شبلی مکاتیب کی روشنی میں

رفیع الزمان زبیری  جمعـء 8 ستمبر 2017

معین الدین احمد انصاری نے اپنی کتاب ’’ شبلی مکاتیب کی روشنی میں‘‘ مولانا شبلی نعمانی کی شخصیت اور خدمات کو اس طرح پیش کرنے کی کوشش کی ہے کہ یہ ان کی سوانح حیات بن جائے اور ایک طرح سے یہ خود نوشت بھی ہوکہ جو کچھ لکھا گیا ہے وہ ان کے خطوط ہی سے لیا گیا ہو۔

انصاری صاحب لکھتے ہیں ’’مولانا شبلی کے مکاتیب کی خصوصیت یہ ہے کہ ان کے خطوط میں غالب کے خطوط کی سی شگفتگی ہے۔ وہ زیادہ طویل نہیں ہوتے لیکن اس اختصار میں بھی وہ سب کچھ کہہ جاتے ہیں جو وہ کہنا چاہتے ہیں۔ ان کے خطوط میں سادہ اور موزوں عبارتیں ہیں، چوٹیں اور طنزیاتی فقرے بھی ملتے ہیں۔ اپنے کاموں کی اہمیت، مقاصد کی برتری اور اپنی عظمت کا احساس بھی ان کی تحریروں سے ظاہر ہوتا ہے۔

مولانا شبلی کے خطوط سے ان کے کردار اور سیرت کی جو خوبیاں نمایاں نظر آتی ہیں۔ ان کا ذکر کرتے ہوئے معین الدین انصاری لکھتے ہیں کہ’’ ان میں قومی اور مذہبی کام کرنے کا بڑا جوش اور ولولہ تھا۔ وہ خود بھی کام کرتے اور دوسروں کو بھی کام کرنے پر آمادہ کرتے۔ انھیں اپنی صلاحیتوں کا اندازہ تھا وہ کسی حالت میں بھی سستی شہرت کی خاطر نہیں دوڑتے تھے انھیں نام و نمود کی ہوس نہیں تھی۔ دنیاوی خواہشات سے دلچسپی تھی نہ دنیاداری سے۔ قناعت پسندی اور سادگی ان کی طبیعت میں تھی۔‘‘

معین الدین انصاری لکھتے ہیں کہ مولانا شبلی کے خطوط کے مطالعہ سے ظاہر ہوتا ہے کہ شبلی محض ایک شخصیت کا نام نہیں بلکہ مختلف تحریکوں، مختلف اسکیموں اور مختلف کاموں کا مجموعہ ہے۔ شبلی ایک بلند پایہ مورخ اور سوانح نگار تھے، شاعر بھی تھے، تنقید نگار بھی، عالم بھی اور مصلح قوم بھی۔ کتابوں کی دنیا سے ان کا گہرا تعلق تھا۔ انصاری لکھتے ہیں ’’شبلی کو کتابوں سے اور کتب خانوں سے بے حد محبت تھی۔ کتابیں ان کا اوڑھنا بچھونا تھیں۔ ان کی دلچسپی کا مشغلہ اولاد  کی جو اہمیت ہوتی ہے ان کے پاس کتابوں کی بھی کچھ  وہی اہمیت تھی۔ ایک سے تھک جاتے تو دوسرے سے دل بہلاتے۔‘‘

تاریخی کتابوں سے شبلی کو بڑی دلچسپی تھی۔ انصاری کہتے ہیں کہ ان کو تصنیفی ذوق ایسی ہی کتابوں کی وجہ سے ہوا۔ ایک رسالہ کے ایڈیٹر کے نام ایک خط میں وہ اس کا اعتراف یوں کرتے ہیں’’تصانیف کا شوق ابتداً مجھ کو ان تاریخی تصنیفات کے دیکھنے سے ہوا جو یورپ میں چھپی ہیں اور ایک موقع پر مجھ کو بہت سی یکجا ملی تھیں۔‘‘

علی گڑھ کے قیام کے زمانے میں شبلی کو سر سید کے کتب خانے میں مطالعے کا بڑا موقع ملا۔ ایک مکتوب میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’سید صاحب کے پاس تاریخ اور جغرافیہ عربی کی چند ایسی کتابیں ہیں جن کو حقیقت میں بڑے بڑے لوگ نہیں جانتے ہوںگے‘‘ شبلی نے اسلام اور تاریخ اسلام کا خاص طور پر گہری نظر سے مطالعہ کیا تھا ۔ ان کتابوں کے مطالعے کی وجہ سے ہی ان کو خود تاریخ اسلام کے موضوعات پرکچھ لکھنے کا خیال پیدا ہوا ہوگا۔ ترکی سے لکھے گئے ان کے خطوط میں کتابوں اور کتب خانوں کے تذکرے ہیں۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ’’امام غزالیؒ کی تصنیفیں یہاں  موجود ہیں اور بو علی سینا کی تو شاید کل تصنیفات مل سکتی ہیں۔ امام غزالی کے خطوط بھی موجود ہیں۔‘‘

حقیقت یہ ہے کہ مولانا شبلی کی زندگی کا بیشتر حصہ تصنیفی کاموں میں گزرا ’الفاروق ۔ الماموں اور النعمان‘‘ ان کی ایسی بلند پایہ کتابیں ہیں جن کی اہمیت ہمیشہ باقی رہے گی۔ سب سے بڑا کام تو سیرت النبیؐ کی تصنیف ہے جس کے بارے میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’یہ عمر بھر کا حاصل اور وسیلہ نجات ہے‘‘

معین الدین انصاری لکھتے ہیں ’’شبلی کو رہ رہ کر یہ بات کھٹکتی تھی کہ اردو میں سیرت پاک سے متعلق کوئی جامع اور مستند کتاب نہیں۔ دیگر اکابر نے بھی شبلی کی توجہ اس طرف منعطف کی اور شبلی کی اس ارادے میں استحکام پیدا ہوگیا اور انھوں نے اس کو عملی صورت دینے کا تہیہ کرلیا۔ 1912 کے آغاز کے ساتھ ہی سیرت النبیؐ کے کام کا بھی آغاز ہوگیا‘‘

سیرت پر کام جاری تھا کہ مختلف مسائل پیدا ہوئے اور الجھنوں نے گھیرا۔ اپنی معذوری ، بھائی کی موت، جہاں تک ہوسکا شبلی نے ان سے مقابلہ کیا اور سیرت کے کام کو مکمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن آخر زمانے میں بالکل نا امید ہوگئے۔ ایک خط میں لکھتے ہیں ’’افسوس یہ ہے کہ سیرت پوری نہ ہوسکی‘‘ 18نومبر 1914 کو وہ اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ ان کے چھوڑے ہوئے کام کو ان کے شاگرد اور رفیق کار سید سلیمان ندوی نے اس کام کو سنبھالا اور پورا کیا یہ ان ہی کا حق تھا۔

مولانا شبلی مذہبی خیالات کے حامل ایک عالم تھے۔ علمی اور قومی خدمت ان کا نصب العین تھا لیکن ان کی زندگی کا ایک اور رخ بھی تھا اس کا ذکر کرتے ہوئے۔ معین الدین انصاری لکھتے ہیں کہ اسے ہم دلچسپ، پر لطف اور رنگین کہہ سکتے ہیں۔ شبلی کی شاعری میں بھی ایک دور ایسا آیا جب ان کے دل میں محبت کے جذبات کی کار فرمائی نظر آتی ہے۔ رومانی فضا کی بو مہکتی ہے اور شوخی کی رنگینی جھلکتی ہے۔

معین الدین انصاری لکھتے ہیں ’’بہر حال یہ شبلی کی دل کی دنیا میں کسی کی آمد کا فیض تھا کہ شبلی غزلیں لکھتے رہے، ادھر غزل کو اپنے محبوب کی تعریف کا ذریعہ بنایا، ادھر مکتوب کو اظہار دل کا واسطہ۔ اگر ’’خطوط شبلی‘‘ (وہ خطوط جو بیگمات فیضی کے نام ہیں) شایع نہ ہوتے تو اس بات کا پتا ذرا مشکل سے چلتا کہ ممبئی میں قیام کے دوران شبلی کی دلچسپیوں کا مرکز کون تھا۔ عطیہ بیگم فیضی نے ان خطوط کو شایع کرنے کی اجازت دے کر ادب پر بڑا احسان کیا۔ اگر یہ منظر عام پر نہ آتے تو اصلی شبلی ہم سے پوشیدہ ہی رہتے‘‘

شبلی جب بمبئی گئے تو ان کی ملاقات دو بہنوں عطیہ بیگم اور زہرا بیگم فیضی سے ہوئی ان میں وہ عطیہ بیگم سے زیادہ متاثر تھے۔ شبلی اور عطیہ بیگم کے درمیان خلوص بڑھا تو ایک دوسرے کی قدر و منزلت میں بھی اضافہ ہوا۔ یہ قدرتی بات تھی معین الدین لکھتے ہیں ’’شبلی کی محبت بھی کچھ اسی نوعیت کی تھی وہ عطیہ میں دلچسپی لینے لگے اور دلچسپی بڑھتی گئی۔ صنف نازک کی محبتیں اور ماحول کی رنگینی نے اس کو اور ہوا دی یہاں شبلی پر دو جذبے طاری تھے، قومی جذبہ  جس کے تحت وہ عطیہ کو قوم کا ایک ممتاز فرد دیکھنے  کے متمنی تھے اور دوسرا شاعرانہ جذبہ جو خلوص کی وجہ سے بڑھتا گیا۔

معین الدین احمد انصاری لکھتے ہیں’’ بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ شبلی جیسے عالم کا دامن بمبئی کی محبتوں سے آلودہ ہے لیکن انھیں معلوم ہونا چاہیے کہ بقول مولانا عبدالکلام آزاد خوبی اس بات میں ہے کہ بھیگتا ہے تو بھیگنے دیجیے لیکن آپ کے دست و بازو میں یہ طاقت ضرور ہونی چاہیے کہ جب چاہا  اس طرح نچوڑ کر رکھ دیا کہ آلودگی کی ایک بوند بھی  باقی نہ رہے۔‘‘

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔