کچھ قبریں گورکن نہیں کھودتا

آفتاب احمد خانزادہ  بدھ 6 ستمبر 2017

اگر آپ اپنی زندگی کو مسرت بخش بنانا چاہتے ہیں تو پہلا اصول یہ ہے ’’ہرگز ہرگز عیب جوئی نہ کیجیے۔‘‘ عظیم مصنف ڈیل کارنیگی لکھتا ہے ’’محبت کو بھسم کرنے کے لیے شیطان نے جہنم میں جو بھی چالیں ایجاد کی ہیں اور جتنی قسم کی آگ پیدا کی ہے ان میں سب سے خطرناک نکتہ چینی ہے، اس کا شعلہ کبھی بیکار ثابت نہیں ہوتا۔ یہ سانپوں کے بادشاہ شیش ناگ کی طرح کاٹتی ہے اور اس کا ڈنک ہمیشہ مہلک ہوتاہے۔‘‘

ہمارے ملک کے تمام سترسالہ اہم کرداروں کی تباہی اور بربادی اور دیوالیہ پن کے ملبے میں آج بھی جو چیز سب سے زیادہ نمایاں نظر آتی ہے اور جو چلا چلا کر اپنی موجودگی کا احساس دلاتی ہے وہ عیب جوئی اور نکتہ چینی ہی ہے اور جس کی ہی وجہ سے وہ تمام کے تمام بلندیوں سے گرکر ریزہ ریزہ ہوگئے، آج تک تاریخ میں پڑے کراہ رہے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ ہمارے آج کے بھی سابق نااہل حکمران ان ہی دونوں کے ہاتھوں کے ہی زخمی ہیں آپ بھی اگر اپنے ناپسندیدہ شخص یادشمن کو آناً فاناً مٹتا دیکھنا چاہتے ہیں تو پھر آپ اور کچھ نہ کیجیے انھیں صرف اور صرف ان ہی دونوں عادات کا شکار کر دیجیے اور پھر آپ آرام اور سکون سے اپنے گھر بیٹھ کر ان کی مکمل تباہی و بربادی کی خبر کا انتظار کیجیے۔

امید ہے کہ آپ کو انتظار کی زحمت زیادہ نہیں اٹھانی پڑے گی یہ تو ہوا اہم کرداروں کا ذکر۔ لیکن اگر آپ غیر اہم کرداروں کی تباہی اور بربادی کے ملبے میں اس کی وجہ ڈھونڈنے بیٹھ جائیں تو وہاں بھی یہ ہی دونوں چیزیں آپ کا بیتابی سے انتظار کررہی ہوں گی تمام کے تمام انسانی رشتوں کویہ ہی دونوں چیزیں جلا کر بھسم کرتی آرہی ہیں اگر خدا ان کے متاثرین کو تھوڑی دیر کے لیے دنیا میں واپس بھیج دے تو وہ سب کے سب رورو کر اس بات کانہ صرف اعترا ف کررہے ہوں گے بلکہ ہم سب کو یہ نصیحت بھی کررہے ہوں گے کہ جس طرح آپ جنوں،بھوتوں اور چڑیلوں سے بچتے اور خوفزدہ ہوتے ہیں ان سے بھی زیادہ آپ کو ان دونوں باتوں سے بچنے اور خوفزدہ ہونے کی ضرورت ہے اور یہ ہی نصیحت وہ ہمارے سابق نااہل حکمران کو تو ہاتھ جوڑ کر کررہے ہونگے۔

آئیں! ان کی وجہ سے ہونے والے دنیاکے اہم ترین زخمیوں سے ملتے ہیں۔ نپولین بونا پارٹ کے بھتیجے نپولین سوم کو دنیا کی سب سے زیادہ خوبصورت عورت شہزادی مانٹی جو سے محبت ہوگئی اور اس نے مخالفت کے باوجود اس سے شادی کرلی نپولین اور اس کی دلہن کے پاس صحت، دولت، طاقت، شہرت، حسن، محبت، دلربائی اور ایک اعلیٰ قسم کے رومان کے تمام لوازمات موجود تھے۔ شادی کی مقدس آگ پہلے کبھی اتنے جوبن سے روشن نہ ہوئی ہوگی لیکن افسوس ہے کہ مقدس شعلہ جلد ہی ٹمٹانے لگا آگ ماند پڑگئی اور بجھتی ہوئی چنگاریوں میں تبدیلی ہوگئی مانٹی جو اس قدر حاسد اور وہمی تھی کہ نپولین کے احکام تک کو ٹھکرانے لگی وہ ملکی معاملات میں مصروف ہوتا تو اس کے دفتر میں بلا اجازت جا گھستی۔ وہ اس کی نہایت ضروری سیاسی بحثوں میں مداخلت کرتی وہ اکثر اپنی بہن کے پاس چلی جاتی اپنے خاوند کی شکایت کرتی۔ روتی پیٹتی اور طرح طرح کی دھمکیاں دیتی نپولین اپنے مطالعے کے کمرے میں ہوتا تو وہ وہاںجا گھستی اور اسے برا بھلا کہنے لگتی۔ نپولین ایک درجن عالیشان محلوں کا مالک تھا وہ فرانس کا بادشاہ تھا لیکن اسے اپنے گھر میں ایک گوشہ بھی ایسا میسر نہ تھا جہاں بیٹھ کر وہ اپنی روح کو تسکین دے سکتا اپنی ان حرکات سے مانٹی جو نے کیا حاصل کیا؟ جو اب درج ذیل ہے یہ جواب ای ۔ اے ۔ رائن ہارٹ کی دلچسپ کتاب ’’ایک سلطنت کا الم ناک طربیہ‘‘میں دیا گیا ہے ’’نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ نپولین سوئم اکثر رات کے وقت ایک چوردروازے سے نکل جاتے وہ اپنی ٹوپی سے چہرے کو چھپائے رہتے وہ کسی ایسی عورت کے پاس جا پہنچتے جو ان کی منتظر ہوتی اسی طرح وہ اپنے دل کو مختلف قسم کے فریب دیتے‘‘ مانٹی جونے اپنی محبت کی موت پر ایک تقدیر پرست عورت کی طرح ماتم کیاہوگا اور کہا ہوگا ’’جس کا ڈر تھا وہ مصیبت مجھ پر ٹوٹ کرہی رہی‘‘ مصیبت اسی پر ٹو ٹی؟ یااس نے خود مصیبت کو دعوت دی تھی اس نے اپنی نکتہ چینی سے خود اپنے لیے جہنم کا دروازہ کھولا تھا۔

ٹالسٹائی کی بیوی نے اس حقیقت کو پالیا تھا لیکن بہت دیر سے۔ اس نے اپنے بستر مرگ پر اپنی بیٹیوں کے سامنے اعتراف کیا ’’میں ہی تمہارے باپ کی موت کا باعث بنی‘‘ اس کی بیٹیوں نے کوئی جواب نہ دیا وہ دونوں رو رہی تھیں انھیں علم تھا کہ ان کی ماں سچ کہہ رہی ہے انھیں معلوم تھا کہ ان کے والد کی موت کا سبب ان کی ماں کی شکوہ سرائی، نکتہ چینی اور عیب جوئی تھی۔ ٹالسٹائی کی زندگی ایک المیہ تھی اور اس المیے کا باعث ان کی شادی تھی ان کی بیوی عیش و عشرت کی شیدائی تھی لیکن وہ عیش و عشرت سے نفرت کرتے تھے وہ دولت اور سرمایہ چاہتی تھی لیکن ٹالسٹائی کا یہ عقیدہ تھا کہ دولت اور نجی جائیداد گنا ہ کبیرہ ہے وہ برسوں تک لڑتی جھگڑتی، شورمچاتی اور نکتہ چینی کرتی رہی کہ وہ اپنی کتابوں کو رائلٹی لیے بغیر اکثر مفت چھاپنے کی اجازت کیوں دے دیتے ہیں۔

ٹالسٹائی نے اپنی ساری زمین و جائیداد کسانوں اور غریبوں میں تقسیم کرادی وہ خود کھیتوں میں کام کرنے لگے اور درخت اور گھاس کاٹنے لگے آخر کار جب ٹالسٹائی بیساسی سال کی عمر کو پہنچے تو ان میں اپنے گھر کی المناک زندگی کو برداشت کرنے کی سکت نہ رہی لہذا وہ 1915ء اکتوبر کی ایک برفانی رات کو گھر سے بھاگ کھڑے ہوئے گھر سے بھاگ نکلنے کے گیارہ دن بعد وہ ایک ریلوے اسٹیشن پر نمونیہ میں گر فتار ہوگئے۔ مرتے وقت انھوں نے وصیت کی کہ ان کی بیوی کو جنازے کے قریب بھی نہ پھٹکنے دیا جائے۔ ٹالسٹائی کی بیوی کو اپنی نکتہ چینی اور عیب جوئی کی اتنی بڑی قیمت ادا کرنا پڑی۔

ابراہم لنکن کی زندگی کا سب سے بڑا المیہ بھی ان کی شادی تھی ان کے وکیل ساتھی ہرن ڈن کے الفاظ کے مطابق ’’وہ پچیس سال تک ہر روز بلاناغہ اپنی بے جوڑ شادی کی تلخی کا مزا چکھتے رہے‘‘ وہ ہروقت لنکن کو تنگ کرتی تھی ان سے بات بات پر تکرار کرتی تھی ہر وقت ان پر نکتہ چینی کرتی تھی اس کے خیال میں لنکن کی کوئی کل سیدھی نہ تھی لنکن گھر جاتے ہوئے خوف کھاتے تھے آخر میں وہ پاگل ہوگئی تھی، اکثر عورتیں اور مرد اپنی خو شیوں، مسرتوں اور سکھ کی قبر رفتہ رفتہ چھوٹے چھوٹے گڑھے کھود کر تیار کرتے ہیں اور آخر اس قبر میں جا لیٹتے ہیں ان کی قبر گورکن نہیں کھودتا بلکہ وہ خود اپنی قبر رفتہ رفتہ کھودتے ہیں۔ ہم سب اس معاملے میں یکساں ہیں لیکن ہمارے بعض سیاسی کردار اس معاملے میں ہم سے بھی آگے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔