ٹرمپ اور ہماری سوچ میں تبدیلی کی ضرورت

شکیل فاروقی  منگل 5 ستمبر 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

امریکا کے صدر ٹرمپ نے آخرکار کافی سوچ بچار اور صلاح مشوروں کے بعد امریکا کی نئی افغان پالیسی کا اعلان کردیا گویا:

تھا انتظار جس کا وہ شاہکار آگیا

ٹرمپ کا کہنا ہے کہ انھوں نے یہ پالیسی افغان جنگ جیتنے کے لیے بنائی ہے ۔ اس نئی پالیسی میں پاکستان سے ایک مرتبہ پھر ’’ڈو مور‘‘ کا مطالبہ کیا گیا ہے جب کہ دوسری طرف بھارت کو ’’مثبت کردار‘‘ ادا کرنے کی دعوت دی گئی ہے۔ برطانیہ، نیٹو و بھارت اور افغانستان میں اس پالیسی کا خیر مقدم کیا ہے۔

آپ کو یاد ہوگا کہ ماضی میں ٹرمپ ایک عام شہری کے طور پر اس بات کے حامی تھے کہ امریکا کو افغانستان میں کم سے کم 10 ہزار کی تعداد میں فوج رکھنی چاہیے لیکن اپنی صدارتی مہم کے دوران وہ اپنے اس موقف سے ہٹ گئے تھے۔ لیکن اب ان کو بھی افغانستان میں فوج رکھنے کا اعلان کرنا پڑا ہے۔ صدر بننے سے پہلے ان کا موقف یہ بھی تھا کہ امریکا کو دنیا کی ٹھیکے داری چھوڑ کر اپنے اندرونی معاملات کی طرف توجہ دینی چاہیے۔

اگر غور سے دیکھا جائے تو امریکا کی اس نئی پالیسی اور ماضی کی افغان پالیسیوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ پاکستان کے حوالے سے یہ پالیسی گزشتہ دس پندرہ سال سے چار چیزوں کے گرد گھوم رہی ہے۔ دہشت گردی، ایٹمی ہتھیار، افغانستان اور بھارت۔ امریکا کا بھارت کے ساتھ جس قسم کا تعلق ہے اس کے پیش نظر اس کا اصل ہدف پاکستان نہیں بلکہ چین ہے۔ جہاں تک ٹرمپ کی حالیہ افغان پالیسی کا تعلق ہے اس میں صرف لب و لہجہ ٹرمپ کا ہے جب کہ باقی سب کچھ امریکی اداروں پینٹاگون اور سی آئی اے ہی کا ہے، اگر صدر ٹرمپ کی تقریر کے ابتدائی اور آخری حصے پر نظر ڈالی جائے تو انھوں نے امریکی فوج کے کردارکی کھل کر تعریف کی ہے اور اس کی قربانیوں کو بہت سراہا ہے جب کہ ہمارے یہاں صورتحال اس کے برعکس ہے یعنی ہمارے حکمراں فوج کو اپنا حلیف سمجھنے کے بجائے حریف سمجھتے ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ ہماری فوج کا ہمارے ملک کے دفاع اور سالمیت میں کلیدی کردار ہے۔ سچ پوچھیے تو افغانستان کے معاملات میں افواج پاکستان نے نہ صرف بے دریغ قربانیاں دی ہیں بلکہ ملک و قوم کی خدمت میں وہ کردار ادا کیا ہے جسے سنہری حروف میں لکھا جانا چاہیے۔

ٹیپ کا بند یہ ہے کہ امریکا افغانستان سے نہیں جا رہا۔ اس سلسلے میں اپنے اصل مقاصد اور عزائم کے بارے میں اس نے واضح طور پر کچھ نہیں بتایا۔ ان کا کہنا صرف اتنا ہے کہ ان کا ہدف دہشت گردوں کا خاتمہ اور جنگ جیتنا ہے۔ اس سے پہلے وہ افغانستان کے استحکام اور ترقی کی بات کیا کرتے تھے لیکن اس مرتبہ ایسا کچھ نہیں کہا گیا۔ البتہ اس بار نئی بات یہ ہوئی ہے کہ بھارت کی پیٹھ ٹھونکی گئی ہے اور پاکستان کو ’’ڈو مور‘‘ کے لیے کہا گیا ہے اور اس سلسلے میں ہم پر دباؤ مزید بڑھا دیا گیا ہے۔ گویا بھارت کو تھپکی اور پاکستان کو بھبکی۔ اب ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ اگر بھارت افغانستان میں اپنے پنجے مزید گاڑھ لیتا ہے تو ہمارے لیے مشکلات میں اضافہ یقینی ہے۔

اگر ہم امریکا کی اس نئی پالیسی کے نتیجے میں اس کے ساتھ ترک تعلق کرکے مکمل طور پر چین اور روس کا رخ کریں گے تو امریکا خطے میں متبادل تلاش کرے گا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ وہ افغان نیشنل آرمی کو مضبوط تر کرے اور اس کے ذریعے اپنے مقاصد پورے کرنے کی کوشش کرے۔ امریکا کے حوالے سے ہم عجیب مشکل میں گرفتار ہیں۔ امریکا کی دوستی کے بارے میں یہ کہنا حرف بہ حرف درست ہوگا:

ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو

جو بھی ہو، ہماری حکومت امریکا کے خلاف نہیں جاسکتی کیونکہ اس سے ہمیں مختلف شعبوں کے لیے کچھ نہ کچھ امداد ملتی ہی رہتی ہے جس کے بغیر ہمارا گزارا ممکن نہیں۔ اس لیے امریکا کا یہ کہنا کچھ غلط بھی نہیں کہ ہم سے پیسے لیتے ہو تو ہماری بات بھی مانو۔ امریکا کی کاسہ لیسی ہماری حکومت کا ہی نہیں ہمارے عوام کا بھی وطیرہ رہا ہے۔ ہماری حکومت اگر امریکی امداد پر مرتی ہے تو ہمارے عوام گرین کارڈ کے پیچھے دیوانے رہتے ہیں۔ گستاخی معاف ہم امریکا کو اپنا مائی باپ مانتے ہیں۔ ہم نے ماضی میں PL-480 کے تحت امریکا کا مال کھایا ہے اور ضیا الحق کے دور میں اپنی بقا اور سلامتی کو داؤ پر لگا کر امریکا کی Proxy War لڑی ہے۔

ہم امریکا کے نمک خوار ہیں اس لیے ہم نے مشرف کے دور میں بھی امریکا کا ساتھ دیا ہے البتہ کبھی کبھار ہم پر غیرت کا دورہ پڑتا ہے اور ہم امریکا سے ہٹ کر کسی اور طرف دیکھنا شروع کردیتے ہیں کبھی چین کی طرف اور کبھی روس کی طرف۔ ہماری ایک سوچ یہ بھی ہے کہ جب امریکا افغانستان سے چلا جائے گا تو پھر ہم طالبان کی مدد سے افغانستان میں اپنا کچھ کردار ادا کریں گے۔

عین ممکن ہے کہ یہ محض ہماری خوش فہمی ہو۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم ایک خودمختار اور آزاد خارجہ پالیسی اختیار کریں۔ مگر تماشا یہ ہے کہ ہمارے یہاں تو ایک عرصہ دراز تک وزارت خارجہ کا قلم دان ہی خالی پڑا رہا اور ہمارے سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف وزارت خارجہ کا اضافی بوجھ بھی اپنے ناتواں کندھوں پر اٹھائے رہے اور اپنے مشیروں کی مدد سے وزارت خارجہ جیسی اہم ترین وزارت کا کاروبار چلاتے رہے۔

ہمارا دوسرا مسئلہ Civilian اور فوجی Mindset کی تفریق کا ہے جوکہ قطعی مناسب نہیں۔ اس سے اقوام عالم کو غلط سگنل جاتا ہے کیونکہ جب ہمارا وزیر اعظم یہ کہتا ہے کہ طاقت کا اصل مرکز کہیں اور ہے تو ملک و قوم کی خواہ مخواہ بدنامی ہوتی ہے۔ ملک و قوم کی بقا اور سلامتی کا بنیادی تقاضا یہ ہے کہ سویلین حکمرانوں اور فوج کو ہمیشہ ایک ہی پیج پر ہونا چاہیے جیساکہ ہمارے پڑوسی دشمن ملک بھارت میں ہے۔ افغان جنگ کے حوالے سے پاکستان کو اپنے کردار کے حوالے سے ایک واضح موقف اختیار کرنا ہوگا جس میں سویلین اور ملٹری قیادت کی ہم آہنگی لازمی ہے۔

ہماری وزارت خارجہ کو اس حوالے سے بھرپور ہوم ورک کرنا چاہیے تاکہ وزیر خارجہ کے دورہ امریکا میں پاکستان کے مقدمے کو مدلل اور بھرپور انداز میں پیش کیا جاسکے۔ امریکی پالیسی سازوں کے نزدیک مستقل حیثیت صرف امریکی مفادات کی ہے جس کے زیر اثر دوستیوں اور دشمنیوں کے فیصلے کیے جاتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ ہمیں بھی اپنی سوچ میں تبدیلی لانی چاہیے اور اپنے ملک و قوم کے مفادات کو اولیت دینی چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔