ایک سفر نامہ

عبدالقادر حسن  بدھ 6 ستمبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

پتہ نہیں کسی نے کس موڈ میں کہا تھا کہ اصل میں شرط سفر کی ہے اگر آپ اس پر تیار ہو جائیں تو مسافروں کی آؤ بھگت کرنے والے بہت سے مل جاتے ہیں۔ لیکن یہ بات کسی مسافر نواز نے کہی تھی اور مسافر نوازی کا یہ دور گزر گیا ہے جدید زمانے نے سفر کو بھی ایک صنعت بنا دیا ہے اور راستوں میں ہر جگہ ہوٹل اور چھوٹے بڑے ریستوران اس کا ایک زندہ ثبوت ہیں اور بات وہی ہے کہ ضرورت عزم سفر کی ہے مسافر نواز بہت ہیں لیکن آج کے مسافر نوازوں میں ایک فرق ہے اب مسافر نوازی ایک کاروبار بن چکا ہے اور راستوں اور شاہراہوں پر مسافر نواز دکاندار بن کر مسافروں کی آمد کا انتظار کرتے ہیں اور اپنی مہمان نوازی کو ایک مفید کاروبار سمجھتے ہیں۔

چائے خانہ ہو یا ریستوران جو بھی ہو مسافروں کا خیر مقدم کرتا ہے اور آس پاس کے کاروباری مہمان نوازوں کا مقابلہ کرتے ہیں۔ کھانے پینے کا سامان ہو یا رات بسر کرنے کا سامان یہ سب ملتا ہے اور بڑے چاؤ کے ساتھ ملتا ہے لیکن قیمت اپنی اپنی۔ آپ کو کھانا کیا پسند ہے وہ میسر ہے شب بسری کے لیے بستر کیا چاہیے وہ بھی میسر ہے اور دیگر ضروریات زندگی بھی حاصل ہیں بلکہ سفر کے سامان تو اس قدر رنگ برنگ کے ہو گئے ہیں کہ مسافروں نے سفر کو ایک تفریح سمجھ لیا ہے۔ اب یہ آپ کی جیب پر منحصر ہے کہ آپ سفر کو کیا بنا لیتے ہیں کیونکہ اگر جیب اجازت دے تو ہر طرح کے لوازمات موجود ہوتے ہیں اور مل سکتے ہیں لیکن ان کی اپنی ایک قیمت ہوتی ہے جو مسافر تفریح کے موڈ میں ہوتے ہیں وہ ان لوازمات کی قیمت ادا کر کے اپنے لیے راحت کا سامان پیدا کر لیتے ہیں اور اس سے لطف اُٹھاتے ہیں۔

میں ان مسافر خانوں کا ذکر نہیں کروں گا جو شوقین مزاج مسافروں کی عیاشی کے لیے قائم کیے جاتے ہیں لیکن سب چلتے ہیں۔ سر راہے کھلے ہوئے عام ریستوران یا قریب کی عمارتوں میں دعوت عیش و عشرت دیتے ہوئے مہمان خانے یہ سب تھکے ماندے مسافروں کی تھکان کا علاج کرتے ہیں  اور ان میں سے جو خوشحال ہیں وہ آگے بڑھ کر مسافروں کے شب و روز رنگین بنا دیتے ہیں۔ ہماری آپ کی یہ دنیا رنگ و نور سے بھری ہوئی ہے خریدار چاہیے جو اس رنگ و نور میں اپنے شب و روز بسر کر سکے اور اپنی دنیا کو بھول سکے، کیا ہے جو اس دنیا میں نہیں ہے اور کیا ہے جو کسی قیمت پر دستیاب نہیں ہے۔

یہ وہ زمانہ ہے اور ہم ایک ایسے دور سے گزر رہے ہیں کہ دنیا اپنے آپ پر آسان کر لی ہے۔ ضرورت کے مطابق کسی حد تک آسان عیاشی کا سامان اور دوران سفر عیاشی کے سامان میں کیا کچھ دستیاب نہیں ہے، وہ کچھ جس کا آپ تصور تک بھی مشکل سے کرتے ہیں۔ میں یہاں راحت کے اعلیٰ ترین سامان کا ذکر نہیں کروں گا بلکہ پاکستانیوں کی جیب کے عام معیار کا ذکر کرتا ہوں۔ ہم پاکستانیوں میں سفر ایک مجبوری ہے جس میں سیر و سیاحت کا تصور نہیں۔

ہم کسی مجبوری میں سفر کرتے ہیں کسی مقدمے کی پیشی میں، کسی عزیز کی بیمار پُرسی میں یا عید کے موقعے پر اپنے عزیز و اقارب سے ملاقات کا سفر۔ آبائی علاقوں میں عید کی خوشیاں منانے کی روایت پرانی ہے جسے ہم ایک فرض کے طور پر ادا کرتے ہیں اور اس کے لیے بھی سفر ہی شرط ہے اور یہ شاید واحد سفر ہے جسے ہم خوشی سے کرتے ہیں کہ اس میں اپنوں سے ملنے کی تمنا ہوتی ہے اور جو لذت اپنوں سے ملنے میں ہے وہ کسی اجنبی جگہ پر عید کی خوشیاں منانے سے حاصل نہیں ہو سکتی لیکن اس کے باوجود ہم سفر سے گھبراتے ہیں اور جب بھی سفر پڑ جائے تو اس سے جان بچانے کی ہر ممکن کو شش کرتے ہیں۔

ہمارے ہاں سفر کے بارے میں ایک عربی کہاوت ہے مشہور ہے کہ ’’سفر سفر ہے خواہ وہ ایک میل کا بھی کیوں نہ ہو‘‘ ۔ سفر کے معنی ہیں دوزخ کے یعنی سفر ایک دوزخ کی مثل ہے اس کے باوجود سفر بھی کرنا پڑ جاتا ہے لیکن اس سے خوشی کسی کو بھی نہیں ہوتی گو کہ سفر اب آسان ہو گئے ہیں کیونکہ سفر کی سہولتیں آسان وافر ہو گئی ہیں اس کے باوجود ہم سفر خوشی سے کرنے کو تیار نہیں ہو پاتے اور کسی مجبوری میں ہی سفر کو اپناتے ہیں حالانکہ سفر جیسا بھی ہو اگر اس کو خوشدلی سے کیا جائے تو اس کو بھی پُرلطف بنایا جا سکتا ہے۔

حیرت ہوتی ہے کہ ابن بطوطہ جیسے لوگوں نے اپنے طویل سفر کیسے کر لیے اور ان کے سفروں کو کتابوں میں قلمبند بھی کر لیا اور اسے تفریح کا ایک ذریعہ بنا دیا۔ آج کے مسلمان کسی ابن بطوطہ کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ پیدل کے زمانے کے اس سیاح نے نہ صرف پیدل چل کر سفر کیا بلکہ سفری راستوں کی پیمائش بھی جو آج کل کے وقتوں میں بھی ایک کمال سمجھا جاتا ہے اور جو لوگ یہ کمال کر گزرتے ہیں وہ بڑے فخر سے اپنے آپ کو دوسرا ابن ِ بطوطہ سمجھتے ہیں جب کہ اصلی ابنِ بطوطہ کی طرح وہ آج مختصر سا سفر بھی نہیں کر پاتے اور سانس پھول جاتی ہے۔

ابن ِ بطوطہ کے بارے میں کہیں پڑھا تھا کہ وہ بَلا کا ضدی تھا اور ہر رات دوسرے دن کا فیصلہ طے کر کے سوتا تھا اور پھر دوسرے دن اس پر عمل کرتا بھی کرتا تھا یہ عمل جان لیوا ہوتا تھا اور اس وقت کا سیاح محض سیاحت نہیں کرتا تھا علم ِسیاحت کے راز بھی افشاء کرتا تھا۔ اس کی یہی محنت اور دیانت تو تھی جس نے اس کو ’’ابنِ بطوطہ‘‘ بنا دیا۔ اپنے وقت کا سب سے بڑا سیاح۔ لوگ آج بھی اس کا نام اور کارنامے سن کر حیرت زدہ رہ جاتے ہیں کیونکہ انسانی تاریخ نے اس جیسا سیاح پیدا نہیں کیا اور اس کا مقابلہ ناقابل تصور ہے چنانچہ ابن بطوطہ سیاحت کا ایک نشان ہے جس کا جواب پیش کرنے میں کسی میں ہمت نہیں ہے اور جس ہمت اور جوانمردی کا نمونہ ابن بطوطہ نے پیش کیا وہ اور کون کر سکتا ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔