نیا جال لائے پرانے شکاری

زبیر رحمٰن  پير 18 فروری 2013
zb0322-2284142@gmail.com

[email protected]

انتخابات کے موسم کی آمد آمد ہے، پیسوں کی بوچھاڑ شروع ہوچکی ہے، بیانات، انداز اور پینترے بدل رہے ہیں، جو کل دوست تھا وہ آج کا دشمن اور جو کل دشمن تھا وہ دوست بنتا جارہا ہے۔ انتخابات سے اگر مسائل حل ہوتے تو حکمران کب کے انتخابات پر پابندی لگاچکے ہوتے چونکہ یہ سرمایہ داروں کا صرف مشغلہ یا کھیل ہی نہیں بلکہ ایک منافع بخش تجارت بھی ہے، اس لیے تجارت میں جوئے کھیلے جاتے ہیں۔ مگر اس جوئے میں نقصان نہیں بلکہ منافع ہی منافع ہوتا ہے۔

پاکستان پیپلز پارٹی جو کہ 1968 کے ناکام انقلاب کی پیداوار ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی حکمرانی میں تعلیم کا بجٹ 43 فیصد تھا اور اب اسی پیپلز پارٹی جس کے سربراہ آصف علی زرداری ہیں کی حکومت میں تعلیم کا بجٹ 0.8 فیصد ہے جب کہ فوجی بجٹ 510 ارب روپے ہے۔ جس پیپلز پارٹی میں کچھ انقلابی رہنما جے اے رحیم، معراج محمد خان، ڈاکٹر مبشر حسن، مختار رانا اور شیخ رشید مرحوم جیسے لوگ تھے آج بدقسمتی سے اسی پارٹی کے رہنما ویسا کردار ادا نہیں  کر رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں روزانہ 10 ہزار افراد غربت کی لکیر کے نیچے جا رہے تھے اور اب سرمایہ دارانہ جمہوری دور میں ہر روز 25 ہزار لوگ غربت کی لکیر کے نیچے جا رہے ہیں۔

یہی صورت حال نواز لیگ کی ہے۔ گزشتہ دور میں جب حکومت میں آئی تو سب سے پہلے مزدوروں کے عالمی دن ’’یوم مئی‘‘ کی چھٹی کو منسوخ کردیا ۔ پیرامیڈیکل اسٹاف اور جونیئر ڈاکٹروں کے جائز مطالبات نہیں مانے  جا رہے ہیں۔ حال ہی میں مسلم لیگ (ن) نے اعلان کیا ہے کہ فوجی بجٹ اسمبلی میں پیش کیا جائے گا، یہ نہیں کہا کہ غیرملکی قرضہ یعنی سامراجی قرضہ (آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک) کو بحق سرکار ضبط کرلیا جائے گا۔ اسی طرح سے عمران خان کرپشن کے خاتمے اور انصاف کی فراہمی کی بات کرتے ہیں۔ سامراجی سرمایہ کی ضبطگی کیے بغیر ، تعلیم اور صحت کے بجٹ میں اضافہ کیے بغیر سرمایہ داروں کو ختم کیے بغیر زمینی، بے زمینی اور کم زمین رکھنے والے کسانوں میں تقسیم کیے بغیر کس طرح سے کرپشن ختم کی جا سکتی ہے اور لوگوں کو انصاف فراہم کیا جاسکتا ہے۔

الطاف حسین فرماتے ہیں کہ 98 فیصد لوگوں کی ہم بات کرتے ہیں، مگر ان کی دوستی 2 فیصد لوگوں کے ساتھ ہے۔ جیسا کہ لیاقت جتوئی، آصف علی زرداری اور چوہدری شجاعت وغیرہ سے۔ پاکستان کے عوام کا استحصال کرنے والی سب سے بڑی قوت عالمی سامراج ہے۔ جس کو ہوگو شاویز، فیڈل کاسترو اور بہت سے رہنما اور ممالک نے للکارا ہے۔ کیا 98 فیصد لوگوں کو روزگار نہیں چاہیے؟ کیا روزگار کی فراہمی کارخانے لگائے بغیر لوگوں کو میسر ہوسکتی ہے؟ قطعی نہیں۔ ہمارے ملک میں ملٹی نیشنل کمپنیز کی یلغار سے مقامی کارخانے دار دیوالیہ نہیں بلکہ سامراجیوں کے آلہ کار بن چکے ہیں۔ اس لیے ضروری ہے کہ بحق سرکار سارا سامراجی سرمایہ یعنی آئی ایم ایف کے قرضوں کو ضبط کرلیا جائے۔ اس لیے کہ امریکا ہمیں 1 ڈالر دے کر 14 ڈالر لے جاتا ہے۔

ہم اتنے قرضوں کا سود دے چکے ہیں کہ وہ قرضوں سے زیادہ ادائیگی ہوچکی ہے۔ ان سرمایوں کو ضبط کرنے ہی سے عوام کو روزگار مل سکتا ہے۔ اس مسئلے پربعض سیاسی جماعتیں دم بخود ہیں۔ وہ فوجی بجٹ میں کمی کا مطالبہ بھی نہیں کرتیں۔ اس کے بغیر کیسے 98 فیصد عوام کو روزگار، علاج، تعلیم اور رہائش میسر ہوسکتی ہے۔ اسی طرح مذہبی جماعتوں نے 65 برس میں عوام کو کچھ نہیں دیا۔ صرفمختلف قوتوں سے پیسے بٹورے۔ مشرقی پاکستان میں ساز باز کرکے بنگالی عوام کا قتل عام کیا گیا اور اب بالواسطہ طور پر دہشت گردوں کی حمایت کی جا رہی ہے۔

دوسری جانب قوم پرست جماعتوں نے قوم پرستی کا نعرہ دینے کے سوا کبھی اپنی قوم کے محنت کشوں کے مسائل پر کوئی بات نہیں کی۔ سندھ کے ہاریوں کو نجی جیلوں میں قید رکھنے پر ان وڈیروں کو سزا دینے کا بھی کبھی مطالبہ نہیں کیا۔ کاروکاری کے گھناؤنے رواج پر خواتین اور لڑکیوں کے قتل پر کبھی بھی ہڑتال کی اور نہ مظاہرہ۔ اسی طرح بلوچستان، پختونخوا اور فاٹا کے قوم پرستوں نے کسانوں، مزدوروں اور خواتین کے مسائل پر کبھی بھی کوئی قابل ذکر جدوجہد نہیں کی۔ جنونیت پرست مذہبی جماعتیں خواتین کے پردہ کرنے پر زور تو دیتی ہیں، لڑکیوں کے اسکول اڑانے کا کام تو انجام دیتی رہتی ہیں لیکن انھوں نے اس پر کبھی بھی احتجاج نہیں کیا کہ 2012 میں پاکستان میں کاروکاری، غیرت، ونی، بے جوڑ شادی، سسرال میں قتل ہونے اور قرآن سے شادی کروانے اور باپ، بھائیوں، بیٹوں اور شوہروں کے ہاتھوں 6000 خواتین قتل کیوں ہوئیں؟

چونکہ پیپلز پارٹی عوام کو کچھ نہیں دے پائی، اپنے بنیادی منشور سے بھی ہٹ گئی، عوام کے سامنے کوئی متبادل نہیں ہے۔ جیسا کہ شاعر کہتا ہے ’’سارے لٹیرے ایک ہوئے‘ سارے اندھیرے ایک ہوئے‘‘۔  حال ہی میں سندھ کی 10 جماعتوں نے پی پی پی کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دیا ہے۔ جس میں مسلم لیگ فنکشنل، مسلم لیگ (ن)، جمعیت علمائے اسلام (ف)، جماعت اسلامی، نیشنل پیپلز پارٹی، جمعیت علمائے پاکستان، سندھ یونائیٹڈ پارٹی، سندھ ترقی پسند پارٹی، عوامی تحریک، پاکستان سنی تحریک شامل ہیں۔ جب کہ اس جانب کسی کی کوئی توجہ نہیں کہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پہلا ششماہی بجٹ خسارہ 624 ارب روپے تک پہنچ گیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کی رپورٹ کے مطابق پولیس مفرور اور اشتہاری قرار دیے گئے 89 ہزار ملزمان گرفتار کرنے میں ناکام ہے۔

ان میں سے صرف کراچی میں 22,535 ملزمان مفرور ہیں۔ سپریم کورٹ نے مزید انکشاف کیا ہے کہ سندھ پولیس کے 400 افسران و اہلکار جرائم میں ملوث  ہیں۔ یہ سارے معاشی مسائل اور سماجی جرائم سرمایہ دارانہ نظام کی برائیاں نہیں بلکہ اس نظام کے ناگزیر نتیجے ہیں۔ اس لیے اس نظام میں رہتے ہوئے کوئی بھی جماعت مسائل میں اضافہ تو کرسکتی ہے مگر کمی نہیں۔ اگر کوئی جرأت مند اور عوام دوست ہو اور شاویز یا فیڈل کاسترو جیسا اقدام کرنا چاہے تو اسے سب سے پہلے سامراجی سرمایہ کو بحق سرکار ضبط کرنا ہوگا اور فوجی بجٹ کو ختم کرکے 18 کروڑ عوام کو فوجی تربیت دینی ہوگی۔ ہر چندکہ مسائل کا واحد اور مکمل حل ایک غیر طبقاتی اور بے ملکیتی معاشرے کے قیام میں مضمر ہے۔ جہاں ساری دولت سارے لوگوں کی ہوگی۔ کرنسی نوٹ ختم کرکے اجناس سے تبادلہ ہوگا۔ خودکار انجمنیں اور کمیٹیاں سارا سماج کارہائے زندگی کو انجام دیں گی۔ کوئی بھوکا مرے گا اور نہ کوئی دولت کا مالک ہوگا۔ تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال اور تفریحی اوقات کی فراوانی ہوگی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔