یاد ماضی عذاب ہے یاربّ

رئیس فاطمہ  پير 18 فروری 2013

گلزار صاحب لاہور آئے، اپنی جنم بھومی دینہ گئے،اپنا بچپن تلاش کیا، لمحہ بھر میں ان کی نظروں کے سامنے سے بہت کچھ گزر گیا کہ انسانی سوچ زماں و مکاں کی قید سے آزاد ہوتی ہے، برسوں پرانی یادیں اچانک یادوں کی قندیلیںروشن کردیتی ہیں، رنگارنگ اور تکلیف دہ ماضی کی یادیں نہ چاہتے ہوئے بھی غیر شعوری طور پر ان قندیلوں میں روشن ہوجاتی ہیں۔ ایسے جذباتی لمحات میں صرف آنسو ہی سچے ساتھی ہوتے ہیں،گلزار صاحب جنھیں تقریبات میں شرکت کے لیے کراچی بھی آنا تھا وہ لاہور ہی سے واپس چلے گئے، شاید اس لیے کہ جہاں انھوں نے جنم لیا، اسکول گئے، محلے کے بچوں کے ساتھ کنچے کھیلے، جس دھرتی نے ان کی پہلی ہنسی سنی، جس مٹی پر قدم رکھ کر انھوں نے چلنا سیکھا،آج بھی مٹی تو وہی ہے، بستی بھی وہی اور ہستی کا نام بھی وہی، لیکن سرحدوں کی تقسیم نے جغرافیہ بدل دیا،لیکن گلزار کے آنسو محض جغرافیہ بدلنے پر نہیں بہے تھے، بلکہ اس حیوانیت پر بہے تھے جس نے مذہب کے نام پر اپنے ہی جیسے انسانوں کا خون بہایا۔ گلزار اس لیے روئے کہ سرحد کے دونوں طرف وحشت کا جو ناچ مذہبی منافرت کے نام پر ناچا گیا ، وہ سب ان کی آنکھوں کے سامنے زندہ ہوگیا۔ ہجرت کے دردناک کرب سے گزرنے والا مہاجر ہی اس اذیت کو محسوس کرسکتا ہے، جس سے گلزار دوچار ہوئے، ان کی آنکھوں سے بہتے آنسو دونوں ملکوں کے اس غیرانسانی رویے پر بھی احتجاج کر رہے تھے جو عام آدمی کو ایک دوسرے سے ملنے میں مانع ہیں۔ یہ گلزار ہی تو تھے جنہوں نے شکوہ کیا تھا کہ:

نظر میں رہتے ہو جب تم ادھر نہیں آتے
یہ سر بلاتے ہیں جب تم نظر نہیں آتے

دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ اور دیگر اہم سیاسی شخصیات نے مل بیٹھ کر امن کی راہ ہموار کی تھی اور دو ماہ پہلے ہی یہ طے ہوا تھا کہ اس دفعہ کسی بھی وجہ سے امن کا معاہدہ ختم نہیں ہوگا، تجارت کے ساتھ ساتھ عام آدمی اور بزرگ شہریوں کے آنے جانے کے عمل کو انتہائی آسان بنادیا جائے گا، لیکن افسوس کہ جنوری کے مہینے میں ہی جب سینئر سٹیزن کو واہگہ اور اٹاری پر ہی ویزا دینے کا وقت آیا، اس سے ایک دن قبل پھر ’’پراسرار ہاتھوں‘‘ نے معاہدہ امن ’’سبوتاژ‘‘ کردیا اور پھرآگئے وہیں پر چلے تھے جہاں سے ہم۔۔۔۔کہاں یہ قول و قرار کہ ’’کچھ بھی ہوجائے اب ہم بلیک میل نہیں ہوں گے‘‘ اور کہاں دوبارہ وہی صورت حال کہ ایک دوسرے کی شکل سے بے زار۔دونوں طرف کے انتہا پسندوں کی شکلیں دیکھو اور باتیں سنو تو ایک نفرت کی لہر عام آدمی کے دل میں اٹھتی ہے، بھارت اپنے بڑے بڑے دعوئوں کے باوجود امن مذاکرات کو حتمی شکل نہ دے سکا۔ بڑے بھائی اور ایک بہت ہی بڑا مستحکم ملک ہونے کے ناتے اسے یہ زیب نہیں دیتا کہ انسان کو انسان سے نہ ملنے دے۔ گھروں میں بھی لڑائی جھگڑے ہوتے ہیں، ہمسایوں میں بھی رنجشیں ہوجاتی ہیں، لیکن بات چیت سے مسائل کا حل ڈھونڈ لیا جاتا ہے۔ سرحد کے دونوں جانب کتنے لوگوں کے دلوں میں امید کی شمعیں روشن ہوگئی تھیں۔ لوگوں نے اپنے اپنے پروگرام بنا لیے تھے، کہ مرنے سے پہلے اپنی اپنی جنم بھومی اور اپنے اپنے بزرگوں کے گھر اور محلے تو دیکھ آئیں۔ لیکن ایک بار پھر بھارت کے غیر دوستانہ رویے نے امن کی فاختہ کو اڑنے سے پہلے ہی زخمی کردیا، وہ زخمی فاختہ انتظار کر رہی ہے کہ کب اس کے زخم مندمل ہوں اور وہ پھر اڑان بھرے۔ پی پی کی حکومت نے خواہ پانچ سال کے عرصے میں لوگوں میں صرف مایوسیاں بانٹی ہیں، لیکن آصف علی زرداری اور وزیر خارجہ نے امن مشن کو کامیاب بنانے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جناب نواز شریف نے بھی اپنے دور اقتدار میں امن کی مثبت کوششیں کی تھیں، لیکن افسوس کہ جہادی گروپوں اور انتہاپسندوں کی وجہ سے یہ مذاکرات کامیاب نہیں ہوپائے۔ منتخب حکومتیں ان دہشت گردوں کے ہاتھوں یرغمال بن جاتی ہیں۔

جس کرب سے گلزار اپنی جنم بھومی کو دیکھ کر گزرے، اسی کرب سے منیر نیازی اور انتظار حسین بھی گزر چکے ہیں۔ میری اب سمجھ میں آیا کہ ستمبر 1947 میں ہجرت کرکے آنے کے بعد میرے والدین نے ایک بار بھی دلّی یا شملہ جانے کا نہیں سوچا۔ دلّی میری والدہ اور بہن بھائیوں کی جائے پیدائش تھی اور شملہ میرے والد کا۔ جہاں ان کا بچپن، لڑکپن گزرا، جہاں کے اسکول میں انھوں نے پڑھا۔ لیکن جب بھی کوئی ان سے کہتا کہ انڈیا کا پھیرا لگالیں، تو دونوں کہتے تھے ’’اب وہاں کیا رکھا ہے؟ جب ہم اپنے گھروں میں دوسروں کو آباد دیکھیں گے تو بہت سے پرانے زخم کھل جائیں گے‘‘ وہ دونوں یا میری دادی اور بھائی بہن کبھی انڈیا نہیں گئے، لیکن میرے دل میں اپنے والدین کی جنم بھومیوں کو دیکھنے کی شدت سے خواہش تھی، خاص مغلوں کی راجدھانی، میرؔ اور غالب کی دلّی مجھے بلاتی تھی، اور یہ خواہش پہلی بار جب 2009 میں پوری ہوئی تو میں بھی ایک تکلیف دہ کرب سے گزری تھی۔ دلّی کا کون سا محلہ تھا، جہاں میری ننھیال کے لوگ آباد نہیں تھے۔ میں نے سارا حال اپنے پہلے سفرنامے میں دلکھا ہے۔ گلزار کی کیفیت سن کر مجھے وہ وقت یاد آگیا جب ہمایوں کے مقبرے میں مجھے اپنی نوبیاہتا بہن کا کسمپرسی کا خیال مجھے مارے ڈال رہا تھا۔ چاندنی چوک پر ماموں زاد بھائیوں کا سکھوں کی تلوار سے شہید ہونے کا واقعہ مجھے زندہ لگ رہا تھا۔ میں نے تو نہ دلی میں آنکھ کھولی، نہ شملہ دیکھا، لیکن میری روح بے قرار تھی ان سب جگہوں کو دیکھنے کے لیے جہاں جہاں میرے والدین کی یادوں کا بسیرا تھا۔ لیکن کبھی کبھی یہ ضروری نہیں ہوتا، ہم ان شہروں اور گھروں کو دیکھ کر بھی اتنے ہی جذباتی ہوجاتے ہیں، جو ہمارے پرکھوں کے گھر ہوتے ہیں، ان کے شہر ہوتے ہیں۔ یہ تجربہ مجھے دو بار ہوچکا ہے، پہلی بار انڈیا سے واپسی پر دوستی بس کے ٹرمینل پر کھڑی تھی، آنسو تھے کہ تھمتے نہیں تھے، والدین کی یادوں کی قندیل میرے سامنے گھوم رہی تھی، بہت عجیب کیفیت تھی، پہلی بار وہ شعر سمجھ میں آیا جو میرے والد کو بہت پسند تھا:

ایک پل میں وہاں سے ہم یوں اٹھے
بیٹھنے میں جہاں زمانے لگے

ٹرمینل پر کھڑی ڈیوٹی آفیسر میرے پاس آئی، میرے آنسو خشک کیے اور پیار سے بولی ’’یہاں تمہارا میکہ ہے‘‘ میں نے کہا کہ نہیں میرا یوں تو یہاں کوئی نہیں، لیکن سچ پوچھو تو میری دادی کا، نانی کا، اور ماں کا میکہ اور سسرال یہی سدا سہاگن دلّی تھی، جہاں سے آج میں جارہی ہوں، اور نجانے اب دوبارہ واپس بھی آؤں کہ نہیں؟تب وہ آہستہ سے کہنے لگی ’’ہمارے اور تمہارے نیتاؤں کو بھگوان عقل دے، وہ لڑائی جھگڑا چھوڑ کر پیار کی بات کریں‘‘ مگر نیتا بھی کیا کریں؟ بعض اوقات وہ بھی خفیہ طاقتوں کی سازشوں کی بنا پر عوام کے لیے کچھ نہیں کرپاتے، کہ جو خفیہ طاقتیں انھیں اقتدار میں لاتی ہیں وہ اپنا حصہ بھی تو وصول کرتی ہیں۔ جناب انتظار حسین نے اپنی سوانح عمری ’’جستجو کیا ہے‘‘ میں ایک جگہ لکھا ہے ’’جب منیرؔ اپنے خان پور کو پکارتا ہے تو میرا بھی ایک ہستی کو پکارنے کو جی چاہتا ہے، جب وہ اپنے باغوں اور اپنے جنگل کا ذکر کرتا ہے تو میں اسے اسی عالم میں چھوڑ کر اپنے جنگل کی طرف نکل جاتا ہوں، ہماری بستی کا جنگل کچھ بہت گھنا تو نہیں تھا، مگر میری یادوں نے اسے گھنا بنادیا تھا‘‘ دنیا میں نئے ملک اور نئے شہر آباد ہوتے رہتے ہیں، لیکن خدا جانے کیوں پاکستان کے وجود کے ساتھ ہی نفرتوں کا لاوا بھی اس ملک کا مقدر بن گیا ہے، کاش دونوں ملکوں میں کوئی ایسی قیادت آئے جو صرف محبت اور پیار پر ایمان رکھتی ہو۔ کیونکہ محبت ہی فاتح عالم ہے، نفرتیں صرف جنگوں کو جنم دیتی ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔