آرٹیکل 62-63 کا اطلاق

جبار جعفر  بدھ 6 ستمبر 2017

دنیا کا وہ کون سا ملک ہے جہاں کرپشن نہیں ہوتی؟ ہر جگہ ہوتی ہے کہیں کم کہیں زیادہ۔ قابو سے باہر نہیں۔ لیکن پاکستان کرپشن کے معاملے میں دنیا کا ترقی یافتہ ملک ہے۔ پہلے یہ کرپشن سے ترقی کرکے ’’ہڑپشن‘‘ کے ترقی پذیر دور میں داخل ہوا اور آج ماشا اﷲ ہڑپشن کے ترقی پذیر دور سے نکل کر ’’غڑپشن‘‘ کے ترقی یافتہ دور میں عیش کر رہا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل یوں سمجھیے کہ سڑک بنانے والے ٹھیکیدار سے کمیشن پکڑنے کو ’’کرپشن‘‘ کہتے ہیں۔ ٹھیکیدار سے مل کر میٹیریل میں ہیر پھیر کرکے آدھا آدھا بانٹ لینے کو ’’ہڑپشن‘‘ کہتے ہیں اور اس شاندار سڑک بنانے کو (کاغذ پر) جس پر رن وے (Run Way) بھی رشک کرے اور سالم سڑک کھا جانے کو ’’غڑپشن‘‘ کہتے ہیں۔

ملک کے حاضر سیناریو پر ایک طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی آپ کو پتہ چل جائے گا کہ آرٹیکل 62 (صادق) اور 63 (امین) کس کے لیے کباب میں ہڈی ثابت ہو رہا ہے؟ کرپشن کرنے والا اس آرٹیکل کو برا بھلا کہہ رہا ہے۔ ہڑپشن کرنے والا اس کو پانی پی پی کر کوس رہا ہے اور غڑپشن کے عملداروں کی چیخیں نکل رہی ہیں کیا اس کے بعد بھی آرٹیکل 62 (صادق) 63 (امین) کی افادیت اور ضرورت پر لیکچر پلانے کی ضرورت ہے؟

رحمت خداوندی سے ماضی قریب میں پاناما لیکس قہر خداوندی بن کر کرپٹ اشرافیہ پر ٹوٹ پڑے اور آرٹیکل 62 (صادق) 63 (امین) عطیہ خداوندی بن کر بغیر کسی کانٹ جھانٹ اپنی اصلی حالت میں ہم تک پہنچ گیا۔ ورنہ تو حکمران اشرافیہ اپنا کام بخیر و خوبی کرچکی تھی یعنی پاکستان کے تمام تفتیشی، احتسابی، مالیاتی، انتخابی، عدالتی اداروں میں ’’لفافہ ازم‘‘ کے ذریعے کرپشن عام کرکے مفلوج کردیا تھا۔ نتیجتاً جس تیزی سے کرپٹ اشرافیہ کے بیرون ملک اثاثوں میں اضافہ ہورہاتھا اس سے بھی زیادہ تیزی سے اندرون ملک عوام خط افلاس سے نیچے قلابازیاں کھاتے ہوئے جارہے تھے۔

وہائٹ کالرکرائمز کو ثابت کرنا اس لیے مشکل ہوتا ہے کہ واردات پاکستان میں ادائیگی پاناما میں، دولت سوئس بینکوں میں ہوتی ہے۔ آمدنی سے زیادہ اثاثے دیکھ کر اگر کوئی کرپشن کا الزام لگاتا ہے تو یہ ٹھٹھا مار کر کہتے ہیں ثابت کرکے بتاؤ جب الزام لگانے والا بغلیں جھانکنے لگتا ہے تو یہ تڑی لگاتے ہیں کہ آیندہ اگر بہتان لگایا تو ایک کروڑ ہرجانے کے لیے ازالہ حیثیت محرومی کا دعویٰ دائر کردوںگا، سامنے والا پھر نظر نہیں آتا۔ سب سے اہم سوال یہ ہے کہ آرٹیکل 62 ،63 کا اطلاق ارکان اسمبلی پر ہی کیوں ہوتا ہے؟ وجوہات درج ذیل ہیں۔

A۔(1)کیونکہ یہ 20 کروڑ کے روشن مستقبل کے ضامن، ملکی سلامتی کے نگران، قومی خزانے کے امین ہوتے ہیں۔(2)یہ 20 کروڑ عوام پر ٹیکس لگانے اور وصول کرنے کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ (3)یہ عوام دوست قانون سازی کے ذمے دار ہوتے ہیں۔ (4)یہ کروڑوں روپے کے صوابدیدی فنڈز کو تقسیم کرنے کے صوابدیدی اختیارات رکھتے ہیں جس کا کوئی حساب کتاب ہوتا ہے نہ جوابدہی، مختصراً یہ الیکشن سے پہلے عوام کے خادم ہوتے ہیں اور الیکشن کے بعد ان کے مائی باپ یعنی VVIP۔

B۔ اس کے برخلاف اگر ریاستی اداروں کا کوئی اہلکار جھوٹ بولتا ہے یا غبن کرتا ہے تو خود اپنا نقصان کرتا ہے۔ اس کے خلاف محکمہ جاتی کارروائی ہوتی ہے ۔ اس کا سروس ریکارڈ خراب ہوجاتا ہے سالانہ ترقی رک جاتی ہے۔ معطل یا برطرف ہوسکتا ہے اور بعض حالات میں حوالۂ پولیس کیا جاسکتا ہے۔

C۔ ایک عام آدمی جھوٹ بولتا ہے تو برادری میں جھوٹا مشہور ہوجاتا ہے۔ چوری کرتا ہے ملکی قانون کے تحت کارروائی کی جاتی ہے جیل جاتا ہے برادری میں ناک کٹ جاتی ہے۔ مذکورہ بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ کیونکہ عوام، عدلیہ یا سرکاری ملازمین قانون سازی کے ذمے دار نہیں ہوتے اور اس لیے اگر خود کسی قانون کی زد میں پھنس گئے تو اپنے آپ کو بچانے کے لیے قانون سازی کرکے اس کا حلیہ نہیں بگاڑسکتے اس لیے ان پر آرٹیکل 62(صادق) 63 (امین) کا اطلاق لازمی نہیں ہے۔

آج کی تازہ خبر یہ ہے کہ کرپٹ اشرافیہ آرٹیکل 62،63 کو غتر بودکرنے پر تلی ہوئی ہے۔ بہانہ یہ ہے کہ آج کل معاشرے میں آرٹیکل 62،63 کے معیار پر پورا اترنے والے افراد ہے کہاں؟ مقصد صرف یہ ہے کہ قانون ساز اسمبلیوں میں صادق اور امین یعنی سچے اور امانت دار افراد کے بجائے جھوٹوں اور لٹیروں کا غلبہ برقرار ہے اور بلا روک ٹوک گلشن کا کاروبار چلتا رہے۔

حقیقت یہ ہے کہ قانون ساز اسمبلیوں کے لیے درکار ہزار بارہ سو آرٹیکل 62 (صادق) 63(امین) کے معیار پر پورے اترنے والے ذمے دار چند ہزار کرپٹ اشرافیہ میں نہیں ملتے بلکہ 20 کروڑ عوام میں سے چن کر نکالنا پڑتا ہے جس کے لیے ریاست اربوں روپے الیکشن کے انعقاد پر خرچ کرتی ہے اور الیکشن کمیشن پاکستان جیسے سفید ہاتھی کو پا لیتی ہے۔

چلیں تکمیل حجت کے لیے یہ مان لیتے ہیں کہ حکمران اشرافیہ صحیح کہہ رہی ہے کہ کیونکہ قانون ساز اسمبلیوں کے لیے آرٹیکل 62(صادق) 63 (امین) کے معیار کے مطابق امیدوار ملنا ناممکن ہے اس لیے اس آرٹیکل کو منسوخ کرکے اس کے بغیر ہی کام چلانا چاہیے۔ منظور۔ لیکن شرط یہ ہے کہ پہلے خود حکمران اشرافیہ صرف ایک سال کے لیے اپنے محل میں اس پر عمل کرکے بتائے (صادق) سچ بولنے والے (امین) امانت دار کی جگہ (کیونکہ ان کا ملنا ناممکن ہے) کوالیفائیڈ جھوٹے اور لٹیرے افراد کو ملازم رکھے۔ مثلاً ڈکیت کو چوکیدار، کار لفٹر کو ڈرائیور، چور کو باورچی، لفنگے کو پہرہ دار اور غبن کے مرتکب سزا یافتہ کو ان سب کا منشی یا منیجر۔

اگر یہ مفت لیکن قیمتی مشورہ سن کر حکمران اشرافیہ نے جواب نما سوال پوچھا کہ کیا ہم پاگل ہیں جو پورے ایک سال تک اپنا گھر جھوٹوں اور لٹیروں کے حوالے کردیں؟ تو قوم بھی سوال نما جواب دے سکتی ہے کہ کیا 20 کروڑ عوام پاگل ہیں جو پورے پانچ سال ملک کی سلامتی، قوم کا مستقبل اور قومی خزانہ جھوٹے اور لٹیرے ارکان اسمبلی کے حوالے کردیں؟

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔