غربت کے مارے

ذیشان الحسن عثمانی  ہفتہ 9 ستمبر 2017
دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، شکر کرنے والے اور شکوہ کرنے والے۔ فوٹو: فائل

دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں، شکر کرنے والے اور شکوہ کرنے والے۔ فوٹو: فائل

’آج کل کاروبار بہت مندہ چل رہا ہے، کچھ فروخت نہیں ہو رہا، غربت میں غریب پِس رہا ہے، پاکستان نے ہمیں دیا ہی کیا ہے؟ باقی ملکوں کو دیکھو‘ وغیرہ وغیرہ…

ایسے جملے آئے دن سننے کو ملتے رہتے ہیں۔ کچھ بے رحم تو 14 اگست کو بھی باز نہیں آتے۔ اب سوچا ہے کہ ٹھنڈے دل سے اِس ’غربت‘ کا جائزہ لیتے ہیں جس نے ہر پاکستانی کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔

ایک صاحب کہنے لگے، کیا آپ کا معلوم ہے کہ دنیا کے 8 آدمیوں کے پاس دنیا کے 3 ارب 60 کروڑ لوگوں جتنی رقم ہے۔ یہ بات بالکل ٹھیک ہے مگر کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ آپ کا نمبر اِس فہرست میں کون سا ہے؟

اگر آپ کے پاس صرف دو لاکھ بیس ہزار روپے مالیت کی چیزیں ہیں اور نقد رقم نہیں، صرف املاک (گاڑی، گھر، سامان وغیرہ) یعنی صرف پاکستانی 220٫000 روپے ہیں تو آپ دنیا کے ٹاپ 50 فیصد میں شمار ہوں گے۔

اگر آپ نے گزشتہ سال صرف ڈیڑھ لاکھ روپے کمائے تھے یعنی ماہانہ 12٫500 تو آپ دنیا کے ٹاپ 20 فیصد میں آتے ہیں۔

اگر آپ کے پاس کھانے کو روٹی، پہننے کو کپڑے، رہنے کو چھت اور کوئی ہلکا پھلکا آمدورفت کا ذریعہ ہے تو آپ دنیا کے ٹاپ 15 فیصد میں آتے ہیں۔

اگر آپ کی جائیداد و املاک کی کُل قیمت 61 لاکھ ہے تو آپ دنیا کے ٹاپ 10 فیصد میں آتے ہیں۔ یعنی کہ اگر آپ کا اپنا چھوٹا موٹا گھر ہے، اُس میں کچھ سامان ہے اور کوئی گاڑی یا سونا بھی ہے تو آپ بہ آسانی دنیا کے 10 فیصد امیر ترین لوگوں میں سے ہوں گے۔

یا اگر آپ کی سالانہ آمدنی 25 لاکھ یا اُس سے زائد ہے تو بھی آپ دنیا کے ٹاپ 10 فیصد کمانے والوں میں سے ہوں گے یعنی صرف 2 لاکھ روپے ماہانہ سے کچھ زیادہ کما کر۔

اگر آپ کے پاس کچھ رقم پِس انداز ہے یعنی جمع کر رکھی ہے؛ کوئی شوق رکھتے ہیں جس میں آلات یا دیگر ساز و سامان درکار ہوتا ہے مثلاََ شکار، جہاز رانی یا گالف۔ اگر آپ کی الماری میں کچھ کپڑے ہیں، اگر آپ کے پاس دو گاڑیاں ہیں (بھلے کیسی بھی حالت میں ہوں)، آپ کا ذاتی گھر ہے، تو آپ دنیا کے امیر ترین 5 فیصد لوگوں میں شمار ہوں گے۔

اگر آپ سالانہ 50 لاکھ کماتے ہیں تو آپ دنیا کے 1 فیصد امیر ترین لوگوں میں سے ایک ہیں۔

یا اگر آپ کی جائیداد و اِملاک یا زمینوں کی مجموعی مالیت 5 کروڑ ہے تو بھی آپ دنیا کے 1 فیصد امیر ترین لوگوں میں سے ہیں۔

اور پاکستان میں تو عموماََ کوئی اتنا ادھار بھی نہیں ہوتا۔ امریکہ میں اوسطاََ ایک گھرانہ ایک کروڑ چالیس لاکھ کا مقروض ہے (سود اور کریڈٹ کارڈ کی بدولت)۔ ایک پاکستانی اوسطاََ 150 روپے گھنٹہ کماتا ہے۔ گھانا کا شہری صرف 2 روپے گھنٹہ۔ انڈیا میں ایک بالغ آدمی کی اوسطاََ کُل ملکیت 60 ہزار روپے جبکہ پاکستانی بالغ کی اوسطاََ ملکیت میں ایک لاکھ 25 ہزار روپے ہوتے ہیں۔

ایک ویب سائٹ ہے گلوبل رِچ لسٹ (Global Rich List) اسے جا کر ضرور دیکھیے اور موازنہ کیجیے کہ اللہ نے آپ کو کتنے لوگوں سے بہتر بنایا ہے۔

دنیا میں دو قسم کے لوگ ہوتے ہیں: شکر کرنے والے اور شکوہ کرنے والے۔ اللہ کا شکر ادا کیا کیجیے اور اُس کے دیئے ہوئے میں سے خرچ کیجیے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی

ذیشان الحسن عثمانی

ڈاکٹر ذیشان الحسن عثمانی فل برائٹ فیلو اور آئزن ہاور فیلو ہیں۔ ان کی تصانیف http://gufhtugu.com/authors/zeeshan-ul-hassan-usmani/ سے حاصل کی جاسکتی ہیں۔ وہ کمپیوٹر سائنس، مصنوعی ذہانت، ڈیٹا سائنس اور معاشرتی موضوعات پر باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔ آج کل برکلے کیلی فورنیا، امریکہ میں ایک فرم میں چیف ٹیکنالوجی آفیسر ہیں۔ آپ ان سے [email protected] پر رابطہ کر سکتے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔