گرام تک دھماکہ خیز مواد بھرا ہوا تھا جسے پر ہجوم مارکیٹ میں ریموٹ کنٹرول سے اڑا دیا گیا۔

اس قیامت خیز دھماکے سے ارد گرد کی تمام عمارتیں تباہ ہو گئیں۔ پولیس کے مطابق اس دھماکہ خیز مواد کی مقدار 10 جنوری کو علمدار روڈ پر کیے جانے والے دھاکے سے کہیں زیادہ تھی ۔ دھماکے کے وقت مارکیٹ میں خریداروں کا ہجوم تھا جب کہ اسکول کے بچے بھی چھٹی ہونے کے بعد وہاں سے گزر کر اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ دھماکے سے انسانی جانوں کے اعضا دور دور تک بکھر گئے جب کہ کئی دکانوں اور مکانوں کو آگ لگ گئی۔ کم از کم درجن بھر افراد کے زندہ جل کر ہلاک ہونے کی اطلاع بھی دی گئی ہے۔ اسپتال کے ذرایع کے مطابق وہاں لائی جانے والی زیادہ تر میتیں ناقابل شناخت ہو چکی ہیں۔

اسکول کے بچوں کے جلے ہوئے بستے اور کتابیں کاپیاں چاروں طرف بکھری ہوئی تھیں۔ دھماکے کے بعد پولیس اور ایف سی کے افسران موقع پر پہنچے تو مشتعل لوگوں نے ان پر پتھرائو کیا بلکہ اس موقع پر فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئیں۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں نے بمشکل صورتحال پر قابو پایا اور امدادی کارروائیاں شروع کیں۔ زخمیوں اور میتوں کو مختلف اسپتالوں میں پہنچایا گیا۔ اس المناک واقعے کے خلاف متعدد مذہبی اور سیاسی تنظیموں نے ہڑتال اور سوگ منانے کا اعلان کیا ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی کے لیڈر میر حاصل بزنجو کا کہنا ہے کہ بلوچستان میں فرقہ وارانہ قتل و غارت میں دو ممالک ملوث ہیں جس کے نتیجے میں گزشتہ پانچ سال کے دوران 15 سو سے 2ہزار افراد ہلاکت کا شکار ہوچکے ہیں۔گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی نے تسلیم کیا ہے کہ یہ دھماکہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی ہے۔

انھوں نے پورے صوبے میں سوگ منانے کا اعلان بھی کیا جب کہ سندھ میں بھی سوگ منانے کا اعلان کیا گیا ہے۔ صوبائی حکومت نے دہشت گردوں کی اطلاع دینے پر 2 کروڑ روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے جب کہ جاں بحق ہونے والوں کے لواحقین کے لیے 10,10 لاکھ اور زخمیوں کو دو دو لاکھ روپے دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ صدر اور وزیراعظم نے کہا ہے کہ ایسے واقعات سے دہشت گردی کے خلاف ہمارے عزائم کمزور نہیں ہوں گے۔ مجلس وحدت المسلمین کی طرف سے کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ اے این پی کے رہنمائوں کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں گورنر راج نافذ کرنے کے باوجود نتائج نہیں مل سکے۔ انٹیلی جنس نیٹ ورک کو مربوط کرنے کی ضرورت ہے۔

یہ کس قدر ظلم کی بات ہے کہ ملک کی ایک کمزور اقلیت کے ساتھ اس طرح کا  انسانیت سوز سلوک کیا جا رہا ہے، انھیں بسوں سے اتار کر اور ان کے شناختی کارڈوں سے ان کے نام پڑھ کر انھیں چن چن کر قتل کرنے کے بعد اب ان کی بستیوں پر حملے شروع کر دیے گئے ہیں حالانکہ کشمیریوں اور فلسطینیوں کے خلاف ایسی کارروائیوں کا الزام ہم ہنود و یہود پر لگاتے رہے ہیں لیکن کیا ہمارے اپنے ملک میں ہونے والے یہ المناک واقعات ہنود و یہود کی کارروائیوں سے کم ہیں۔ جو لوگ دہشت گردی کے ایسے واقعات میں بیرونی ہاتھوں کے کارفرما ہونے کا عندیہ دیتے ہیں، انھیں چاہیے کہ اس حوالے سے ٹھوس ثبوت اکٹھے کر کے ان کی تشہیر کریں،محض باتیں کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔

ہم پہلے بھی یہ کہہ چکے ہیں کہ دہشت گرد اور فرقہ پرستوں کے بارے میں گومگو کی پالیسی سے حکمران اشرافیہ کا تو کچھ نہیں بگڑ رہا‘ اس میں نقصان پاکستان کے عام انسانوں کا ہو رہا ہے‘ المیہ یہ ہے کہ حکمران اشرافیہ‘ سیاستدان اور دینی جماعتیں دہشت گردی اور اس سے جڑے ہوئے خطرات کا ادراک کرنے میں ناکام چلی آ رہی ہیں۔کوئی کاروباری مفادات کا اسیر بن کر دہشت گردوں‘ فرقہ پرستوں‘ قوم پرستوں اور لسانیت کے علمبرداروں سے مذاکرات کی بات کرتا ہے‘ کوئی مسلک کی بنیاد پر قاتلوں اور ملک دشمنوں کے ساتھ تعاون کر کے اپنے ہی وطن کی جڑیں کاٹنے میں مصروف ہے‘ کوئی قوم پرستی اور لسانیت کے تعصب میں اندھا ہو کر قاتلوں کا پشت بان بنا ہوا ہے‘ انھیں شاید یہ معلوم نہیں ہے کہ جب کوئی دہشت گرد منہ زور ہو جاتا ہے تو اپنے ہمدردوں پر بھی دھاوا بول دیتاہے۔

خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں‘ بلوچستان اور کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اس کی وجوہات حکمران اشرافیہ کے سامنے عیاں ہیں لیکن کیا کیا جائے کہ ہر کوئی اپنے اپنے تعصبات اور مفادات کا اسیر ہو کر کمزوروں کے قتل عام کا تماشا دیکھ رہا ہے‘ دہشت گردوں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ دشمن چھپا ہوا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے‘ دشمن سب کے سامنے ہے‘ وہ وارداتوں کی ذمے دار قبول کررہا ہے‘  اصل بات ہے کہ ریاستی مشینری پر کنٹرول رکھنے والوں کا عزم و حوصلہ کمزور ہے۔ سری لنکا چھوٹا سا ملک ہے‘ اس کے حکمرانوں میں حوصلہ تھا‘ انھوں نے تامل ٹائیگرز کا قلع قمع کر دیا‘ پاکستان ایک ایٹمی قوت ہے‘ سری لنکا سے کہیں زیادہ وسائل کا حامل ملک ہے‘ یہاں کے حکمران طبقے کی سمت واضح اور حوصلہ بلند ہو تو دہشت گردوں‘ فرقہ پرستوں اور جرائم پیشہ گروہوں کا صفایا کرنا کوئی مشکل کام نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔