انسان کی حقیقت

نسیم انجم  پير 18 فروری 2013
nasim.anjum27@gmail.com

[email protected]

یقینا انسان پر ایسا زمانہ گزر چکا ہے کہ اس کی کوئی حیثیت نہیں تھی، اس کی پیدائش ہی نہیں ہوئی تھی، اس لیے وہ کسی شمار میں نہ تھا، کیونکہ اس کا وجود ہی نہ تھا، وجود نہ ہونے کے سبب کسی زبان پر اس کا ذکر نہ تھا، کوئی اسے نہ جانتا تھا، یہ بات تمام اہل کتاب تسلیم کرتے ہیں کہ انسان کی ایک ابتدا ہے اور آج کی انسانی تحقیق بھی یہی کہتی ہے کہ ایک زمانے میں ہر طرف پانی ہی پانی تھا اور جب انھوں نے کوہ ہمالیہ کی بلندیوں پر بھی سیپیاں اور گھونگھے دیکھے تو برملا اس کا اعلان کردیا کہ وہ زمین جس پر اب انسان آباد ہے سب پانی میں ڈوبی ہوئی تھی اس سے بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ زمین پر انسان کا وجود نہ تھا، اب اس کے یہ معنی بھی مطابقت رکھتے ہیں کہ ہر انسان پیدائش سے پہلے ایسا بے حقیقت ہوتا ہے کہ کوئی ذکر تک نہیں کرتا کیونکہ جب کوئی چیز وجود میں آجاتی ہے تو اس کا ذکر کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد یہ بتایا گیا ہے کہ ہم نے اسے اسی لیے پیدا کیا کہ اس کی آزمائش کریں کہ وہ اپنی اصلی حقیقت کو بھول گیا ہے یا اپنے پروردگار کو یاد کرتا ہے۔

بے شک انسان بے شمار خامیوں سے پر ہے، تکبر، گھمنڈ، تعصب و نفرت گویا اس کے خمیر میں شامل ہے، وہ چاہے تو ان برائیوں کو اپنا لے، چاہے تو نیکیوں کا سوداگر بن جائے، خوب خوب نیکیاں کما کے قلبی سکون حاصل کرلے۔ وہ اﷲ تعالیٰ کی وحدانیت اور قدرت کے نظاروں سے لطف اندوز ہو اور اپنے پروردگار کی کاریگری پر اس کی ہر لمحہ تعریف و توصیف بیان کرے۔ حضرت انسان سے ہی تو علامہ اقبال نے کہا ہے ؎

کھول آنکھ زمین دیکھ، فلک دیکھ، فضا دیکھ
مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو ذرا دیکھ
اس جلوۂ بے پردہ کو پردوں میں چھپا دیکھ
ایام جدائی کے ستم دیکھ، جفا دیکھ
بے تاب نہ ہو معرکہ بیم و رجا دیکھ!
ہیں تیرے تصرف میں یہ بادل، یہ گھٹائیں
یہ گنبدِ افلاک، یہ خاموش فضائیں
یہ کوہ، یہ صحرا، یہ سمندر، یہ ہوائیں
تھیں پیش نظر کل تو فرشتوں کی ادائیں
آئینہ ایام میں آج اپنی ادا دیکھ!

اﷲ کی کرم نوازیوں اور احسانات کا جس قدر شکر ادا کریں کم ہے، لیکن انسان ٹھہرا ناشکرا، قدرت کی مہربانیوں اور عنایتوں کو اپنی محنت کا ثمر جانتا ہے۔ وہ دولت، پیسہ، عزت شہرت پاکر اس مالک کو بھول جاتا ہے، جس نے اسے خوبصورتی کے ساتھ پیدا کیا، اس کی تعریف و تحسین میں جتنا بھی لکھا جائے کم ہے۔ سمندر اگر سیاہی کی مانند ہو تو وہ ختم ہوجائے گا اور اﷲ کا ذکر اس کی باتیں اس کی قدرت کے کرشمے ختم نہیں ہوسکیں گے کہ وہ دونوں جہانوں کا آقا ہے۔ انسان کو اﷲ تعالیٰ نے عقل سلیم عطا فرمائی کہ وہ سوچے اور غوروفکر کرے، لیکن انسان کو اتنی فرصت ہی کہاں کہ وہ اپنے پالن ہار کی حمد بیان کرے، بس جہاں اس نے عقل و فہم کی منزل کو پایا، وہ اپنے فائدے کے بارے میں سوچنے لگا، اپنا مستقبل سنوارنے کے لیے غیر اخلاقی و غیر قانونی ہتھکنڈے آزمانے لگا اور اس قدر مصروف ہوا اور بھاگ دوڑ میں لگا رہا کہ اس کے پاس عبادت و ریاضت کے لیے وقت کی کمی ہوگئی۔ اور یہ اس کی سزا اﷲ کی طرف سے ہے کہ الجھا رہے دنیا کے جھمیلوں میں، دنیاوی مسائل کی گرہیں سلجھاتا رہے اور اسی حال میں جوانی سے بڑھاپے کی خزاں تک پہنچ جائے اور خزاں میں ہوتا ہی کیا ہے، پرانے پتے جھڑ جاتے ہیں، درخت ٹنڈ منڈ ہوجاتا ہے اور موسم بہار اسے نیا چولا پہنا دیتا ہے لیکن انسان کے ساتھ ایسا نہیں ہے، بس ایک دفعہ عمر کے سر سبز پتے جھڑ گئے پھر دوبارہ نہیں آتے ہیں، پھر تو موت ہی اسے اپنے سنگ لیے جاتی ہے اور پھر جوانی کی عبادت، بڑھاپے کی عبادت سے زیادہ اہم اور باعث راحت و ثواب ہے، اس کا اجر زیادہ ہے۔

غوروفکر کرنے والے اپنی فانی زندگی کے بارے میں تردد کرتے ہیں اور حدیث رسولؐ کے مطابق اس دنیا کو قید خانہ گردانتے ہیں اور یہ مومن ہونے کی دلیل بھی ہے، لیکن ہم سب لوگ دنیا سمیٹنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں، قیمتی و فاخرہ لباس چاہیے اور ہر محفل شادمانی کے لیے نیا ملبوس ہو، گھر کی تزئین و آرائش کے لیے اشیائے قیمتی کے خواہشمند، غرض زندگی کے ہر میدان میں تصنع و بناوٹ سے کام لیتے ہیں، دکھاوے کے شوقین ہیں، اکثر یوں بھی ہوتا ہے کہ خواہشات کی تکمیل ہوجاتی ہے، خوبصورت و دیدہ زیب گھر تعمیر ہوجاتا ہے، لیکن رہنا بسنا نصیب نہیں ہوتا کہ شارٹ سرکٹ سے بھرے پرے گھر، دکانیں اور مارکیٹیں جل کر خاکستر ہوجاتی ہیں، اپنے آپ کو بڑا آدمی سمجھنے والے اپنی دولت پر تکبر کرنے والا آن واحد میں اِس کی جگہ سے اُس کی جگہ لے لیتا ہے، جس کا مذاق اڑاتا اور اسے حقیر گردانتا تھا، اس غریب رشتے دار یا عزیز سے ملنا اپنی توہین سمجھتا تھا۔ بعض اوقات ایسے ایسے حادثات رونما ہوتے ہیں کہ جس کے بارے میں کبھی گمان تک نہیں گزرتا ہے، روڈ ایکسیڈنٹ یا آگ سے جل جانے، کسی موذی مرض میں مبتلا ہوجانے والا حیران پریشان اور سکتے کی حالت میں آجاتا ہے کہ پل بھر میں یہ کیا ہوگیا؟ جن چیزوں پر وہ ناشکرا ہوا وہی اعضائے جسمانی اس سے چھین لیے گئے، کبھی آنکھیں ضایع ہوگئیں تو کبھی ہاتھ پیروں سے معذوری، پھر اسے احساس ہوتا ہے کہ زندگی میں اس نے اﷲ کی عطا کردہ نعمتوں کا شکر ہی ادا نہیں کیا تھا وہ اپنے ربّ کی یاد سے کس طرح غافل رہا ہے، جیسے کہ سب کچھ بغیر حکم کیے پیدا ہوگیا۔ ساتوں آسمان، زمین چاند ستارے، دریا سمندر، ہوائیں، تبدیلی موسم اور انسان کا اپنا وجود اﷲ کی بہت بڑی اور عظیم نشانیوں میں سے ہے کہ اﷲ کس طرح موت و زندگی عطا فرماتا ہے۔ وہ لوگ جو اﷲ کے وجود کے منکر ہیں وہ نجانے کس طرح سکون دل حاصل کرتے ہیں، کس سے مدد مانگتے ہیں۔ بے شمار لوگ ہیں جو مسلمان گھرانوں میں پیدا ہوئے، مگر دولت و شہرت وقتی فوائد کی بنا پر اسی ذات پاک کے منافی کہیے جس کے قبضے میں ہم سب کی جان ہے، انسان کی حقیقت ہی کیا، کٹھ پتلی کی مانند جب چاہے ہمارا مالک ہماری ڈور کھینچ لے۔

آئے دن ہم نامور شخصیات کی موت و زندگی کو دیکھتے ہیں، صحت مند، چلتا پھرتا انسان لمحے بھر میں زندگی کی رعنائی سے محروم کردیا جاتا ہے، بستر مرگ پر اتنا بے بس کہ جس کی کوئی مثال نہیں، نہ دولت کام آتی ہے نہ اولاد اور نہ تعلقات نہ بادشاہت و وزارت، چونکہ موت و حیات کے معاملات تو اﷲ کے اختیار میں ہیں، سب کچھ اس کے ہی اختیار میں ہے، کس منظم طریقے سے اس کا نظام چل رہا ہے، اﷲ اکبر!

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔