اب تقریبات اور کتاب کلچر

ظہیر اختر بیدری  پير 18 فروری 2013
zaheerakhtar_beedri@yahoo.com

[email protected]

زندگی سے ادب کا رشتہ بڑا قریبی،بڑا گہرا ہوتا ہے، انسانی معاشروں کے حال اور مستقبل کو سنوارنے کے لیے جہاں سماجی، سیاسی اور اقتصادی وسیلوں کو کام میں لایا جاتا ہے وہیں ادب کی اہمیت سے انکار بھی ممکن نہیں، ترقی یافتہ دنیا نے اپنی اجتماعی اور انفرادی زندگی کو سنوارنے کے لیے ادب کو اپنی زندگی کا حصہ بنایا۔ ادب کی ان معاشروں میں اہمیت اور عقیدت کی وجہ سے ان معاشروں میں سارتر ، ٹالسٹائی، فرانز کافکا، بورفین، ارنسٹ ہمنگوے، جوزف ہیلر، میری لیون، یان یانے، اوہنری، گراہم گرین اور جیک لنڈن جیسے افسانہ نگار ہومر، یوری پیڈیز، لوکریٹس، دانتے، شیکسپیئر، جان کیٹس، شیلے اور والٹ وٹمن جیسے شاعر پیدا ہوئے، اہل مغرب نے انھیںسر آنکھوں پر بٹھایا، مغربی معاشروں میں آج بھی انھیں دیوتاؤں کی طرح پوجا جاتا ہے۔

پسماندہ معاشروں میں جہاں ادب اور شاعری کو زندگی سنوارنے کا وسیلہ بنانے کی زیادہ ضرورت ہے وہاں ادب انتہائی کسمپرسی کی حالت میں معاشرتی زندگی سے دور کھڑا نظر آتا ہے۔ اس پس منظر میں جب ہم پاکستانی معاشرے پر نظر ڈالتے ہیں جہاں ناقابل بیان انارکی ہے، جہاں ناقابل یقین افراتفری ہے، جہاں ناقابل یقین مایوسی ہے، جہاں ناقابل ذکر جہل ہے اور پورا معاشرہ تباہی کے کنارے کھڑا ہے وہاں ادب اور شاعری زندگی سے دور بے یار و مددگار کھڑی نظر آتی ہے۔ ایسے ماحول میں اگر کہیں سے ادب کی کوئی آواز سنائی دیتے ہے تو صحرا میں اذان کی آواز بن جاتی ہے۔ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی جانب سے یہ خبر نظر سے گزری تھی کہ وہ 15 فروری سے ’’کراچی لٹریچر فیسٹیول‘‘ کا اہتمام کر رہا ہے جس میں دنیا کے کئی ملکوں کے ادیب شرکت کریں گے ۔یہ بتایاگیا کہ اس میں ایک دو سو مقررین اپنے خیالات کا اظہار کریں گے اور اس تین روزہ فیسٹیول کے 100 سیشن ہوں گے۔ بلاشبہ یہ ہمارے دہشت زدہ معاشرے میں امید اور حوصلے کا کام ہے، خاص طور پر کراچی جیسے شہر میں جہاں ہر روز دس بیس انسان قتل ہورہے ہیں ہر علاقے میں گریہ و زاری کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، ہر بستی سے جنازے اٹھ رہے ہیں، ہر طرف ایمبولینسوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، ہر چہرہ خوف و دہشت کی علامت بنا ہوا ہے اور اعلیٰ عدلیہ عوام سے کہہ رہی ہے کہ وہ گھر سے نکلتے وقت بازو پر امام ضامن باندھ لیں، آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی یہ جرأت رندانہ قابل تحسین قابل داد تھی ۔

پاکستان کے منتشر اور انتہا پسند کلچر میں ادب کے فروغ اور کتاب کلچر کے احیاء کو ضروری سمجھا جارہا ہے، آج ہمارا معاشرہ جن برائیوں کی لپیٹ میں ہے ان سے نجات کے لیے مختصر مدتی اور طویل مدتی منصوبوں کی ضرورت ہے، خاص طور پر مذہبی انتہاپسندی نے پورے معاشرے کو جس طرح یرغمال بنارکھا ہے اس سے نمٹنے کے لیے جہاں ایک قومی پالیسی اور انتظامی اقدامات کی ضرورت ہے وہیں فکری تبدیلیوں کے ایک طویل مدتی پروگرام کی بھی ضرورت ہے لیکن اس حوالے سے کسی موثر کوشش، کسی منصوبہ بندی کا دور دور تک پتہ نہیں چلتا۔ ہمارے ملک میں ادب کے فروغ کے لیے کئی ادارے موجود ہیں اور ان کے پاس بھاری وسائل بھی موجود ہیں، لیکن افسوس کہ ان اداروں میں سوائے کاسمیٹکس سرگرمیوں اور شوشا کے کوئی ٹھوس کام ہوتا نہیں دکھائی دیتا۔ کراچی میں آرٹس کونسل ایک ایسا ادارہ ہے جو کتاب کلچر کو فروغ دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور اس ادارے میں ماشاء اللہ معروف ادیب اور شاعر بھی اچھی خاصی تعداد میں موجود ہیں، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ بار بار توجہ دلانے کے باوجود اس ادارے میں کتاب کلچر کے فروغ کے لیے کوئی ٹھوس کام ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔

سالانہ اردو کانفرنس کا اہتمام تو ہوتا ہے لیکن اس قسم کی این جی اوز سرگرمیوں سے ایک رسم ادائی تو ہوجاتی ہے، لیکن وہ مقاصد حاصل نہیں ہوتے جن کی ہمارے بے انتہا گنجلکی معاشرے کو ضرورت ہے۔ اس حوالے سے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کا سہ روزہ فیسٹیول قابل تعریف تو ہے لیکن اس کی افادیت وقتی ہے۔ ادیبوں، شاعروں کی تقاریر سے چند سو ادب دوست افراد تو مستفید ہوسکتے ہیں لیکن ملک کی جس آبادی کو کتاب کلچر کی ضرورت ہے اسے ان تقاریب سے کوئی مستقل فائدہ نہیں ہوسکا۔

اس حوالے سے ایک جامع منصوبہ بندی کی ضرورت ہے، برصغیر اور عالمی ادب سے منتخب ادبی کتابوں کی بڑے پیمانے پر اشاعت اور عوام تک ان کتابوں کی رسائی کے ایک منظم نظام کی تشکیل کی ضرورت ہے۔ قیام پاکستان کے بعد برصغیر کے ادیبوں کی کتابیں گلی گلی قائم لائبریریوں کے ذریعے عوام تک پہنچ جاتی تھیں۔ اور ان کی مانگ اور مقبولیت کا عالم یہ تھا کہ اپنی پسند کی کتاب حاصل کرنے کے لیے دنوں ہفتوں انتظار کرنا پڑتا تھا۔ یہ اگرچہ خود رو انتظام تھا لیکن کتاب کلچر کے فروغ میں اس نے اہم کردار ادا کیا۔ حکمران طبقات کو ان ’’فضول کاموں‘‘ سے کوئی دلچسپی نہیں ہوسکتی، لیکن حکمران جن اداروں کو بھاری گرانٹ مہیا کر رہے ہیں ان کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنی بھاری گرانٹ کا ایک حصہ ادبی کتابوں کی اشاعت اور تقسیم پر لگائیں، صرف فن اور فنکاری پر ہی ساری توجہ نہ صرف کریں۔

برصغیر کی ادبی تاریخ کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے، ایک حصہ ادب برائے ادب کا، دوسرا ادب برائے زندگی کا۔ ادب برائے ادب کا دور 1936 میں اس وقت ختم ہوا جب انجمن ترقی پسند مصنفین تشکیل دی گئی اور برصغیر کے نامور ادیب اور شاعر انجمن کے پلیٹ فارم سے ادب کی ترویج کا کام ایک تحریک کی شکل میں انجام دینے لگے۔ ہر دور کے اپنے مسائل ہوتے ہیں اور ادب ہر دور کی زندگی کا ترجمان ہوتا ہے۔ نوآبادیاتی دور میں نوآبادیاتی مظالم اور اس سے آزادی نو آبادیوں کا سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ 1947 میں جب ہندوستان تقسیم ہوا تو مذہبی جنونیت اور اس کی قہر سامانیاں ہندوستان اور پاکستان کا ایک بڑا مسئلہ بن گئیں۔ ہمارے ادب نے ان دونوں ادوار کے مسائل کو اپنا موضوع بناکر اپنی ذمے داریاں بھرپور طریقے سے نبھائیں۔ پاکستان آج جن بدترین مسائل سے دو چار ہے ان میں سرمایہ دارانہ معیشت اور جاگیردارانہ معاشرت کی تباہ کاریوں کے ساتھ ایک نئے عفریت کا اضافہ ہوگیا ہے اور وہ ہے دہشت گردی، فقہی قتل و غارت۔ کیا آج کا ادیب ان مسائل کو اپنا موضوع بنارہا ہے؟ اس بارے میں وثوق سے کچھ کہنا اس لیے مشکل ہے کہ ہمارا ادیب اور ہمارا ادب دونوں ہی عوام کی نظروں سے اوجھل ہیں، یہی وہ المیہ ہے جو آج ہمارے معاشرے کو درپیش ہیں اور جس کے ازالے کے لیے مختصر مدتی اور طویل مدتی منصوبہ بندی کی ضرورت ہے۔

فن خواہ کسی شکل میں اس کا ایک بنیادی مقصد عوام کو تفریح کے چند لمحات فراہم کرنا ہوتا ہے اور تفریح کے یہ چند لمحات بھی وقت کی طرح گزر جانے والے ہوتے ہیں۔ معاشرے کو تبدیل کرنے کے لیے فکری تبدیلی کی ضرورت ہوتی ہے اور یہ ذمے داری ادیب شاعر ادا کرتے ہیں بشرطیکہ وہ ادب برائے زندگی کے فلسفے کو تسلیم کرتے ہوں۔

2007 کے بعد ہمارا میڈیا بہت فعال اور طاقتور ہوگیا ہے، لیکن ادب کے فروغ کے حوالے سے وہ بھی تہی دست ہی نظر آتا ہے۔ آج الیکٹرانک میڈیا نے ملک کے چپے چپے، گاؤں گاؤں، گھر گھر تک رسائی حاصل کرلی ہے۔ اگر سیاسی مرغوں کی بے مقصد اور عوامی اذہان کو کنفیوز کرنے والی لڑائی میں خرچ ہونے والے وقت کا 5 فیصد حصہ بھی ادب کو دے دیا جائے اور نئے لکھے جانے والے معیاری ادب اور ادیبوں کو عوام میں متعارف کرایا جائے تو عوام ادب کی طرف راغب ہوسکتے ہیں۔اگر آرٹس کونسل کراچی آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے اشتراک سے جنوبی ایشیاء اور منتخب عالمی ادب کی اشاعت کا اہتمام کرے اس کے سستے ایڈیشن چھاپے ، اس کی عوام تک رسائی کا ایک مربوط نظام قائم کرے اور ماضی کی طرح کیبن لائبریریوں کا احیاء کرے تو یقینا کتاب کلچر کو فروغ حاصل ہوسکتا ہے اور یہ کتاب کلچر انسانی معاشروں کو میدانی معاشروں سے نکال کر ایک بار پھر انسانی معاشروں میں تبدیل کرسکتا ہے۔ جہاں نفرتوں کی جگہ محبت، جہل کی جگہ علم، تعصبات کی جگہ رواداری، عدم برداشت کی جگہ برداشت، درسگاہیں جلانے کی جگہ درس گاہیں بنانے، جنگوں کی جگہ امن مذہبی اور فرقہ وارانہ خونریزیوں کی جگہ مذہبی اور فرقہ ورانہ یکجہتی کی روایات اور فضا قائم ہوسکتی ہے کیا کوئی اللہ کا بندہ، کیا کوئی وسائل رکھنے والا ادارہ، کیا کوئی حکمران اس ضرورت کو محسوس کرے گا؟ہمارا نصاب تعلیم فضولیات سے بھرا ہوا ہے، ضرور اس بات کی ہے کہ منتخب عالمی ادب کو نصاب تعلیم کا لازمی حصہ بنایا جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔