شارٹ کٹ

ایم جے گوہر  پير 18 فروری 2013
 mjgoher@yahoo.com

[email protected]

ملک کی سیاسی تاریخ میں پاکستان پیپلز پارٹی کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس نے 1973 میں ایک ایسا متفقہ آئین تشکیل دیا جس کی رہنمائی میں آج بھی ریاستی امور چلائے جارہے ہیں، مختلف ادوار میں برسر اقتدار سول و عسکری حکمرانوں نے آئین میں بعض ترامیم بھی کیں، لیکن ملک کی تمام سیاسی و مذہبی جماعتوں کا متفقہ 1973 کا آئین موجودہ شکل میں قابل قبول ہے اور مملکت کے تمام ادارے اسی آئین کے تحت کاروبار سلطنت چلانے پر مطمئن ہیں۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ اسی آئین کے تحت پارلیمنٹ میں موجود حکومتی و اپوزیشن اراکین کی کمیٹی نے متفقہ طور پر الیکشن کمیشن کی تشکیل کا مشکل کام بہ حسن و خوبی انجام دیا اور باہمی مشاورت و اتفاق رائے سے جناب جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم کی تقرری عمل میں آئی آئینی طریقہ کار کے مطابق الیکشن کمیشن کے چاروں صوبائی ارکان کا تقرر ہوا جن میں جناب جسٹس (ر) دوستن عیسانی(سندھ)، جسٹس (ر) ریاض کیانی (پنجاب)، جسٹس (ر)فضل الرحمن (بلوچستان) اور جسٹس (ر)شہزاد اکبر (خیبرپختونخوا) شامل ہیں، الیکشن کمیشن کی تشکیل کے تمام مراحل گزشتہ سال جولائی تک مکمل ہوچکے تھے۔ پارلیمنٹ کے اندر و باہر کی تمام سیاسی ومذہبی جماعتوںنے الیکشن کمیشن کی تشکیل اور چیف الیکشن کمشنر جناب جسٹس (ر) فخرالدین جی ابراہیم کی تقرری پر اطمینان و اعتماد کا اظہار کیا جن میں تحریک انصاف بھی شامل تھی، ملک کے تمام محب وطن و جمہوریت پسند حلقوں نے حکومت اور اپوزیشن کی باہمی مشاورت اور افہام و تفہیم سے الیکشن کمیشن کی تشکیل اور فخرو بھائی کی بطور چیف الیکشن کمشنر تقرری پر مسرت کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی اس متفقہ فیصلے سے حکومت اپوزیشن محاذ آرائی میں کمی ہوگی، جمہوریت کو استحکام ملے گا اور ملک میں پہلی مرتبہ ایک آزاد، غیر جانبدار اور خودمختار الیکشن کمیشن کی موجودگی میں ملک میں منصفانہ، شفاف اور آزادانہ انتخابات کے انعقاد کا قوم کا دیرینہ خواب بالیقین شرمندہ تعبیر ہوگا۔

الیکشن کمیشن کی تکمیل کو چھ ماہ گزرنے کے دوران ملک کی کسی سیاسی جماعت کے رہنما کسی قانون داں یا کسی اور فرد یا ادارے نے الیکشن کمیشن کی تشکیل پر کبھی کوئی اعتراض نہیں اٹھایا اور نہ ہی کسی دانائے قوم نے عدالتی دروازے پر دستک دی کہ جناب والا غضب ہوگیا الیکشن کمیشن کی تشکیل میں آئین سے انحراف کیا گیا ہے، اسے فوراً تحلیل کرنے کے احکامات صادر فرمائیے ورنہ الیکشن کی شفافیت متاثر ہوگی، لیکن حیرت انگیز طور پر دو ماہ قبل اچانک پاکستان آنے والے ایک کینیڈین مولانا طاہر القادری کے’’کشف و کرامات‘‘ کے طفیل یہ عقدہ کھلا کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل آئین کے مطابق نہیں ہوئی چنانچہ حضرت نے الیکشن کمیشن کی تحلیل کی دہائی دینا شروع کردی۔ 16 جنوری کو ڈی چوک اسلام آباد پر اپنے ’’چالیس لاکھ‘‘ مریدوں ومعتقدین کو ’’گواہ‘‘ بناکر ’’یزیدی حکومت‘‘ کے نمایندوں سے ’’حسینی قافلے‘‘ کے سالار نے ایک ’’کاغذی معاہدہ‘‘ کیا جس میں الیکشن کمیشن کی تحلیل و ازسر نوتشکیل کے حوالے سے مشاورت کے لیے ملک کے چوٹی کے قانونی ماہرین کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی، بعدازاں مذکورہ کمیٹی کے اجلاس میں ماسوائے ایس ایم ظفر صاحب کے تمام قانونی زعما نے الیکشن کمیشن کی تشکیل کو درست اور آئین کے مطابق قرار دے دیا۔ جب حضرت کو ’’دال گلتی‘‘ نظر نہ آئی تو ان کی مایوسی و بے قراری بڑھنے لگی، چار و ناچار وہ درخواست لے کر عدالت عظمیٰ جا پہنچے حالانکہ وفاقی وزیر اطلاعات قمرالزماں کائرہ نے ’’انقلابی کنٹینر‘‘ میں مذاکرات کے دوران حضرت پر واضح کردیا تھا کہ آئینی طور پر الیکشن کمیشن کی تحلیل ممکن نہیں۔ وفاقی وزیر قانون فاروق ایچ نائیک نے بھی واضح طور پر کہا ہے کہ الیکشن کمیشن کی تشکیل آئین کے مطابق کی گئی ہے۔ بعض آئینی و قانونی ماہرین کا بھی موقف یہی ہے کہ محض طریقہ کار کی خامی سے چیف الیکشن کمشنر اور الیکشن کمیشن ارکان کی تقرری کو کالعدم قرار نہیں دیا جاسکتا اگر مکمل اتفاق رائے موجود ہو تو چھوٹی موٹی کمی بیشی کو نظرانداز کیا جاسکتا ہے تاکہ سیاسی وجمہوری عمل چلتا رہے۔ اب معاملہ عدالت میں ہے صحیح و غلط کا فیصلہ وہیں سے آئے گا۔

بات اگر صرف مولانا کی ’’کاریگری‘‘ تک محدود رہتی تو سمجھنا آسان تھا کہ ملک بھر کے تجزیہ نگاروں کی متفقہ رائے کے مطابق حضرت کے ہر ’’نسخہ کیمیا‘‘ کے اندر الیکشن کے التواء کی خواہش کروٹیں بدلتی رہتی ہے کیونکہ موصوف کو ان کی سیاسی محرومیاں بے چین کر رہی ہیں، ہزارہا جدوجہد اور ’’آہ و فغاں‘‘ کے باوجود عوام میں ان کی مقبولیت کا گراف ’’چالیس لاکھ‘‘ سے آگے بڑھنے کے امکانات نظر نہیں آرہے، آیندہ انتخابات میں ایک واضح شکست کے خوف سے حضرت کی بے قراری میں اضافہ ہورہا ہے لہٰذا ’’عزت سادات‘‘ بچانے کا ان کے پاس صرف ایک ہی راستہ ہے کہ کوئی ’’انہونی‘‘ کرگزریں اور کسی صورت الیکشن ملتوی ہوجائیں، پھر فوج اور عدلیہ کی سرپرستی میں ٹیکنوکریٹ کی طویل مدتی حکومت کا ایسا خاکہ تشکیل پاجائے جس میں حضرت بھی ’’ہاتھ پاؤں‘‘ مار کے کسی صورت جگہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں، خواب دیکھنے پر کوئی پابندی نہیں ہے، مولانا تو خواب دیکھنے اور تعبیریں بتانے کے ماہر ہیں۔ شاید انھوں نے کوئی ’’من پسند‘‘ خواب دیکھ لیا ہو جس کی تعبیر حاصل کرنے کے لیے وہ بطور خاص کینیڈا سے پاکستان تشریف لائے ہیں اور روزوشب کی مشقتیں اٹھا رہے ہیں۔ کرکٹ کے خان کو بھی آیندہ الیکشن میں کامیابی کے حوالے سے مولانا جیسی مایوس کن صورت حال کا سامنا ہے اس کے سونامی کی لہروں کا جوش و جذبہ ٹھنڈا پڑتا جارہا ہے غالباً اسی لیے کرکٹ خان کو بھی چھ ماہ بعد الیکشن کمیشن میں خامیاں نظر آنے لگی ہیں اور اس نے مولانا کی آواز میں اپنی آواز بھی ملادی ہے لیکن دونوں’’ہمنواؤں‘‘ کو اس حقیقت کا ادراک نہیں کہ فوج اور عدلیہ دونوں مقررہ وقت پر انتخابات کے انعقاد میں پوری طرح سنجیدہ ہیں۔ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری ریمارکس دے چکے ہیں کہ الیکشن کا عمل طویل کرنے کا کوئی عذر نہیں چلے گا اور عدالتی کارروائیوں کے بہانے الیکشن ملتوی نہیں ہونے چاہئیں۔ اس حوالے سے صدر آصف علی زرداری، وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف، چیف الیکشن کمشنر جسٹس (ر) فخر الدین جی ابراہیم اور ملک کی تمام سیاسی جماعتیں و صحافتی حلقے مقررہ وقت پر انتخابات کے حق میں ہیں۔ آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی بھی چیف الیکشن کمشنر کو مقررہ وقت پر انتخابات کرانے پر اپنے تعاون کا اظہار کرچکے ہیں۔ اس پس منظر میں اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ کسی بھی جانب سے الیکشن کے التواء کی کسی بھی طرح کی کوشش کی کامیابی کے امکانات نہیں ہیں اور نہ ہی ’’بنگلہ دیش‘‘ حکومت بننے کی سازشوں کے بال و پر نکلنے کے آثار دکھائی دیتے ہیں لہٰذا مولانا طاہر القادری اور کرکٹ خان خاطر جمع رکھیں۔ انھیں انتخابی معرکے سے گزرنا پڑے گا۔ دونوں ہمنواؤں کے پاس ’’شارٹ کٹ‘‘ سے اقتدار میں آنے کی کوئی گنجائش نہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔