پالیسی

جاوید قاضی  جمعرات 7 ستمبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

ایک طرف دنیا میں ماحولیاتی تبدیلی آرہی ہے اور دوسری طرف بین الاقوامی صورتحال کشیدہ ہوتی جا رہی ہے۔گلوبل معاشی نظام اپنی خودغرضی کی وجہ سے دنیا میں بڑھتی ہوئی آبادی اور اس کی فلاح و بہبود کی تکمیل نہ کرسکا۔ اِن تمام حقائق میں بنی نوع انسان کے وجودکے لیے نئے خطرات جنم لے رہے ہیں۔ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے سمندری طوفان، برف کا پگھلنا، غیر متوقع بارشیں ایک طرف اور دوسری طرف انسانی ہجرتیں، سول وارز،اشیائے خورونوش کی قِلت۔ یہ تمام مسائل ہماری دہلیز پر بھی دستک دے رہے ہیں اورکسی وقت بھی ہمیں اپنی لپیٹ میں لے سکتے ہیں۔

اس پسِ منظر میںضرورت اِس بات کی ہے کہ ہم ایک مکمل اورجامع پالیسی اور بیانیہ مرتب کریں مگر اس طرح ایک نئی پالیسی یا بیانیہ ترتیب دینے میں ہمیںکونسی دشواریں آسکتی ہیں؟ سب سے پہلی اور اہم رکاوٹ یہ ہے کہ اجتماعی مفادات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ہماری عسکری، سیاسی، سماجی اور سویلین سوچ ایک پیج پر نہیں اور یہ بھی ضروری نہیں کہ مکمل طور پر ایک ہی سوچ رکھی جائے۔ اختلاف اور تضاد بھی ارتقاء کے عمل کے لیے صحت مند ہے لیکن کچھ مختلف پوائنٹس پر اتفاق رائے ہونا بھی بہت ضروری ہے۔ دوسری صورت میں آنیوالے بحرانوں میں ہم کسی کمزور حیثیت کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔ بہ حیثیت قوم ہماری بناوٹ اورکیمسٹری دنیا کی دوسری قوموں سے بہت مختلف ہے ۔ ہمارا 65 % آبادی کا حصہ تیس سال سے کم عمر لوگوں پر مبنی ہے۔ 50% آبادی کا حصہ بیس سال سے کم عمر پر مبنی ہے۔

ہماری قوم کے اندر تضادات اگر گہرے نہ ہوں تو یہ Composition صحت مند بھی ہے مگر یہ تضادات اِس قوم میں سول وار ہونے کے لیے ایندھن کا کام کرتے ہیں۔ یہ نوجوان ہم سے کیا مانگتے ہیں؟ روزگار۔ اور یہ قوم ہم سے کیا مانگتی ہے؟ ایک بہتر معیارِ ِزندگی۔ کیا ہم یہ فراہم کرنے میں کامیاب ہوئے ہیں؟َ نہیں ہم اِس عمل میں بْری طرح ناکام رہے ہیں۔ ہماری یہ ناکامی ہی اس بات کی بنیادی وجہ ہے جس نے ملک کی داخلی صورتحال کوکمزورکیا۔

پرائمری صحت و تعلیم کا نظام پاکستان میں مکمل طور پر ناقص ہے۔ روزگار فراہم کرنیوالے دونوں شعبے یعنی صنعت و زراعت مجموعی طور پر زوال کی طرف ہیں، جب کہ سروس سیکٹر GDP کے آدھے حصے سے بھی زیادہ پر منحصر ہے اور روزگار فراہم کرنے میںسروس سیکٹر کا شعبہ اتنا وسیع نہیں۔ اعداد وشمار بتاتے ہیں کہ پاکستان میں بیروزگار کی شرح1985 ء سے2015ء تک7.8% رہی۔2014ء میں بیروزگاری کی شرح% 5.5 رہی اور اب بیروزگاری کی شرح لگ بھگ6.5% کے اِرد گِرد گھوم رہی ہے۔

ہمارے ہاں شرح ِ بیروزگاری کی پیمائش کے لیے کوئی جامع ڈیٹا سسٹم نہیں ہے۔ میرے پاس INFORMAL طریقہ یہ ہے کہ ہم بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح کا اندازہ نوجوان نسل کا اسٹریٹ کرائم میں ملوث ہونا، تعلیم کی کمی کی وجہ سے مذہبی انتہا پرستی کے راستے اپنانا اور دہشتگردی میں ملوث ہونا وغیرہ سے لگا سکتے ہیں۔

چند سال پہلے کچھ عرب ممالک میںاسپرنگ انقلاب آیا تھا۔ اْن ممالک کی قوموں کی COMPOSITION بھی ہماری طرح ہی کی تھی ۔ نوجوان بیروزگار تھے اور شرفاء بے فکر اور اس طرح تضادات ان میں لسانی گروہی اور مذہبی سطح پر مختلف فرقوں میں اْبھرے۔ خدشہ یہی ہے کہ ہم بھی ایک بہت بڑے سول بحران کو دعوت دے رہے ہیں کیونکہ ہماری کیمسٹری بھی انھیِں ممالک سے ملتی جْلتی ہے۔ 2017ء کی مردم شماری نے ہمیں یہ باورکروایا کہ ہم آبادی کے لحاظ سے پانچواں بڑا ملک ہیں۔

2030ء میں آبادی کے لحاظ سے دنیا کا چوتھا بڑا ملک ہونگے۔ ہماری آبادی بڑھنے کا تناسب 2.4% ہے۔

پریشان کْن بات یہ ہے کہ بیروزگاری کی شرح دن بدن بڑھتی جا رہی ہے اور اسی طرح ہماری آبادی بھی تو کیا ہماری معیشت اتنی وسیع ہے کہ اِن مسائل کو اپنے اندر جذب کر سکتی ہے۔ روزگار کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے پسماندہ صوبہ بلوچستان ہے۔ پسماندہ INFRASTRUCTURE اور روزگار کے مواقعے کم فراہم کرنیوالے دوسرے نمبر پر دیہی سندھ اور ساؤتھ پنجاب کے علاقے ہیں۔ بلوچستان کے اندر شورش کی اہم وجہ یہی پسماندگی ہے۔

ساؤتھ پنجاب میں پھیلی مذہبی جنونیت کے پیچھے بھی یہی حقائق بنیادی حیثیت رکھتے ہیں اور دیہی سندھ میں قوم پرستی اور مذہبی انتہا پرستی کے پیچھے بھی اسی بیروزگاری کا عمل دخل ہے۔ تاریخی اعتبار سے دیہی سندھ میں دو بڑے ادوار آئے جس میں لوگوں کو بر سرِ روزگار کرنے کے مواقعے میسر ہوئے۔ ایک ذوالفقارعلی بھٹو کا دور دوسرا جب بھٹو کو پھانسی دی گئی اور سندھ سے احساسِ محرومی کو کم کرنے کے لیے سرکاری نوکریاں دی گئیں۔ اِن ادوار میں ایک چیز مثبت تھی اور ایک منفی ۔ مثبت پہلو یہ تھا کہ نوجوانوں کو یہ نوکریاں پارٹی کے مفادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے دی گئیں اور منفی پہلو یہ تھا کہ تمام نوکریاں پبلک سیکٹر اور سرکاری محکموں نے دیں جب کہ یہ تمام نوکریاںپرائیویٹ سیکٹر کے ذریعے دینی چاہییں تھیں کیونکہ ماڈرن ورلڈ میں سب سے زیادہ روزگار فراہم کرنیوالا سیکٹر صرف پرائیویٹ سیکٹر ہے۔ کیونکہ صرف پرائیویٹ سیکٹر میں ہی نوکری میرٹ پر دی جاتی ہے۔

ہمیں اب اپنیEXISTENCE کے لیے7% کی شرح نمو درکار ہے تا کہ روزگار کے وسیع مواقعے پیدا ہوں، ا گر ہندوستان کی معیشت11% شرح نمو تک بڑھ سکتی ہے تو پاکستان کی شرح نمو 7% تک کیوں نہیں آسکتی۔گزشتہ پچیس سال سے ہندوستان کی معیشت اوسطاً 7% تک بڑھتی رہی جس کی ایک اہم وجہ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی ڈاکٹرائن کو FOLLOW کرنا تھی۔ ڈاکٹر من موہن سنگھ کی ڈاکٹرائن نے اربن ہندوستان کو تو آگے بڑھا دیا مگر رْورل ہندوستان اْسی بھوک و افلاس کا شکار رہا۔پاکستان، ڈاکٹر من موہن سنگھ کی ڈاکٹرائن سے پہلے ہی مارکیٹ بیس اکانومی کی ڈاکٹرائن کو اپنا چْکا تھا پاکستان اپنے سیاسی بحران، کرپشن اور ناقص حکمرانی کی وجہ سے اپنی درکار شرح نمو کو بڑھانے میں ناکام ہے۔ جس نےPOLITICAL UNCERTAINITY کو جنم دیا ہے۔ ہماری بیوروکریسی کا معیار بہت گِرچْکا ہے اور کوئی پالیسی مرتب بھی کی جائے تو بیوروکریسی کی وجہ سے IMPLEMENTATION نہیں ہو پاتی۔ ہم نے اپنی خارجہ پالیسی کو بہ حیثیت ECONOMIC GOOD (جِنس) نہیں دیکھا۔ اپنی خارجہ پالیسی کو غیر ضروری نظریاتی دیکھا۔ہماری MILITARY STRATEGY POLICY بھی اِسی روش پر تھی۔

ڈاکٹر من موہن سنگھ کے بجائے ہمارے معاشی مینجر اسحق ڈار جیسے چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ ہیں۔ موجودہ مشکل دور میں بینظیر بھٹو یا ذوالفقار علی بھٹو جیسے ملکی سطح پر مانے ہوئے لیڈر بھی نہیں۔ میاں صاحب لیڈر تو ہیں لیکن شاید سینٹرل پنجاب کے۔

ماحولیاتی اور سیاسی تبدیلیوں کی وجہ سے پاکستان بڑے بحرانوں کی زَد میں ہے۔اِس صورتحال سے نجات پانے کے لیے پاکستان کو بڑےEFFECTIVE اقدام لینے ہوں گے۔ ایک جامع پالیسی ترتیب دینی ہوگی جس کے ذریعے ملکی معیشت کو بہتر بنایا جا سکے، نوجوانوں کو بیروزگار ی کے مرض سے نجات دی جائے۔ ایسی پالیسی مرتب کی جائے جو سول اور ملٹری دونوں فورسزکے لیے یکساں ہو، پاکستان کے دستور کے تابع ایک ایسا ایجنڈا بنایا جائے جس میں پاکستان کے تمام فکری، سیاسی، لبرلز، مذہبی اور خاص کر پاکستان کے عوام ON BOARD ہوں۔

NAP اِس ایجنڈا کا صرف 10% ہو اور40% اس ایجنڈا میں اس ملک کے اندر تمام اداروں کی پا لیسیز کا محور معاشی اور فلاحی ترقی ہو جو کہ ہماری قوم کی COMPOSITIONکے مطابق ہو اور اسی طرح ہم آنیوالے CHALLENGES کا مقابلہ کرنے میں کسی حد تک کامیاب ہو سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔