ہماری نئی خارجہ پالیسی

عبدالقادر حسن  ہفتہ 9 ستمبر 2017
Abdulqhasan@hotmail.com

[email protected]

قربانیوں اور جرات و بہادری کی لازوال داستانوں کو اپنے دامن میں سمیٹے ہماری پاک فوج دشمن کی ہر چال کے خلاف ڈٹی ہوئی ہے۔ اور کوئی دن نہیں جاتا جب ہماری پاک فوج کی جانب سے ملک کی حفاظت کی کسی کارروائی کا اعادہ نہیں کیا جاتا۔ ہمارے فوجی سربراہ نے ایک بار پھر نہایت دبنگ الفاظ میں یہ بات دہرائی ہے کہ عالمی طاقتیں اپنی ناکامیوں کا ذمے دار ہمیں نہ ٹھہرائیں اور اگر عالمی طاقتیں دہشتگردی کے عفریت سے نپٹنے میں ہمارا ساتھ نہیں دے سکتیں تو الزام تراشی بھی نہ کریں کیونکہ اگر خدانخواستہ ہم ناکام ہو گئے تو یہ خطہ عدم استحکام کا شکار ہو جائے گا۔

فوجی سربراہ کی یہ دور اندیش باتیں وقتی طور پر جذبات کے دھارے میں بہتی اقوام عالم کی سمجھ میں شاید نہ آئیں لیکن ایک ایسی حقیقت انھوں نے بیان کر دی ہے جس کا مشاہدہ ہم آنے والے دنوں میں کریں گے۔ جنوبی ایشیاء کے حالات جس تیزی کے ساتھ بدل رہے ہیں نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں اور ہر روز ان کا ایک نیا پہلو سامنے آ رہا ہے۔

یہ سب جنوبی ایشیاء کے بیشتر ممالک کے لیے تو قابل قبول ہے کہ ان کا مستقبل اس سے وابستہ ہے لیکن اگر کسی کو اس پر اعتراض ہے اور قبول نہیں ہے تو وہ بھارت ہے جو کہ اپنے معاشی مفادات کو پس پشت ڈال کر پاکستان دشمنی میں اس خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنا چاہتا ہے۔ اس کی وجہ وہی پرانی ہے کہ اس کو مستحکم پاکستان کسی بھی صورت میں وارے میں نہیں۔

جنوبی ایشیاء کے حالات آج خراب نہیں ہوئے بلکہ یہ ایک ایسا قصہ ہے جس کا آغاز شاید کسی کو یاد بھی نہ ہو اور نہ ہی اس کے انجام کی کسی کو خبر ہے کہ یہ خطہ عالمی طاقتوں کے مفادات کی لڑائی کا مسلسل شکار رہا ہے اور نہ جانے کب تک رہے گا کہ بدقسمتی سے اس خطہ کا محلِ وقوع کلیدی حیثیت رکھتا ہے جو کہ عالمی طاقتوں کا میدانِ جنگ بنا ہوا ہے اور اس جنگ میں اگر افغانستان کے علاوہ کسی ملک کا سب سے زیادہ نقصان ہوا ہے تو وہ پاکستان ہے جو کہ اپنے گرد و نواح کے حالات میں انتشار کی وجہ سے پچھلی کئی دہائیوں سے دہشتگردی کے عفریت کا شکار ہے ۔

جس کی وجہ سے پاکستان کے اندرونی حالات میں وقت کے ساتھ بہتری کی جو بھی کرن نظر آتی ہے وہ حالات کا شکار ہو کر بجھ جاتی ہے۔ دراصل افغانستان کے غیر مستحکم اور غیر یقینی حالات کا براہ راست شکار پاکستان ہی بنتا ہے کہ افغانستان کو جانے والا ہر راستہ ہمارے ملک سے ہی گزرتا ہے اسی لیے بڑی آسانی کے ساتھ ہم پر یہ الزام لگا دیا جاتا ہے کہ افغانستان کے غیر مستحکم حالات میں سب سے زیادہ ہاتھ پاکستان کا ہے حالانکہ جو طاقتیں یہ الزام تراشی کرتی ہیں وہ اچھی طرح یہ بات جا نتی اور سمجھتی ہیں کہ حالات کے بگاڑ کا اصل ذمے دار کون ہے اور اس حقیقت کا ادارک بھی سب کو ہے لیکن مفادات سب کے اپنے اپنے ہیں اور اس کے لیے تختہ مشق ہمیں بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔

ہمارے ملک کے اندرونی حالات کی بات کی جائے تو یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ہماری حکومت نے اپنے دورِ اقتدار کے پہلے چار سالوں میں وزیر خارجہ کے بغیر ہی کام چلانے کی بھر پور کوشش کی ہے جس میں اسے ناکامی کا سامنا رہا اور اب ہمارے نئے وزیر اعظم نے اس اہم اور مستقل وزارت پر کل وقتی وزیر کا تقرر کیا ہے۔

دراصل پاکستان کو ایک مستقل، فعال، متحرک اور مربوط خارجہ پالیسی کی ضرورت ہے جس کے تحت ملک کے حالات کو دنیا کے سامنے رکھا جائے اور اپنا موقف بھر پور انداز میں ٹھوس شواہد کے ساتھ پیش کیا جائے تا کہ ہم پر دنیا کی بڑی طاقتوں کی جانب سے جو مسلسل لفظی گولہ باری جاری ہے اس کا کامیابی سے دفاع کیا جا سکے۔

ہم اب چونکہ چنانچہ والی باتوں کے متحمل نہیں ہو سکتے ہمیں اپنے گرد گھیرا تنگ کرتے ہوئے الزامات کا توڑ کرنا ہو گا۔ معاملات سے صرف نظر کرنے کی پالیسی سے ہم پہلے ہی بہت نقصان اٹھا چکے ہیں۔ ہمیں اب اپنے حق کے لیے توانا آواز اٹھانی ہو گی اور دنیا کو یہ باور کرانا ہو گا کہ ہم اندرونی طور پر دہشتگردی کا شکار ہیں اور اس کے سد باب کے لیے ہماری کوششیں سب کے سامنے ہیں۔

اب ہمیں اپنی کوششوں کو تسلیم کرانا ہو گا اور اس سلسلے میں دفاعی انداز اختیار کرنے کے بجائے اپنے درست موقف کو جارحانہ انداز میں دنیا کے سامنے پیش کرنا ہو گا تا کہ ان مسلسل الزامات سے ہمارے گلو خاصی ہو جائے اور ہم اپنے داخلی استحکام پر یکسوئی کے ساتھ کام کر سکیں۔

ہمارے معروضی حالات جس طرح کے ہیں ان میں ملک کی سول اور فوج کو مل کر مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دینے کی ضرورت ہے تا کہ دنیا کو یہ پیغام دیا جا سکے کہ ہم ملکی سلامتی کے لیے اپنے سیاسی مفادات کو پس پشت ڈال دیتے ہیں اور یک جان اور یک زبان ہو کر بطور پاکستانی دفاع وطن کے لیے متحد ہیں۔

ہمارے فوجی سربراہ نے بڑی وضاحت کے ساتھ یہ بات کہہ دی ہے کہ دنیا ہمیں اب ڈو مور کے لیے نہ کہے بلکہ اب وہ خود ڈو مور کرے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ ایک واضح موقف اپنایا جائے اور بدلتے حالات کے ساتھ چلا جائے نہیں تو یہ حالات ہمیں بدل دیں گے جو کہ ہمیں قابل قبول نہیں ہوں گے۔ ہمارے ساتھ افغانستان بھی ایک مسئلہ ہے اور بھارت تو ہے ہی۔ ہمیں اپنے چاروں طرف نگاہ دوڑانی ہو گی اور ہم نے یہ مشقت شروع کر دی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔