بادشاہ سے ملاقات

ذیشان الحسن عثمانی  منگل 5 ستمبر 2017
عزت، پیسہ، شہرت، اعزاز سب الله دیتا ہے، جو چیز مالک دے، مخلوق کی کیا مجال کہ اسے چھین سکے یا اُس میں کمی بیشی کرسکے۔ فوٹو: فائل

عزت، پیسہ، شہرت، اعزاز سب الله دیتا ہے، جو چیز مالک دے، مخلوق کی کیا مجال کہ اسے چھین سکے یا اُس میں کمی بیشی کرسکے۔ فوٹو: فائل

عبداللہ کو پہلے پہل تو یقین ہی نہ آیا، وہ سمجھا کہ کوئی دھوکہ دہی کی کال ہے۔ کہاں وہ اور کہاں بادشاہ سلامت۔۔۔۔۔ مگر پھر آنے والی کالز اور ای میل نے بات کچھ کنفرم کردی کہ عبداللہ کو ایک بڑے ملک کے بادشاہ نے ملنے کوبلایا ہے۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ چھٹیوں کاموسم ہے نہ ویزہ لگنا ہے نہ جانا ہوگا اور نہ اِس کے پاس وقت ہے دھکے کھانے کا، کہ وہ تو خود کئی مہینوں سے بے روزگاری کا عفریت جھیل رہا تھا اور کسی خرچے یا مذاق کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔

مگر اگلے چند ہی دنوں میں گھر بیٹھے ویزہ بھی آگیا اور ٹکٹ بھی، ٹکٹ تو بزنس کلاس تھی ہی مگر ایسا لگ رہا تھا کہ ایئر لائن کاؤنٹر سے لے کر بزنس لاؤنج تک اور ایئر ہوسٹس سے لے کر پائلٹ تک سب کو معلوم ہو کہ وہ بادشاہ کا مہمان ہے، ہر ایک بس بِچھا جارہا تھا۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ معراج کی رات کیا ہوا ہوگا؟

عبداللہ کا معاملہ بھی عجیب تھا جتنا اعزاز اسے ملتا وہ اتنا ہی پگھلتا چلاجاتا۔ وہ دوستوں سے کہتا کہ کیا کروں ”عاجزی“ میری مادری زبان ہے، مٹی کو زیب نہیں دیتا کہ آگ کا رویہ رکھے، خیر جہاز رکا تو عبداللہ نے امیگریشن پر گزارے جانے والے پچھلے تجربات کو یاد کرکے دعا مانگنی شروع کردی، پچھلے سال اِس ایئر پورٹ پر پورے سولہ گھنٹے لگے تھے مگر وہ جیسے ہی جہاز سے اترا جہاز کیساتھ ہی ایک خوبصورت کالی گاڑی اُس کی منتظر تھی۔ جہاز سے اتر کر لیموزین میں بیٹھنے کا اُس کا یہ پہلا تجربہ تھا۔ نہ کوئی امیگریشن،نہ سیکیورٹی۔

انسان بھی عجیب شے ہے، کوئی پریشانی نہ بھی ہو تو دوچار بلاوجہ کی نکال لیتا ہے، اسے رہ رہ کر اپنے سامان کا خیال آرہا تھا کہ اسے واپس ائیر پورٹ آنا پڑے گا۔ ڈرائیور کے ساتھ آئے منیجر نے ہاتھ میں ٹھنڈے پانی کی بوتل پکڑاتے ہوئے نہایت ادب سے پوچھا، آپ کچھ پریشان دِکھتے ہیں۔ جی، وہ میرا سامان، میں بدحواسی میں آپ کو بتانا بھول گیا۔

آپ فکرنہ کریں، آپ کے پہنچنے تک وہ آپ کی رہائش گاہ تک پہنچ چکا ہوگا، جس نے آپ کو بلایا ہے آپ کے تمام کام بھی اُس کی ذمہ داری ہے آپ فکر نہ کریں۔ کچھ دیر میں گاڑی ایک عظیم الشان محل میں داخل ہوگئی، نہ کسی نے روکا نہ کچھ پوچھا، عبداللہ کمرے میں گیا اور دیکھتا ہی رہ گیا۔ قالین کے نقوش سے لے کر پردوں اور لائٹوں کے ڈیزائن تک، واش روم میں لگے نلکے اور پائپ سے لے کر کمرے سے ملحق کچن کے اپلائنسز تک، ہر چیز ایسی کہ اس نے پہلے بار دیکھی۔ اگرچہ وہ دنیا کے چالیس سے زائد ممالک گھوم چکا تھا مگر یہاں سب کچھ  نیا تھا۔

عبداللہ صبح کی ملاقات سے قطع نظر رات بھر جائے نماز پر بیٹھا دعا مانگتا رہا کہ اللہ اگر محل ایسے ہی ہوتے ہیں تو جنت میں کیسے ہوں گے؟ بس آج اٹھائیے، اب یہاں جی نہیں لگے گا۔

صبح ملاقات پر جانے سے پہلے ایک صاحب آئے اور انہوں نے بتایا کہ بادشاہ سے ملنے کے آداب کیا ہیںْ بتانا کیا تھا دو گھنٹے کا مکمل لیکچر تھا۔

  •  آپ موبائل فون ساتھ نہیں لے جاسکتے کہ اگر دوران ملاقات وہ بج گیا تو؟
  • جب بادشاہ آپ سے ملیں تو آپ کی 100 فیصد توجہ اُن کی جانب ہو۔
  • آپ  بادشاہ کے سامنے ناک کو ہاتھ نہ لگائیں، نہ ہی بال سنواریں۔
  • آپ ہاتھ نہیں ملا سکتے کہ اُن سے صرف شاہی خاندان کے لوگ جن کا ماں اور باپ دونوں طرف سے شاہی خون ہو وہ ہاتھ ملا سکتے ہیں۔
  • آپ  زور سے نہیں ہنسیں گے۔
  • آپ کسی بات کو دہرائیں گے نہیں۔
  • جب بادشاہ گفتگو کریں توآپ صرف سنیں گے اور جب وہ کسی اور کی طرف متوجہ ہوجائیں تو آپ سمجھ لیں کہ آپ کا وقت ختم۔
  • آپ سلام کا اشارہ کرکے مجلس سے باہر آجائیں گے۔

 

بادشاہ سلامت کے محل کے باہر 54 گاڑیاں کھڑی تھیں جن میں ہمر، ٹینک سے لے کر ائیر مشین گن تک شامل تھیں۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ ہم پاکستان میں بے چارے سیاستدانوں کو یونہی دھتکارتے رہتے ہیں ان کے پورے قافلے کی حیثیت یہاں کی ایک گاڑی جتنی نہیں۔ وہ یہاں آکر یہ سب کچھ دیکھ دیکھ کر احساس کمتری میں پڑ جاتے ہوں گے اور واپس جا کر شودے بن جاتے ہیں۔

خیر بادشاہ صاحب نے کل گیارہ منٹ دیئے، بلانے کا مقصد بیان فرمایا، دعائیں دیں اور منہ پھیر کر دوسرے صاحب سے بات کرنے لگے کہ جیسے عبداللہ کا وجود ہی نہ ہو۔

عبدللہ راہداری سے واپس آرہا تھا تو اُس کی نظر وہاں بنے عظیم الشان دفتر پر پڑی، اُس نے مینیجر سے پوچھا کہ محل میں بھلا آفس کا کیا کام؟ مینیجر نے جواب دیا کے اگر بادشاہ سلامت کو کوئی کام پڑے تو کیا وہ کسی دفتر کے چکر لگائیں گے؟ اُن کا ہر کام یہیں سے ہوتا ہے، کسی کو ویزا دینا ہو یا جاگیر، کوئی منصب دینا ہو یا چھین لینا ہو، ایک شاہی حکم (رائل ڈکری) اور بات ختم.

عبدللہ سوچنے لگا کہ الله کے کُن کے آگے تو کسی کی بھی نہیں چلتی، ہم بلاوجہ پریشان رہتے ہیں۔ عزت، پیسہ، شہرت، اعزاز سب الله دیتا ہے، جو چیز مالک دے، مخلوق کی کیا مجال کہ اسے چھین سکے یا اُس میں کمی بیشی کرسکے۔

کچھ دور چلے تو عبدللہ کی نظر باتھ روم صاف کرنے والے جمعدار پر پڑی، وہ اردو جانتا تھا۔ عبداللہ نے ازراہِ مذاق پوچھا۔  بھائی اِس ملازمت سے تو دوپہر دو بجے فارغ ہوجاتے ہیں۔ شام میں کیا کرتے ہیں؟

نوکر نے حیرانگی سے پوچھا، اگر میں کوئی اور کام کروں یا کہیں اور جاؤں تو بادشاہ سلامت گردن نہ اتار دیں، وہ ناراض ہوں گے کہ کیا میں تجھے کافی نہیں جو تو جگہ جگہ منہ مارتا ہے، مجھ سے مانگ۔

عبداللہ واپسی کی فلائٹ پر سوچ رہا تھا کہ آئندہ کبھی موبائل فون لے کرمسجد نہیں جائے گا، بال اور ناک اچھی طرح سے صاف کرکے جاؤں گا۔ نہایت ادب واحترام سے ہر اُس چیز کی تکریم کروں گا جو اللہ سے جڑی ہو۔ اُس کے دماغ میں بار بار خاکروب کے الفاظ گردش کررہے تھے اور آنکھیں بن بادل برسات کا منظر پیش کررہی تھیں۔

 

”کیا میں تجھے کافی نہیں؟ کیا جگہ جگہ منہ مارتا ہے، مجھ سے مانگ‘‘

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا لکھاری کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے

اگر آپ بھی ہمارے لیے بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریراپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک و ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کیساتھ  [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اور ویڈیو لنکس بھی
ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔