برما کا المیہ؛ پہلے آپس کے تفرقات ختم کیجیے!

حافظ خرم رشید  منگل 5 ستمبر 2017
ہمیں اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف مسلمان بن کر سوچنا پڑے گا ورنہ روہنگیا جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ (فوٹو: فائل)

ہمیں اپنے تمام اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف مسلمان بن کر سوچنا پڑے گا ورنہ روہنگیا جیسے واقعات ہوتے رہیں گے۔ (فوٹو: فائل)

کہنے کو دنیا بھر میں مسلمانوں کی آبادی 1 ارب 60 کروڑ سے بھی زیادہ ہے لیکن پھر بھی آج پوری دنیا میں صرف مسلم امہ ہی زوال پذیر ہے۔ مسلمان رسوائی کی پستی میں دھنستے چلے جارہے ہیں۔ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ ہی امتیازی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔

عراق پر امریکا اور اس کے اتحادیوں کا ظلم و ستم مسلسل جاری ہے؛ افغانستان پر استعمار قابض ہے؛ افریقا کے مسلم ممالک عالمی طاقتوں کے ہاتھوں بے بس ہیں؛ لیبیا کی حکومت کا تختہ الٹا جاچکا ہے؛ نائجیریا، مالی، تیونس، سوڈان، مصر اور مراکش سازشوں کے نرغے میں ہیں؛ یمن میں بدامنی ہے؛ شام میں انسانی تاریخ کے شرم ناک مظالم کا ارتکاب ہورہا ہے اور برما کے مسلمانوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے۔

نہتے مسلمانوں کی بستیوں پر آتش و آہن کی بارش ہورہی ہے، بستیاں قبرستانوں میں تبدیل ہورہی ہیں اور روزانہ ہر ہر سیکنڈ میں ہزاروں مسلمانوں کو بے جرم و خطا قتل کیا جارہا ہے۔ اور صرف ان کے جان و مال، اسباب و املاک، دھن دولت کو لوٹنے پر ہی اکتفا نہیں کیا گیا بلکہ مسلمان خواتین کی عزت و آبرو پر بھی وحشیانہ حملے ہونے لگے ہیں۔

ہمارا ملک پاکستان گزشتہ چند عشروں سے دہشت گردی کا شکار ہے۔ متعدد ڈرون حملوں اور بم دھماکوں میں اور مسلسل ٹارگٹ کلنگ ہمارا نصاب زندگی بنتے جارہے ہیں۔ آج ہم اس حال میں ہیں کہ دشمن ہنس رہا ہے۔

اس تصویر کا سب سے اذیت ناک پہلو یہ ہے کہ انسانی حقوق کے عالمی ادارے اور مہذب دنیا خاموشی سے یہ تماشا دیکھ رہی ہیں۔ اقوام متحدہ کی قراردادیں کاغذ کے ناکارہ پرزے بنا دی گئی ہیں۔ بڑی طاقتیں جس طرح مسلمانوں کو عالمی سطح پر استعمال کرکے اپنا الو سیدھا کررہی ہیں، شاید ہی کسی دوسری ملت کا اس طرح سے استحصال ہوتا ہو۔ اغیار کی اس سینہ زوری کا سبب مسلمانوں کی اپنی کمزوری ہے۔

مسلمان اس پر تو خون جگر کے آنسو روتے ہیں کہ لبنان پر عیسائی اور صہیونی طاقتیں حملہ آور ہیں، افغانستان پر امریکا اور اس کے اتحادی براہ راست مسلمانوں کا خون بہا رہے ہیں۔ خود امریکا میں مسلم اقلیت مظالم اور تعصب کا شکار ہے جبکہ فلسطینی اور کشمیری در بدر کی ٹھوکریں کھاتے پھر رہے ہیں۔

لیکن ان مسائل و مصائب کے بارے میں امت مسلمہ بھی ہم آواز اور ہم قدم ہوتے دکھائی نہیں دیتے۔

ہم طبقاتی تفریق سمیت مختلف فرقوں میں بٹ کر اپنی ہی صفوں میں اختلافات کو ہوا دے کر انتشار پھیلا رہے ہیں۔ ہماری نظر اپنے حال پر نہیں۔ مسلمانوں کے جان و مال کے نقصان پر آنسو تو بہاتے ہیں لیکن جب آپس میں دست و گریباں ہوتے ہیں تو کف افسوس ملنے کے بجائے وہ عصبیت کے معرکے سر کرنے کی فکر میں لگ جاتے ہیں حالانکہ ہمیں چاہیے کہ ہم اس حقیقی معبود کی معبودیت کو تسلیم کریں۔ اس کے احکامات کو رسم و رواج سمجھنے کے بجائے انہیں اپنی عملی زندگی میں شامل کریں اور انہی کے مطابق اپنی زندگیوں کو بسر کریں۔

ہم دوسروں سے تبدیلی کا تقاضا کرنے کے بجائے خود اپنے اندر تبدیلی کا آغاز کریں۔ ہمارا عمل ہی ہمارے ایمان کا آئینہ دار ہے۔ فرقہ ورانہ اختلافات کو پس پشت ڈالنا بھی وقت کی اہم ضرورت ہے۔ جب تک امت مسلمہ ایک جسد واحد کی طرح اپنے دکھ سکھ میں شراکت نہیں کرتی، تب تک ہم اغیار کی سازشوں کا شکار ہوتے رہیں گے اور فلاح و کامرانی کے نعرے، صرف نعرے ہی رہیں گے۔

قرآن پاک کی سورۃ الرعد کی آیت 11 میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے دو ٹوک الفاظ میں فرمادیا ہے: ’’بے شک اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا، جب تک وہ خود اپنی حالت کو نہ بدلے۔‘‘

اور اگر اُمتِ مسلمہ کی حالتِ زار بدلنی ہے تو سب سے پہلے ہمیں بحیثیت مسلمان اپنے نسلی، علاقائی، لسانی اور فروعی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر صرف اور صرف مسلمان بن کر سوچنا پڑے گا ورنہ، خاکم بدہن، روہنگیا جیسے واقعات بار بار ہوتے رہیں گے اور ہم صدائے احتجاج بلند کرنے سے آگے نہیں بڑھ پائیں گے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

حافظ خرم رشید

حافظ خرم رشید

بلاگر جامعہ کراچی سے بین الاقوامی تعلقات اور وفاقی اردو یونیورسٹی سے ابلاغ عامہ میں ماسٹرز کرچکے ہیں۔ ایک نجی چینل پر ریسرچر اور اسکرپٹ رائٹر رہے ہیں۔ اس وقت ایکسپریس نیوز میں بحیثیت سینئر سب ایڈیٹر فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔