دہشت گردوں کے خلاف جرأ ت مندانہ فیصلوں کی ضرورت

ایڈیٹوریل  پير 18 فروری 2013
ہزارہ منگول برادری نے سانحہ ہزارہ ٹاون کے شہدأ کی میتیں رکھ کر دھرنا دے رکھا ہے۔ فوٹو : اے ایف پی

ہزارہ منگول برادری نے سانحہ ہزارہ ٹاون کے شہدأ کی میتیں رکھ کر دھرنا دے رکھا ہے۔ فوٹو : اے ایف پی

کوئٹہ میں ایک بار پھر وہی منظر نظر آ رہا ہے‘ جو جنوری میں موجود تھا۔کوئٹہ کی ہزارہ منگول برادری نے سانحہ ہزارہ ٹاون کے شہدأ کی میتیں رکھ کر دھرنا دے رکھا ہے۔جنوری کے دھرنے کے نتیجے میں صوبے کے وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی اور ان کی حکومت ختم ہوئی اور گورنر راج نافذ ہوا‘ اب کیا ہو گا کسی کو پتہ نہیں ہے۔ بلوچستان میں ہزارہ منگول برادری کو جس بے رحمانہ طریقے سے نشانہ بنایا جا رہا ہے‘اس پر ان کا ردعمل فطری ہے، انھیں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ وہ احتجاج کیوں کر رہے ہیں۔ ایک پر امن اور مہذب کمیونٹی کے خلاف ظلم پر ہر پاکستانی دکھی اور افسردہ ہے۔ پاکستان کے دو صوبوں اور کراچی میں جو کچھ ہو رہا ہے‘ اب اس کی وجوہات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہیں‘ ارباب اختیار جان بوجھ کر خاموش رہیں‘ یہ اور بات ہے۔

دہشت گردی اور لاقانونیت کو سمجھنے کے لیے مسلح گروہوں کی ساخت‘ نظریات اور اسٹرٹیجی کا مطالعہ ضروری ہے‘ اس کے ساتھ یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں آئینی اور قانونی معاملات کیا ہیں؟گورنر بلوچستان نے کہا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں ناکام رہی ہیں‘ اسی طرح وفاقی وزیر خورشید شاہ نے بھی خفیہ ایجنسیوں کی ناکامی کی بات کی ہے۔ ممکن ہے‘ ان کی باتیں درست ہوں لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ کیا ساری خفیہ ایجنسیاں ناکام ہیں۔ عملاً صورتحال یہ ہے کہ خیبر پختونخوا کے قبائلی علاقوں میں عام پولیس کا نظام نہیں ہے‘بلوچستان کے بہت سے علاقوں کی بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ ایک ایسا ملک جہاں مختلف نظام اور قانون چل رہے ہوں‘ وہاں کسی ایک ایجنسی یا ادارے کو کس طرح ذمے دار ٹھہرایا جا سکتا ہے۔

پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے اعلیٰ سطح پر ابہام موجود ہے‘سیاسی قیادت کی ترجیحات مختلف ہیں اور ریاستی اداروں کی مختلف نظر آتی ہیں‘ بلوچستان میں شاید کوئٹہ ہی ایسا علاقہ ہے جہاں کسی حد تک حکومت کی عملداری موجود ہو سکتی ہے‘ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف جو کچھ ہو رہا ہے‘ اب وہ بھی موجود نہیں ہے‘ بلوچستان میں تو خفیہ اداروں کی ناکامی ہے‘ کیا کراچی میں بھی ایسی ہی صورت حال ہے۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ دہشت گرد اور فرقہ پرست گروہوں کے درمیان کسی نہ کسی سطح پر رابطہ موجود ہے۔ ادھر کوئٹہ میں ہزارہ برادری 85 میتوں کے ہمراہ دھرنا دیے بیٹھی ہے تو پیرکو پشاور کے قریب باڑہ میں پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر پر دہشت گردوں نے دھاوا بول دیا‘ میڈیا کی اطلاعات کے مطابق حملہ آوروں نے لیویز کی وردیاں پہن رکھی تھیں‘ یہ کوئی ایک واقعہ نہیں ہے۔

خیبر پختونخوا میں بڑے تسلسل سے پولیس تھانوں اور دیگر سرکاری اداروں پر حملے ہو رہے ہیں‘ اس قسم کی صورتحال کے باوجود ہو یہ رہا ہے کہ صوبہ خیبرپختونخوا پر برسراقتدار جماعت اے این پی کے زیر اہتمام کانفرنس ہوئی ہے۔ اس میں پیپلز پارٹی‘ مسلم لیگ ن اور جے یو آئی جیسی بڑی جماعتیں شریک ہوتی ہیں اور وہ کہتی ہیں کہ کالعدم تحریک طالبان سے مذاکرات کیے ہیں۔ بلوچستان کے حوالے سے بھی ملک سے ایسی ہی آوازیں اٹھتی ہیں کہ بی ایل اے سے مذاکرات کیے جائیں۔ یہ ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت کا ویژن اور اسٹرٹیجی ہے‘ ملک میں پارلیمنٹ نے اٹھارھویں‘ انیسویں اور بیسویں ترامیم کر لیں لیکن کسی نے خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے قبائلی علاقوں کے لیے ضروری آئینی تبدیلیوں کی بات نہیں کی‘ جب تک کسی سرکاری اہلکار کو قانونی طاقت نہیں دی جائے گی‘ وہ قبائلی علاقوں میں کیسے کام کرے گا؟ اگر قبائلی سرداروں‘ ملکان‘مشران کے ذریعے نظام چلانا ہے تو پھر لاقانونیت اور قتل عام پر ان کا محاسبہ بھی کیا جانا چاہیے۔

بلوچستان کی ہزارہ برادری کے قتل عام پر اگر بھارت‘ افغانستان یا امریکا کچھ کہے گا تو انھیں کن بنیادوں پر غلط کہا جائے گا!پاکستان اب ایسے دور میں داخل ہو گیا ہے جہاں روایتی انداز فکر اور طرز حکمرانی سے معاملات طے نہیں ہو سکتے۔ سیاسی قیادت کو اپنے طرز عمل کا خود محاسبہ کرنا چاہیے۔ اپنی کوتاہی‘ کم نظری‘ کمزوری اور مصلحت اندیشی کو خفیہ ایجنسیوں پر ڈالنے سے معاملات حل نہیں ہوں گے۔عوام کو بتایا جائے کہ وہ کون سی خفیہ ایجنسی ہے جو ناکام ہوئی ہے۔کیونکہ ملک میں کئی خفیہ ایجنسیاں ہیں اور ہر ایک کا الگ الگ دائرہ کار ہے۔ کیا اسی پارلیمنٹ نے سوات میں مولوی صوفی محمد سے امن معاہدہ کی راتوں رات منظوری نہیں دی تھی۔ پھر کیا ہوا؟ پارلیمنٹ نے فوجی آپریشن کی منظوری بھی اسی عجلت میں دے دی۔

کیا پارلیمانی جماعتوں کی قیادت نے اس معاملے میں خود احتسابی کا مظاہرہ کیا؟ اسی طرح طاقتور اداروں کو بھی اپنے معاملات پر نظرثانی کرنی چاہیے۔ ہمیں آئین و قانون کی بالادستی تسلیم کرنے کی عادت ڈالنا پڑے گی۔ پاکستان کی سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کو اس حقیقت کا ادراک کر لینا چاہیے کہ ملک میں قوم پرستی، لسانیت اورمسلک کے نام پر نفرت پھیلانے والی تنظیمیں اور ان کے پشت پناہ معاشرے کو تباہ کر رہے ہیں‘ریاست انھی کی وجہ سے کمزور ہو رہی ہے۔ ملک میں موجود قبائلی علاقے دہشت گردوں اور جرائم پیشہ عناصر کے لیے محفوظ پناہ گاہیں، اس لیے ہیں کہ یہاں کی آئینی و قانونی حیثیت انھیں قانون کی گرفت سے دور لے جاتی ہے۔

پاکستان میں کئی فرقہ پرست اور دیگر تنظیموں کو کالعدم قرار دیا گیا لیکن ان تنظیموں سے وابستہ لوگ دوسری جماعتوں میں کھلے عام سرگرم عمل ہیں‘ ایسی صورت میں کسی تنظیم پر پابندی لگانے کا کیا فائدہ؟بلوچستان میں ہزارہ برادری نے جو دھرنا دیا ہے‘ میڈیا پر خواتین کے آنسو دیکھ کرپورا ملک دکھ کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر رہا ہے۔ جنوری میں دیے گئے دھرنے کے موقع پر مظاہرین کا مطالبہ وزیراعلیٰ رئیسانی کی حکومت ختم کرکے گورنر راج نافذ کرنے کا تھا‘ اب وہ کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کی بات کر رہے ہیں‘ یہ صورت حال انتہائی خطر ناک رخ اختیار کر سکتی ہے۔

ایک صوبے میں جمہوری ختم عملاً ختم ہو چکی ہے۔ خیبر پختونخوا کی صورت حال سب کے سامنے ہے اور کراچی پر کچھ کہنے کی ضرورت نہیں ہے‘ ایسے حالات میں فوج کہاں کہاں کا کنٹرول سنبھالے گی‘ موجودہ حکومت تو اپنی آئینی مدت پوری کر چکی ہے۔ اگلا مرحلہ عام انتخابات کا ہے‘ چیف الیکشن کمشنر کہہ رہے ہیں‘ عام انتخابات بروقت نہ ہوئے تو ملک کا کوئی مستقبل نہیں ہو گا۔ ان کی یہ بات بالکل درست ہے۔ دہشت گرد خوا مذہب کے پردے میں ہوں یا نسل اور زبان کے پردے میں، ان کے خلاف بے رحم آپریشن ہونا چاہیے، اگر حکومت نے حالات کو سنبھالنے کے لیے غیر معمولی جرات کا مظاہرہ نہ کیا تو بلوچستان کا بحران سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔