مردم شماری کا قضیہ

مقتدا منصور  منگل 5 ستمبر 2017
muqtidakhan@hotmail.com

[email protected]

مردم شماری کے ابتدائی نتائج آ گئے ہیں۔ جس بات کا خدشہ تھا، وہ سامنے آگئی ہے۔ یعنی حسب توقع ان نتائج پرہر صوبے سے تحفظات کا اظہار۔ سندھ کی تمام جماعتوں بالخصوص نمایندہ سیاسی جماعتوں نے ان نتائج کو تسلیم کرنے سے مکمل طور پر انکار کردیا ہے، بلکہ عید کے بعد احتجاج کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ ہم  نے مردم شماری کے پہلے مرحلے کی تکمیل پر6 اپریل کو شایع ہونے والے اپنے اظہار میںجن امکانات اورخدشات کا ذکرکیا تھا،وہ اب کھل کر سامنے آرہے ہیں۔ ہم نے لکھا تھا کہ :

’’ پہلے مرحلہ میں ملک کے مختلف شہروں کے ساتھ سندھ کے سب سے بڑے شہرکراچی میں بھی مردم شماری کی گئی۔ لیکن شہرکے مختلف علاقوں سے یہ شکایات موصول ہورہی ہیں کہ مردم شماری کا عملہ ان تک نہیںپہنچ سکا ہے۔ اس کے علاوہ معلومات اکٹھا کرنے کا طریقہ کار بھی خاصا غیر اطمینان بخش محسوس ہوا۔خاندان کے سربراہ کو فارم نہیں دیا گیا۔ جو معلومات درج کی گئیں، وہ دکھانے سے گریزکیا گیا۔ خاندان کے جو افراد بیرون ملک بسلسلہ روزگار مقیم ہیں، انھیں شامل نہیں کیا جارہا۔ حالانکہ ایک علیحدہ کالم میں ان کا اندراج ممکن تھا۔ اس کا مطلب ہوا کہ شہر کی مکمل آبادی مردم شماری میں شامل نہیں ہوسکے گی۔‘‘

اسی اظہاریے میں آگے چل کر لکھا تھا کہ’’ پاکستان میں پہلی مردم شماری(1951)کو چھوڑ کراب تک ہونے والی ہر مردم شماری پرکسی نہ کسی شکل میں انگشت نمائی ہوچکی ہے۔1961میں ہونے والی مردم شماری کے بارے میںبنگالی عوام کی جانب سے یہ شکایت سامنے آئی کہ ان کی آبادی کو دانستہ طورپر کم ظاہر کیا گیا۔جب کہ اس سے قبل پیرٹی کے سفاکانہ فارمولے پر عمل کرتے ہوئے 1955 میں ان کے سیاسی حق پر پہلے ہی ڈاکہ مارا جاچکاتھا۔ مگر پھر بھی مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والی اشرافیہ کو خوف تھا کہ کسی بھی وقت بنگالی اپنی عددی اکثریت کی بنیاد پرمزید وسائل کا مطالبہ نہ کردیں۔اس لیے ان کی آبادی کو کم ظاہر کرنے کے لیے الٹے سیدھے ہتھکنڈے جاری رہے۔

1972میں تیسری مردم شماری،سابقہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد ہوئی۔ اس مردم شماری کے بارے میںسندھ کے شہری علاقوں سے متوشش شہریوں کی جانب سے سندھ ہائی کورٹ میں پٹیشن جمع کرائی گئی کہ کراچی، حیدرآباد اور سکھرکی آبادی کو کم ظاہرکیا گیا ہے۔ عدالتی کارروائی کے دوران اس وقت کے سیکریٹری داخلہ محمد خان جونیجو نے عدالت کے سامنے یہ اعتراف کیا تھاکہ انھوں نے وزیر اعظم کے حکم پر کراچی کی آبادی کو 80 ہزارکم ظاہرکیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں شہری اور دیہی آبادی کے حکومت کی جانب سے طے کردہ تناسب کو قائم رکھنے کے لیے ایسا کیا گیاتھا، تاکہ شہری علاقوں کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستیں دیہی علاقوں سے زیادہ نہ ہوجائیں۔ حالانکہ سندھ ملک کا وہ واحد صوبہ ہے، جہاں اربنائزیشن کا عمل دیگر صوبوں کے مقابلے میں زیادہ تیز رفتار ہے، اگر سندھ میں شفاف مردم شماری کرائی جائے تو شہری آبادی دیہی آبادی سے زیادہ نکلے گی۔‘‘

اسی اظہاریے (6اپریل)میں ہم نے جسٹس(ر) وجہیہ الدین کی اس پٹیشن کا بھی ذکر کیا تھا جو انھوں نے سپریم کورٹ میں دائر کی تھی۔ جس میں انھوں نے بعض اہم نکات کی نشاندہی کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ سے استدعا کی تھی کہ وہ اس عمل کی شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے احکامات جاری کرے۔

اپنی پٹیشن میں انھوں نے کہاتھا کہ 1998 کی مردم شماری کے مطابق پنجاب میں شرح ولادت 2.64 فیصد، جب کہ سندھ میں یہ شرح2.8فیصد سالانہ تھی۔یوں سندھ میں19برسوں کے دوران اس شرح کی مناسبت سے آبادی میں اضافے کی شرح پنجاب سے زیادہ ہوگی۔ پنجاب اورخیبر پختونخواہ کے علاوہ دیگرممالک سے بھی ایک بہت بڑی تعداد ہر سال نقل مکانی کرکے سندھ میں آباد ہوتی ہے۔ اس لیے صوبوں کے درمیان آبادی کا 1998والا تناسب برقرار نہیں رہ سکتا۔‘‘

اسی پٹیشن میں انھوں نے یہ بھی کہا کہ 1998کی مردم شماری کے مطابق پنجاب کی آبادی ملک کی کل آبادی کا 55.63فیصد تھی۔مگر2011میں ہونے والی خانہ شماری کے نتیجے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پنجاب کی آبادی 47.69فیصد رہ گئی ہے۔یہ دو حوالوں سے درست معلوم ہوتی ہے۔اول، پنجاب میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں پیدائش کی شرح کم ہے۔ دوئم، پنجاب سے آبادی کا بڑا حصہ اس دوران بیرون ملک اور سندھ منتقل ہوا ہے۔ اب اگر پنجاب کی آبادی47.69فیصد کے لگ بھگ رہ جاتی ہے ، تو اس کے اثرات قومی اسمبلی میں اس کے حصے پر بھی مرتب ہوں گے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس وقت قومی اسمبلی میں پنجاب کو دیگر صوبوں کے مقابلے میں واضح برتری حاصل ہے۔ جو شفاف مردم شماری کے نتیجے میں گھٹ کر48 فیصد کے قریب رہ جائے گی۔ یہی سبب ہے کہ پنجاب کی صوبائی حکومت کے علاوہ وفاقی حکومت بھی اس ممکنہ صورتحال سے پریشان ہے۔لہٰذا ان کی کوشش ہے کہ مردم شماری کے اعداد وشمارکو اس حد تک تبدیل کیا جائے کہ سابقہ تناسب برقرار رہ سکے۔

معروف ماہر اقتصادیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا حالیہ مردم شماری کے ابتدائی نتائج کے بارے میں کہنا ہے کہ جن شکوک و شبہات کا اظہار کیا جارہا ہے، وہ درست ہیں۔کیونکہ دیہی اور شہری خانہ یونٹ کا سائز مساوی دکھایا گیا ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ دیہی علاقوں میں خاندان کی جسامت بڑی ہوتی ہے۔

اس کے برعکس شہری علاقے کے ایک یونٹ کی جسامت کم ہوتی ہے۔ لیکن دیہی علاقے میں ایک پلاٹ پر ایک ہی خاندان آباد ہوتا ہے۔ شہر میں ایک پلاٹ پر کئی یونٹ ہونے کی وجہ سے کئی خاندان آباد ہوتے ہیں۔ اس لیے دونوں طرز حیات میں برابری نہیں ہوسکتی۔ یہ بنیادی سقم ہے، جو سامنے آیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ جو حلقے اور جماعتیںاعتراض اٹھا رہی ہیں، انھیں چاہیے کہ اپنے طور پر ماہرین کی مدد سے چند بلاکس کی دوبارہ مردم شماری کرائیں اور اس کا موزانہ سرکاری مردم شماری سے کریں، توکچھ ٹھوس حقائق سامنے آسکتے ہیں۔

کراچی کے سابق ایڈمنسٹریٹر اور شہری امور کے ماہر فہیم الزمان خان کا کہنا ہے کہ حکومت نے دانستہ ایک ایسے شخص کو مردم شماری کی ذمے داریاں سونپیں، جو اس کا اہل نہیں تھا۔ ایسے کئی لوگ کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں موجود ہیں، جنھیں مردم شماری کے مظہر کا نہ صرف علم ہے بلکہ عالمی اداروں کے لیے کام کرنے کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھاکہ کمیشن کے تمام اراکین کا تعلق ایک ہی صوبے سے ہے۔ جس نے مزید شکوک وشبہات پیدا کیے ہیں۔

انھوں نے یہ بھی سوال اٹھایا کہ لاہور کے مضافات کو تو شہری علاقے میں شامل کرلیا۔ لیکن کراچی کے دو اضلاع کو کس اصول کے تحت دیہی کیٹیگری میں رکھا گیا ہے؟ کیونکہ1981 میں طے کردہ کلیے کے مطابق وہ علاقے جو شہری انتظامیہ کے زیر اثر آتے ہیں، شہری کہلائیں گے۔ کراچی کے تمام اضلاع ایک ڈویژن کا حصہ ہیں،اس لیے انھیں دیہی قرار دینا امتیازی سلوک ہے۔

یہ وہ معاملات ہیں جن پر مردم شماری کے ابتدائی مراحل میں غور کرلیا جاتا تو ایک اہم انتظامی معاملہ متنازع نہیں بنتا۔ مگر شاید ہمارے منصوبہ ساز ہر معاملے کو متنازع بناکر عوام کو اس میں الجھائے رکھنا چاہتے ہیں،کیونکہ اس طرح عوام کی توجہ اصل معاملات ومسائل سے ہٹی رہتی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔