گیبرئیل گارشیامارکیز کے ناول

ڈاکٹر ناصر مستحسن  پير 18 فروری 2013

پچھلے دنوں میں “Anthony Burgess” کے منتخب کردہ اور اس کے پسندیدہ ناولز پڑھ رہا تھا، میری نظر گیبرئیل گارشیا مارکیز کے ایک ناول “One Hundred Years of Solitude” پر پڑی جو اس نے غالباً 1967 کے اوائل میں لکھا تھا صرف وہ Anthony Burgess ہی کا پسندیدہ ناول نہیں ہے بلکہ اہل ذوق کا بھی من پسند ناول ہے، یہ وہ ناول ہے جس نے گیبرئیل گارشیا مارکیز کو بین الاقوامی شہرت کا حامل ناول نگار بنادیا، وہ کہتے ہیں نا راتوں رات امیر بنادیا مارکیز کے سلسلے میں  یہ کہنا ہے کہ اس ناول نے اس کو راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا اور جب آپ شہرت کی بلندیوں پر پہنچ جاتے ہیں تو آپ سے توقعات بھی اور زیادہ ہوجاتی ہیں، جن کی عمومی حیثیت واجبی نہیں بلکہ بہترین زمرے میں آتی ہے۔

مارکیز کے اس ناول کے کئی زبان میں ترجمے ہوئے اور یہ اس کے ان ناولوں میں سے ہے جو ہر بار طباعت کے بعد نیا سا لگتا ہے اور ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوتا ہے لیکن پڑھنے والے کی دلچسپی کم تو کیا زیادتی کی طرف مائل بہ پرواز رہتی ہے، کسی ایک کتاب کی اتنی پذیرائی بالعموم مارکیز سے کم صلاحیت رکھنے والے ادیب یا لکھاری کو عموماً جلد ہی دفن کردیتی ہے، مگر مارکیز کے سلسلے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس نے اپنا مقام ان معدودے  چند لکھنے والوں میں شامل کرلیا ہے جن کی تحریروں میں کبھی نہ ختم ہونے والے تخیل، تجربے اور مواد کی فراوانی ہوتی ہے۔ گیبرئیل مارکیز 1928 میں مثالی کولمبیا کے ایک معتدل علاقے کے ایک چھوٹے سے قصبے آرا کاٹاکا Aracataca میں پیدا ہوا تھا۔

اس کے والدین معاشی طور پر مستحکم نہیں تھے لہٰذا اس کو اسکول کی تعلیم دیر سے حاصل کرنا پڑی وہ زیادہ تر اپنے ننھیال ہی میں رہتا تھا اور جب مارکیز کالج کی سطح پر تعلیم حاصل کر رہا تھا تو اس کے نانا فوج میں کرنل کے عہدے سے فارغ ہوگئے تھے۔ وہ صحافت کے ریگزاروں میں مسافت کرتا رہا، آپ اس کو جنون کہیے یا شوق کہ اس نے صحافت کو پیشے کے طور پر اپنانے کے لیے اپنی تعلیم تک کو چھوڑ دیا، مارکیز کو 1956 میں روم میں صحافتی ذمے داری دی گئی جو اس نے بصد شوق قبول کی اور اسی اثناء میں وہ متعدد بار امریکا، اسپین اور فرانس آتا جاتا رہا، اس کو جلاوطنی کا عذاب بھی سہنا پڑا۔

ترقی پسند ادب کا خاص کام یہ ہوا کرتا ہے کہ وہ ادب کو ’’ادب برائے ادب‘‘ ہی کی حد تک محدود نہیں کرتا بلکہ اس ادب کو زندگی کا ایک سچا ترجمان بناتا ہے یہ اس تحریک کی روشن خیالی اور فکری وسعت کو ظاہر کرتی ہے، ہر ترقی پسند نقاد، دانشور، شاعر اپنے اپنے زمانے کا ادب زندگی سے رشتہ جوڑتے ہوئے پیش کرتا ہے، سماج میں قائم فرسودہ نظام زندگی کے خلاف، سامراجی ظلم وستم کے خلاف غریب مظلوم کسانوں، مزدوروں کے اوپر استحصالی قوتوں کے خلاف۔ میرا نہیں خیال کہ کسی بھی عہد کا ادب اگر استحصالی قوتوں اور طاغوتی عناصر کے سامنے جھک جائے تو اس سے اظہار رائے کی آزادی پیدا ہوگی نہیں بلکہ اس عمل سے اظہار رائے کی آزادی پر پابندیاں لگ جائیں گی، پھر فکرتازہ کی آبیاری کیونکر ممکن ہو پائے گی؟ مغرب کے لکھنے والون نے ترقی پسند ادب کو پروان چڑھانے میں بڑا مثبت کردار ادا کیا ہے۔

ہمارے یہاں ترقی پسندی کے مفہوم کو سمجھنے میں جو غلط فہمیاں پیدا ہوئیں کسی نے اشتراکیت کے پروپیگنڈے کو ترقی پسندی کہا، بعض نے صرف پرانی روایات اور پرانی قدروں کو مٹانے اور ہر قسم کی پابندیوں سے آزادی اور سماج سے بغاوت کو ترقی پسندی سمجھ لیا۔ بعض کے نزدیک جنسی مسائل پر آزادانہ گفتگو ہی ترقی پسندی ٹھہری کیونکر زندگی کی کوئی بھی حقیقت گندی اور ناپاک نہیں ہوسکتی، گویا ان کے نزدیک جنس زدگی اور عریاں نویسی ہی ترقی پسندی ہے اور کسی نے مہذب اور روایات کی تضحیک و استزا کو ترقی پسندی جانا، ترقی پسندی ایک تاریخی حقیقت ہے، اسے معاشی یا معاشرتی تبدیلیوں کی روشنی میں سمجھا جاسکتا ہے مارکس اور اینگلز ترقی پسندی کو جامد تصور نہیں کرتا۔

انھوں نے اسکائلیس سے لے کر شیکسپیئر دانتے، گوئٹے اور زولا تک کی تحریروں کا تاریخی شعور کی روشنی میں مطالعہ کرکے ثابت کیا کہ یہ سارے ادباء اپنے اپنے عہد میں ترقی پسند رجحانات رکھتے تھے، مارکیز بھی دوسرے ادباء کی طرح سیاست کے ساتھ ساتھ غریب اور کمزور کا ہم نوا، ملکی آمریت کا مخالف اور غیرملکی استحصال کا سخت دشمن ہے، صحافت سے قریبی رشتہ ہونے کی وجہ سے اس کی تحریروں کا انداز بہت ہی ہمہ جہت، پہلودار اور کسی حد تک اشتعال انگیز ہے، اسی لیے اس کی کہانیاں فن بیان میں خداداد قابلیت و صلاحیت کا عین ثبوت ہیں۔ مارکیز بلاشبہ کم ترقی یافتہ ملک کا باسی ہونے کے باوجود اس کے یہاں ہمیں ایک کشادگی، ایک پختگی، سہل انگیزی، بیان میں روانی اور برجستگی ملتی ہے مارکیز نے ایسے دھڑکتے ہوئے زندہ ادب کی تخلیق کی ہے جو دوسرے ہسپانوی امریکی ادیبوں کے لیے مشعل راہ ہے۔

مارکیز کے ناول One Hundred years of the Solitude سے پہلے اس نے EL ontono del palriarca 1961  اور La Mala Hora 1962 لکھا جو اس کے قدرے مختصر ناول تھے، گارشیا کے بالعموم تمام ہی ناول اس کی ایسی تصویر کشی کرتے ہیں جس کے باعث مصنف، پرجوش طبع، جامع اس کے ساتھ ساتھ ایک مذہب پڑھا لکھا شخص نظر آتا ہے۔

انسان کی شخصیت ہی اس کو ممتاز بناتی ہے، فنون لطیفہ سے تعلق رکھنے والے لوگ چاہے وہ ادب کو پروان چڑھانے والے ہوں یا مصور یا فطرت کا حسن اور زمانے کی تلخی کو اپنے لفظوں میں ڈھال کر اس کو شعری آہنگ دینے والے حضرات ہوں ان کی تخلیق ہی ان کی شخصیت سازی میں اہم کردار ادا کرتی ہے، گارشیا کے ناول دیکھ کر ہمیں زمانے کی بے رخی، مصائب و الم، تکلیفیں و صعوبتوں کا ادراک ہوتا ہے، 1967 کے بعد کے لکھنے والوں میں کئی امریکی ناول نگار سامنے آئے ان میں John Fowles ، Roberts  Keith ،  Michal Froyn یا Thomas Pynchon یہ سب ناول نگار بلاشبہ بہت اعلیٰ درجے کا ادب تخلیق کر رہے تھے لیکن ادب میں راہیں قدرے مشکل ہی سے بناکرتی ہیں جو صعوبتوں، پریشانیوں میں جنم لیتا ہے اس کی سرشت میں احساس ذمے داری پیدا ہوجاتا ہے جو اس کو چین سے بیٹھنے نہیں دیتا اس کے بعد منٹو، فراز، فیض اور ڈاکٹر محمد علی صدیقی جیسی نابغہ روزگار ہستیاں پیدا ہوتی ہیں۔

ادب اگر انجماد کا شکار ہوجائے تو اس کے ارتقائی عمل میں تبدیلی منفی زاویوں کے ساتھ وارد ہوتی ہے، مارکس کی فہم و فراست نے ادب کے لکھنے والوں میں ایک شعور ایک آہنگ پیدا کردیا تھا جو قارئین اور پڑھنے والوں کو ان کے اردگرد حسرت و یاس کے ماحول سے نکالتا تھا۔مارکیز نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ’’ترقی پسند یورپی باشندے اپنے ملکوں کے لیے جس قسم کے سماجی انصاف کے خواہاں ہیں ویسے ہی ہدف، متفاوت حالات رکھنے والے لاطینی امریکا کے لیے موزوں نہیں ہوں گے؟ نہیں! ہماری تاریخ میں موجود بے پایاں تشدد اور درد، ایک عرصے پر محیط ناانصافیوں اور ناقابل بیان تلخیوں کا نتیجہ ہے، ہمارے اپنے اندر کی تین ہزار جمعیتوں کی سازش کا نتیجہ نہیں، مگر بہت سے یورپی دانشور، ان پرانے لوگوں جیسے طفلانہ انداز میں سوچتے ہیں جو عنفوان شباب کی اپنی ثمربار زیادتیوں کو بھول جاتے ہیں، گویا کسی اور شدنی امر کا حصول ناممکن ہے سوائے اس کے کہ دنیا کی دو بڑی طاقتوں کے رحم و کرم پر رہ کر ہی زندہ رہا جائے۔

دیکھا گیا ہے کہ ترقی پسند ادباء، ادب کے ذریعے سماجی تبدیلی اور ترقی کے لیے اہم کردار ادا کرتے رہیں گے، ایک ایسے دور میں جب ترقی یافتہ ممالک کا ’’کلب‘‘  غریب ممالک کے معاشی استحصال کے لیے نت نئے حربے اختیار کر رہا ہے ، جس سے طبقاتی کشمکش، روشن خیالی اور انسان دوستی کے مثالیے قابل نصیحت قرار دینے کی ہمہ جہت کوششیں ہو رہی ہیں۔پاکستان میں ترقی پسند تحریک چند معتبر ناموں کے چلے جانے کے بعد اب حالت نزع میں ہے، ترقی پسند تحریک کی بقاء و سلامتی کے لیے واقعتاً ایسے ناموں کی ضرورت ہے جو ادب کو زندگی سے ملاتے ہوئے تمام استحصالی قوتوں کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کردیں، اگر یہاں بھی قومی سیاست کی طرح اقربا پروری اور مفاد پرستی کی روش عام ہوجائے تو آنے والے حضرات کے ادب و تنقید کی پرورش اور آبیاری ممکن نہیں ہو پائے گی، چند ایک حضرات نوٹوں کے لیے اس تحریک کو نقصان نا پہنچائیں۔

یہاں میری استدعا حکومتی عہدیداران سے ہے کہ وہ اس مسئلے کو بیٹھ کر حل کریں اور جن حضرات کا ماضی بے داغ رہا ہو ان کو موقع دیں، ایسے کو نہیں جو ناادیب ہیں نا دانشور، ناماہر تعلیم، نا نقاد، مگر محض ان ادباء کے درمیان رہتے ہوئے خود کو ان ہی میں سے ایک سمجھتے ہیں۔ نیم حکیم خطرہ جاں والا معاملہ ہوجاتا ہے۔ ترقی پسند مصنفین پاکستان کا 23 سال بعد احیاء ہوا اور اس انجمن کے پہلے باضابطہ صدر ڈاکٹر محمد علی صدیقی کے اس دنیا سے چلے جانے کے بعد تادم تحریر کوئی ایسی جامع شخصیت نظر نہیں آتی جس کے ذمے انجمن کی باگ ڈور ہو۔گیبرئیل گارشیامارکیز کے ناولوں کو پڑھ کر اپنے ہی اردگرد کے ماحول سے آشنائی ہوجاتی ہے، وہ ہمیں سماج میں جاری افراتفری، انارکی، رشتوں سے باخبر ہی نہیں رکھتا بلکہ ہم میں حس ذمے داری بھی پیدا کرتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔