توانائی کا بحران کب حل ہوگا ؟

اشعر نجمی  پير 18 فروری 2013

گیس اور بجلی سمیت توانائی کے بحران نے اگرچہ اس وقت پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے مگر سب سے زیادہ آبادی والے صوبے پنجاب میں مہینوں سے صورتحال بہت زیادہ گمبھیر چلی آرہی ہے۔ خاص طور سے فیصل آباد میں، جو کپڑے کی صنعت کا مرکز ہونے کی وجہ سے بجا طور پر پاکستان کا مانچسٹر کہلاتا ہے، گیس لوڈشیڈنگ کے بڑھتے ہوئے دورانیے نے اس شہر کی صنعتی زندگی کو تباہی کے کنارے تک پہنچادیا ہے۔لاکھوں مزدور فاقہ کشی کا شکار ہیں ۔ گیس فراہم کرنے والی کمپنیوں کی طرف سے پنجاب بھر کی فیکٹریوں کو ہفتے میں پانچ دن گیس کی بندش کے اعلان نے تو گویا دھماکا ہی کردیا تھا۔ صنعتکاروں کی انجمنیں سڑکوں پر آنے پر مجبور ہوگئی تھیں۔ کئی مقامات پر احتجاجی مظاہرے بھی کیے گئے۔ فیصل آباد میں مل مالکان نے تالا بندی اور دھرنوں کا اعلان بھی کیا۔ گیس اور بجلی کی فراہمی کا تعلق خواہ پنجاب کی فیکٹریوں سے ہو یا کراچی کی انڈسٹریل اسٹیٹس سے، اس کا تعلق بلوچستان اور خیبر پختونخوا کے صنعتی اداروں سے ہو یا ملک کے دیگر علاقوں سے، یہ معاملہ چونکہ ملکی معیشت ، عام لوگوں کے روزگار، صنعتی اشیاء کی پیداواری لاگت اور عالمی منڈی میں روز بروز بڑھتی ہوئی مسابقت سے جڑا ہوا ہے اس لیے اس سے آنکھیں چرا کر کوئی بھی حکمت عملی نہیں بنائی جاسکتی۔ طلب اور رسد کی ضرورتوں کو مدنظر رکھتے ہوئے ایسے یقینی انتظامات کیے جانے چاہیئں جن سے ملکی معیشت کا پہیہ چلتا رہے۔

بجلی، گیس، پٹرول اور پانی کی مہنگائی کے باعث ہماری صنعتوں کے لیے بیرونی منڈی میں اپنی جگہ بنانا پہلے ہی مشکل تر ہوچکا ہے۔ اب اگر صنعتوں تک توانائی پہنچنے کے راستے پانچ یا چھ دن کی لوڈ شیڈنگ کی عملی صورت میں بند نظر آنے لگیں تو برسوں سے ظاہر کیے جانے والے ان خدشات کو تقویت ملتی ہے کہ داخلی صنعتوں کو لپیٹ کر ملک کو بیرونی مال کی منڈی میں تبدیل کرنے کے کسی منصوبے پر کام ہو رہا ہے۔ ملک کو بلاشبہ توانائی کے بحران کا سامنا ہے مگر اس پر قابو پانے کی جو کوششیں نئے ڈیموں کی تعمیر، کوئلے کے ذخائر سے بجلی پیدا کرنے، سورج کی روشنی کو ایندھن میں تبدیل کرنے اور ہوا سے توانائی حاصل کرنے کی صورت میں نظر آنی چاہیے تھیں وہ کہیں نظر نہیں آتیں۔ دنیا کے کئی ملکوں نے نہروں پر چھوٹے جنریٹر نصب کرکے بجلی کی پیداوار سے اپنے اہداف حاصل کرلیے مگر ہمارے ہاں کثیر قومی کمپنیوں کی خوشنودی کے لیے باربار ایسی مفید تجاویز کو نظر انداز کیا گیا۔ متبادل توانائی کے بورڈ کو اربوں روپے کے کرپشن کا ذریعہ بنا کر توانائی کے حصول سے مجرمانہ غفلت برتی گئی۔ تیل اور گیس کے نئے کنوئوں کی کھدائی میں تاخیر نہ کی جاتی اور باہر سے بڑے پیمانے پر مایع گیس کی درآمد کا انتظام کرلیا جاتا تو ملکی صنعتوں کا پہیہ رواں رکھنے میں وہ مشکلات پیش نہ آتیں جو آج نظر آرہی ہیں۔ بجلی کی پیداوار میں جو کمی واقع ہوئی ہے، اس کا بڑا سبب یہ ہے کہ توانائی کے شعبے میں برسوں سے کسی قابل ذکر سرمایہ کاری کا فقدان اور آئی پی پیز (انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز) کے واجبات وقت پر ادا نہیں ہوئے اور وہ صرف اپنی استعداد سے 30 سے 35 فیصد بجلی پیدا کررہے ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب دوسری بار حکومت میں آئیں تو توانائی کے شعبے میں قلت کے آثار نمایاں تھے۔

انھوں نے کالا باغ ڈیم کے بجائے غازی بروتھا ہائیڈل پاور پراجیکٹ تعمیر کرنے کا اعلان کیا اور اسے دنیا کا آٹھواں عجوبہ قرار دیا لیکن اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے پانچ سال درکار تھے، اس لیے انھوں نے تھرمل پاور کا راستہ اختیار کیا جس میں تین سال کے اندر بجلی گھر تیار ہوجاتے ہیں، تاہم اس کا پیداواری یونٹ ہائیڈل پاور کے مقابلے میں بہت مہنگا تھا۔ اسی زمانے میں کوٹ ادو پاور اسٹیشن جو بڑے منافع میں چل رہا تھا، اونے پونے فروخت کردیا گیا جس کی پیشہ ورانہ تنظیموں نے سخت مخالفت بھی کی اور عوامی حلقوں میں یہ تاثر بھی قائم ہوا کہ آئی پی پیز کے کیے جانے والے معاہدے واپڈا پر بہت بوجھ ثابت ہوں گے اور اس ڈیل میں بڑا کمیشن کھایا گیا ہے۔ چنانچہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بجلی کی پیداوار میں پن بجلی کا حصہ جو 70 فیصد سے زیادہ تھا اس میں کمی آتی گئی اور تھر مل بجلی کا تناسب بڑھتا گیا۔ ایک وقت تھا کہ ہائیڈل پاور 70 فیصد اور تھرمل صرف 30 فیصد تھی مگر آج تناسب یکسر تبدیل ہوگیا ہے، اب ہائیڈل صرف 34 فیصد اور تھرمل پاور 66 فیصد ہے، اسی لیے بجلی کی لاگت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا ہے۔ توانائی کے بحران کا ایک اور اہم سبب وہ گردشی قرضہ بھی ہے۔

جس کی بنیاد سابق دور میں رکھی گئی تھی جس کا حجم اب 300 ارب روپے تک جا پہنچا ہے۔ اس کی زد میں پیپکو، بجلی پیدا کرنے والے نجی ادارے، پاکستان اسٹیٹ آئل اور تیل و گیس پیدا کرنے والی کمپنیاں آتی ہیں۔ بیرونی ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی طرف سے ترسیلات میں مسلسل اضافے نے اگرچہ وقتی طور پر ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی کے تناسب کو روک رکھا ہے، مگر کب تک ؟ کیونکہ برآمدات میں مسلسل کمی ایک ایسا خطرناک چیلنج ہے جو تجارتی خسارے میں اضافے کے علاوہ قومی معیشت کو بھی بری طرح متاثر کررہا ہے اور زرمبادلہ کمانے کی صلاحیت بھی متاثر ہورہی ہے۔ پاکستان ہر قسم کے قدرتی وسائل سے مالا مال ملک ہے، کوئلے سے لے کر تانبے، سونے اور یورینیم تک کے ذخائر ہمارے ہاں بڑی مقدار میں موجود ہیں۔ ہمارے ماہرین دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ملکوں میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں، اگر ہم کرپشن کے ذریعے ضایع ہونے والے وسائل کو عوام کے حالات زندگی کو بہتر بنانے، توانائی کے وسائل میں اضافے، تعلیم، صحت، شہری سہولتوں کی فراہمی، معیشت کی ترقی اور نئی صنعتوں کے قیام وغیرہ پر استعمال کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم بہت جلد اپنی موجودہ زبوں حالی کو خوش حالی اور ترقی سے نہ بدل سکیں۔

توانائی کے بحران نے پیداواری استعداد میں کمی اور مصنوعات کی پیداواری لاگت میں اضافہ کرکے گرانی کا گراف اتنا بلند کردیا ہے کہ روپے کی قدر میں کمی سے بیرونی قرضے بڑھ رہے ہیں۔ حال ہی میں اسٹیٹ بینک نے بھی توانائی کے بحران سے پیدا ہونے والے مسائل کی نشاندہی کرتے ہوئے جامع مالیاتی اصلاحات، ٹیکس بنیاد کو وسیع کرنے اور غیر ضروری سبسڈیز میں کمی اور ان معاملات کے حوالے سے وفاق اور صوبوں میں تعاون بڑھانے پر زور دیا ہے۔ ملک میں جاری توانائی کے سنگین بحران نے عام لوگوں کے مصائب میں اس قدر اضافہ کیا ہے کہ گھروں کے چولہے جلانے سے لے کر آمدورفت تک کے مسائل سنگین تر ہوچکے ہیں۔ پبلک ٹرانسپورٹ سمیت ہر مد میں غریبوں پر بھاری بوجھ آپڑا ہے، بجلی کا شارٹ فال ساڑھے پانچ ہزار میگا واٹ تک پہنچ گیا ہے اور سی این جی کی ہفتہ واری بندش اس کے سوا ہے۔ واضح طور پر دکھائی یہ دیتا ہے کہ ہمارے حکمران اس اہم ترین مسئلے کو حل کرنے میں سنجیدہ ہی نہیں ہیں ورنہ ان وسیع و عریض خزانوں کو بروئے کار لایا جاسکتا ہے جو قدرت نے ہمیں پانی ، دھوپ، ہوا اور دیگر بیش قیمت قدرتی عناصر کی صورت میں ودیعت کیے ہوئے ہیں۔ اب وقت آگیا ہے کہ پوری دیانتداری سے ہمارے سائنسدان، ماہرین اور منصوبہ ساز عملی ذہانت کا ثبوت دیں اور پاکستان جو معاشی دلدل میں پھنستا جارہا ہے، کو مشکلات سے نکالنے کے لیے شب و روز کام کریں، حکومت بھی اب عوام کو مزید سبز باغ دکھانا بند کرے اور توانائی کے بحران کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔