امید کی کرن

وجاہت علی عباسی  پير 18 فروری 2013
wabbasi@yahoo.com

[email protected]

پاکستان میں آج کئی مسائل ہیں اور ہر مسئلے کا لانگ ٹرم حل ہے ’’تعلیم‘‘ لیکن پاکستان تعلیم کے میدان میں کئی ملکوں سے پیچھے ہے، دور کیوں جائیں، انڈیا میں پچھلے کچھ سالوں سے بہت زیادہ ترقی ہوئی ہے اور اس کی اہم وجہ ان کا اپنے تعلیمی نظام کو بہتر کرنا ہے جہاں پچھلے سال پاکستان میں ہائر ایجوکیشن کے بجٹ میں دس بلین روپے کی کمی کی گئی تھی وہیں انڈیا میں تعلیمی بجٹ پاکستان سے چالیس گنا زیادہ تھا جب کہ پاکستان ٹاپ ٹین ملکوں میں آتا ہے جہاں نوجوانوں کی آبادی ہے اس کے باوجود پاکستان میں بھوٹان، بنگلہ دیش اور نیپال کے مقابلے میں تعلیم پرکم خرچ کیا جاتا ہے۔

پاکستان میں آج 5.1 ملین بچے ایسے ہیں جو کبھی اسکول گئے ہی نہیں جن میں سے تین ملین لڑکیاں ہیں صرف کم بجٹ ہی نہیں پاکستان میں تعلیم کو اور بھی بہت سے مسائل درپیش ہیں، کچھ دن پہلے سندھ کے سینئر ایجوکیشن منسٹر پیر مظہر الحق نے سندھ اسمبلی کو بتایا کہ ان کے صوبے میں بیانوے (92) ایسے اسکول ہیں جہاں غیرقانونی طریقوں سے وڈیروں اور بااثر لوگوں نے قبضہ کررکھا ہے یا پھر پولیس نے وہاں چوکیاں بنا رکھی ہیں۔ یہ بات انھوں نے اس وقت کہی جب اسمبلی نے ان گیارہ سو اسکولوں کے خلاف کمیشن بٹھانے کا اعلان کیا جو صرف کاغذوں پر ہیں، اصل میں ان کا وجود ہی نہیں بلکہ کالج اور ہاسٹلوں میں بھی پولیس والوں نے قبضہ کیا ہوا ہے جیسے کراچی میں جناح ہاسٹل، سیٹھارام ہاسٹل اور حیدرآباد میں مسلم ہاسٹل اور ماضی کا مشہور ہائی اسکول محمد ہائی اسکول ان اداروں میں سے کچھ ہیں جن پر قبضہ کیا جاچکا ہے۔

سندھ میں گیارہ سو ایسے اسکول ہیں جو محض ’’گھوسٹ‘‘ ہیں، اس کی وجہ پچھلی حکومت کا جھوٹے اسکول قائم کرنا ہے تاکہ وہ یہ دکھاسکیں کہ کیسے ان کی حکومت میں ترقی ہورہی ہے جب کہ بننے والی بلڈنگ کبھی تعلیم پھیلانے کے لیے بنائی ہی نہیں گئی تھی، سندھ کے علاقے کھتالری میں ایسے سولہ اسکول ہیں اسی طرح ایک گاؤں میں اس طرح کی چھبیس عمارتیں بنائی گئی ہیں، ایک گاؤں بادل جونیجو جہاں صرف دو گھر ہیں وہاں بھی ایک اسکول بنایا گیا جس میں تین کمرے ہیں۔

یہ صرف نام کے اسکول بنانے کا مقصد محض ووٹ حاصل کرنا تھا وہ اسکول جن کا اب سندھ حکومت نے نوٹس لے لیا ہے، یو این ملینیم گولس کے مطابق پاکستان کا 2015 تک اپنی خواندگی کی شرح کو سوفیصد کرنا تھا جس میں پاکستان یقینا فیل ہوجائے گا نہ صرف یہ بلکہ ان ساتوں گولس میں فیل ہوجائے گا جو یو این نے سیٹ کیے تھے۔

اسکول کے معیار کی بات کی جائے تو وہاں بھی شرمندگی ہے زیادہ تر سرکاری اسکولوں کے معیار اتنے پست ہیں کہ کلاس سیونتھ اور ایٹتھ (7th-8th) کے بچے ٹوپلس ٹو اور CAT کیا ہوتی ہے کے جواب نہیں دے پاتے، اپنے ہی ملک کا مذاق بناتی ایک خاتون نے پاکستان کے برے تعلیمی نظام پر ڈاکومنٹری بناکر یوٹیوب پر ڈال دی جس میں وہ مختلف سرکاری اسکولوں میں جاکر بچوں سے کیٹ اور ڈاگ کا مطلب معلوم کرتی نظر آتی ہیں اور بچے ان کی طرف ایسے دیکھ رہے ہوتے ہیں جیسے کیٹ ڈاگ تو انھوں نے پہلے دیکھے ہوں لیکن انسان نہیں دیکھا۔

’’پاکستانی ایجوکیشن‘‘ یوٹیوب پر سرچ کریں تو وہ ویڈیو ہمارا مذاق اڑاتی سامنے آجاتی ہے، لیکن جیسے رات کے بعد صبح آتی ہے ویسے ہی ہر اندھیرے کے بعد روشنی کی کرن ضرور نظر آتی ہے اور ایسی ہی کرن سندھ ایجوکیشن منسٹر کی وجہ سے کچھ دن پہلے نظر آئی۔

فروری 13 کو سندھ اسمبلی میں ایک بل پیش کیا گیا جس کے مطابق اب سندھ میں تعلیم مفت اور لازم ہوگی، صوبے میں رہنے والا ہر بچہ جس کی عمر پانچ سے سولہ سال کے درمیان ہے، اسکول جانے کا پابند ہوگا اور اگر اس کے والدین نے اسے اسکول نہیں بھیجا تو یہ جرم مانا جائے گا، کئی بڑے ملکوں میں یہ نظام رائج ہے جیسے امریکا میں بچے کا آٹھویں تک تعلیم حاصل کرنا لازمی ہے۔

بنیادی تعلیم حاصل کرنے سے کئی چیزیں آسان ہوجاتی ہیں ملک میں خودبخود مہذب سوسائٹی تشکیل پاتی ہے امریکا میں ایک ڈالر سے لے کر سو ڈالر تک کے نوٹ ایک رنگ اور سائز کے ہیں، لیکن پاکستان سمیت ہر وہ ملک جہاں تعلیمی معیار کم ہے، وہاں نوٹ کے رنگ اور سائزکو اس لیے مختلف رکھا جاتا ہے کہ لوگ اسے دیکھ کر ہی پہچان لیں کہ یہ کتنے کا نوٹ ہے، تعلیم سے آنے والے چھوٹے چھوٹے بدلاؤ سے ایک بڑی تبدیلی ملک میں نظر آتی ہے۔

ایجوکیشن وزیر سندھ پیر مظہر الحق نے بتایا کہ اب ہر اسکول میں بیس فیصد بچوں کو مفت تعلیم دی جائے گی جس میں پرائیویٹ اسکول بھی شامل ہیں۔ وہ پرائیویٹ اسکول جو ملک سے کسی بھی قسم کی امداد نہیں لیتے ان اسکولوں کو بھی کم سے کم پانچ فیصد غریب بچوں کو مفت داخلہ دینا لازمی ہوگا۔

شاید وہ گیارہ سو بلڈنگ جو گھوسٹ اسکولوں کے لیے بنائی گئی تھیں، آج کام آجائیں۔ 2015 نہ سہی 2020 تک ہی سہی، لیکن ہمارے یہاں بھی خواندگی کی شرح سو فیصد ہوجائے۔ سندھ میں 13 فروری 2013 کو پاس ہونے والا یہ بل پاکستان کی تاریخ میں بہت اہم ثابت ہوسکتا ہے۔ اس بل کے بعد امید ہے کہ دوسرے صوبوں میں بھی ایسے ہی بل پاس ہوں گے اور تعلیم پورے پاکستان میں پھیل جائے گی۔

پاکستانیوں کی سب سے اچھی بات ہی پاکستان کے لیے نقصان دہ ہے، پاکستانی ایک تیز قوم ہے جو ہر چیز میں شارٹ کٹس نکالنا جانتے ہیں، لیکن محنت کا کوئی شارٹ کٹ نہیں ہوتا، آج ہماری قوم ہر محنت کے کام میں جلدبازی اور دھاندلی سے کام لیتی ہے، ہم امید کرتے ہیں کہ یہ بل جس مقصد کے لیے پاس ہوا ہے سب مل کر اس مقصد کے لیے کام کریں، اپنے ملک میں تعلیم پھیلائیں، ہر بچے کو اسکول بھیج کر تعلیم یافتہ کرنے کی کوشش کریں، کہیں یہ بل صرف بڑے لوگوں کے بچوں کو مفت میں بڑے اسکولوں میں داخلے کرانے کے لیے ہی نہ رہ جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔