بداعمالیوں کی سزا ضرور ملتی ہے

آفتاب احمد خانزادہ  ہفتہ 2 ستمبر 2017

عظیم فلسفی اپیکٹیٹس نے چالیس سو سال قبل کہا تھا ’’ہم جو بوتے ہیں وہی کاٹتے ہیں اور قسمت کسی نہ کسی صورت میں ہماری بداعمالیوں کی ہمیں ضرور سزا دیتی ہے‘‘ اس نے کہا تھا ’’آخرکار ہر شخص کو اپنے برے اعمال کی سزا مل کر رہتی ہے جو شخص اسے یاد رکھے گا وہ کسی سے ناراض نہیں ہوگا، کسی کو برا بھلا نہیں کہے گا، کسی پر تہمت نہیں دھرے گا، کسی کو آزردہ نہیں کرے گا، کسی کے جذبات کو ٹھیس نہیں پہنچائے گا، کسی سے نفرت نہیں کرے گا‘‘۔ ہم اگر اپنے موجودہ اور سابق حکمرانوں اور سیاستدانوں کی اکثریت کو انتہائی قریب سے دیکھیں اور انھیں سمجھیں تو ہم پر ایک خوفناک انکشاف ہوگاکہ ان سب کو مکمل تربیت کی ضرورت ہے۔

ایسی تربیت جو انھیں زندگی کے فلسفے، حکمرانی کے فن، مہارت سے لے کر اخلاقیات اور رویوں سے مکمل آگاہی دے، جو انھیں یہ سکھائے کہ وہ کوئی آسمان سے اتری الگ تھلگ مخلوق نہیں ہیں۔ وہ بھی ایک عام انسان ہیں، ان پر بھی وہ ہی قانون اور اخلاق کے تقاضے لاگو ہوتے ہیں، جو باقی انسانوں پر ہوتے ہیں، وہ بھی مٹی کے بنے ہوئے ہیں، انھیں بھی اپنی عزت ووقار کو ہر حال میں برقرار رکھنا چاہیے، عوام سے رابطے استوار کرکے اپنی بصیرت سے ان رابطوں کو مضبوط کرنا چاہیے اور دوسروں کو اپنے کردار سے متاثر کرنا چاہیے۔

انھیں جہد مسلسل اور ذاتی علم میں اضافہ کرنا چاہیے، سوچنے کے لیے وقت نکالنا اور پھر اپنی سو چ کے مطابق عمل کرنا اور ملک اور قوم کے مسائل کے حل تلاش کرنا چاہیے، مسلسل مطالعہ کرنا چاہیے اور اپنے اندرخوبیاں، برداشت، صبر، ایمانداری، دیانتداری پیدا کرنا چاہیے، ملک اور قوم کو درپیش چیلنجوں کا ڈٹ کر مقابلہ کرنا چاہیے، ہمیشہ سچ بولنا چاہیے، اپنی شکست کو تسلیم کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔

یاد رکھیں وہ کوئی سپرمین نہیں ہیں، ان کو بھی تربیت کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی کہ باقی انسانوں کو ہوتی ہے، اگر وہ اپنے آپ کو کوئی ’’خاص انسان‘‘ سمجھے بیٹھے ہیں تو وہ شرمناک غلطی کے مرتکب ہورہے ہیں۔ اگر وہ ملک کے آئین اور قانون کو اپنی لونڈی سمجھ بیٹھے ہیں اور وہ یہ چاہتے ہیں کہ وہ خوب لوٹ مار کریں، کرپشن دل کھول کر کریں، غبن کریں، جھوٹ بولیں، فراڈ کریں، سازشیں کریں، ملک کے مفاد کے بجائے صرف اپنا مفاد عزیز رکھیں، اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے ملک اور قوم کی بقا کو خطرے میں ڈال دیں اور کوئی عدالت یا قانون ان سے کوئی سوال نہ کرے، کسی جرم کی انھیں سزا نہ دے تو یہ کسی بھی صورت نہیں ہوسکتا ہے۔

اگر وہ کوئی بداعمالیاں کریں گے تو بقول اپیکٹیٹس قسمت انھیں ضرور سزا دے گی اور جب قسمت سزا دیتی ہے تو پھر انھیں ہر صورت اپیکٹیٹس کی کہی گئی بات یاد رکھنی چاہیے۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو پھر وہ نفرت کی انگیٹھی میں جلنا شروع ہوجائیں گے۔

جیسا کہ شیکسپیئر نے کہا تھا ’’اپنے دشمن کے لیے انگیٹھی اتنی گرم نہ کرو مبادا کہ یہ خود تمہیں ہی جلا ڈالے‘‘ اور جب آپ نفرت کی انگیٹھی میں جلنا شروع ہوجاتے ہیں تو تمہاری ساری قوتیں سلب ہوجاتی ہیں، تم اعصاب زدہ ہوجاتے ہو، تمہاری صورتیں بگڑ جاتی ہیں، تم اختلاج قلب میں مبتلا ہوجاتے ہو اور تمہاری زندگی گھٹنا شروع ہوجاتی ہے۔ بدلہ لینے کی کوشش سے آپ کو کس طرح نقصان پہنچ سکتا ہے؟ جریدہ ’’لائف‘‘ نے لکھا تھا کہ اس سے آپ کی صحت تباہ ہوسکتی ہے، خون کے دباؤ کے مریض عموماً نفرت کی وجہ سے اس مرض میں مبتلا ہوتے ہیں۔

جب حضرت عیسیٰ نے کہا تھا ’’ساڑھے سات سو دفعہ درگزر سے کام لو‘‘ تو وہ سب کو یہ بتا رہے تھے کہ خون کے دباؤ، امراض قلب، معدے کے زخم اور متعدد دوسری بیماریوں سے کیسے پہلو بچایا جاسکتا ہے۔ کیا ہمیں اپنی صحت اور مسرت کی خاطر قسمت کی سزا کو کھلے دل سے قبول نہیں کرلینا چاہیے اور اسے بھول جانا نہیں چاہیے۔ یہ ہی ایک بہترین اصول ہے جسے ہم سب کو اپنانا چاہیے۔ کنفیوشس کے الفاظ میں ’’ظلم و تعدی اور لوٹ مار کا شکار بننے سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچتا جب کہ تم اسے متواتر یاد نہ رکھو۔‘‘

آپ کا کینیڈا جانا ہو تو آپ جیسپر نیشنل پارک ضرور جائیے گا اور مغربی دنیا کے حسین ترین پہاڑ کو ٹکٹکی باندھ کر دیکھیے گا۔ اس پہاڑ کا نام ایک برطانوی نرس ایڈتھ کیول کے نام پر رکھا گیا ہے، جس نے 12 اکتوبر 1915 کو ایک جرمن بمبار دستے کے سامنے ایک رشی کی طرح اپنی جان دی تھی، اس کی وجہ؟ اس کا جرم؟ اس نے اپنے مکان میں زخمی فرانسیسیوں اور انگریزوں کو پناہ دی تھی، انھیں کھلایا پلایا، ان کی تیمارداری کی اور ان کی یہاں تک مدد کی کہ وہ بچ کر ہالینڈ سے نکل سکیں۔

جب اکتوبر کو اس صبح کو انگریزی پادری برسلزکے فوجی قید خانے میں اس کی کوٹھری کے اندر داخل ہوا تاکہ اسے موت کے لیے تیار کرے، ایڈتھ کیول نے صرف دو جملے کہے جو کانسی اور سکے میں محفوظ کرلیے گئے ہیں ’’میں محسوس کرتی ہوں کہ صرف حب الوطنی ہی کافی نہیں ہے، مجھے کسی کے ساتھ بھی نفرت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔

چند سال بعد اس کی نعش کو انگلستان لایا گیا اور ویسٹ منسٹر گرجا میں اس کی مغفرت کی دعائیں مانگی گئیں۔ آج لندن میں قومی مصوری کی گیلری کے بالمقابل ایک دھات کا مجمسہ نصب ہے۔ انگلستان کی ایک غیر فانی ہستی کا مجسمہ ’’میں محسوس کرتی ہوں کہ صرف حب الوطنی ہی کا فی نہیں ہے، مجھے کسی کے ساتھ بھی نفرت نہیں کرنی چاہیے‘‘۔

اپنی غلطیوں اور اپنے دشمنوں کو معاف کرنے اور بھول جانے کا یہ ہی طریقہ ہے کہ ہم ایسے آدرش اختیار کرلیں جو ہماری ذات سے بے انتہا بڑے ہوں، اس کے بعد ہم اپنے آدرش کے سوا ہر چیز سے بے نیاز ہوجائیں گے۔ آئیں، ہمارے موجودہ و سابق حکمران اور سیاست دانوں کی اکثریت اپنی تربیت کے کام کا آغاز آج ہی سے شروع کردیں، پھر دیکھیں کہ وہ اور ملک کے عوام دونوں کس طرح سکھ اور مسرت پاتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔