آئی جی سندھ

جاوید قاضی  ہفتہ 9 ستمبر 2017
Jvqazi@gmail.com

[email protected]

میں عزت مآب جناب جسٹس منیب اختر کی لکھی ہوئی 90 صفحات پر مشتمل ججمنٹ کی تفصیل میں تو نہیں گیا مگر اس ججمنٹ کے بہت سے پہلوؤں کو دیکھا اور اس کو کافی حد تک سمجھا ہوں۔ یہ ججمنٹ مختلف پٹیشنز کے تناظر میں دی گئی ہے، مثال کے طور پر سول سوسائٹی کے ایک گروپ نے اپنی پٹیشن میں استدعا کی تھی کہ 2002 پولیس ایکٹ کو بحال کیا جائے، اور 2011 کے پولیس ایکٹ کو کالعدم قرار دیا جائے۔

سندھ ہائی کورٹ نے اس استدعا کو نہیں مانا۔ عدالت نے اس بات کو قبول کیا کہ 2002 پولیس ایکٹ پارلیمنٹ نے بنایا تھا اور یہ تمام صوبوں پر یکساں طور پر لاگو ہوتا تھا۔ یہ قانون اس وقت بھی غیر آئینی تھا اور آج بھی۔ کیونکہ پولیس کا محکمہ اس وقت بھی صوبائی تھا اور اٹھارویں ترمیم کے بعد بھی۔

یوں تو پولیس ایکٹ 1861 بھی سب اکائیوں پر لاگو ہوتا تھا، مگر اس وقت پولیس صوبائی محکمہ تھا۔ بہرحال اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ بات واضح ہوئی اور اے ڈی خواجہ کے کیس میں سندھ ہائی کورٹ نے اس کو مزید واضح کردیا کہ پولیس نہ صرف صوبائی محکمہ ہے بلکہ اس میں قانون سازی کرنے کا اختیار بھی صوبائی اسمبلی کو ہے۔ اس طرح یہ پٹیشن برخاست ہوئی۔ لیکن ساتھ ہی اے ڈی خواجہ نے خود پٹیشن بھی دائر کی تھی، اس حوالے سے کہ Section 4 Police Act 2011 کو غیر آئینی قرار دیا گیا، یعنی کسی بھی پولیس افسر کا تبادلہ اور پوسٹنگ بغیر کسی ٹھوس وجہ کے نہیں کی جاسکتی۔

ایک پوسٹڈ پولیس افسر کے لیے ضروری ہے کہ مقررہ پوسٹنگ پر مقررہ مدت  پوری کرے۔ یہ بات سپریم کورٹ پہلے ہی مس انیتا تراب کے کیس میں واضح کرچکی ہے اور ججمنٹ عزت مآب جناب (ریٹائرڈ) جسٹس مسلم ہانی نے دی تھی۔ اور سپریم کورٹ کی اس ججمنٹ کو جناب منیب اختر نے اپنی ججمنٹ میں بحیثیت اتھارٹی ریفر کیا۔

منیب اختر کی اس ججمنٹ کے تحت نہ صرف آئی جی سندھ بحال ہوئے بلکہ ان کے تمام اختیارات جو اس عہدے سے وابستہ تھے، جو کہ چھین لیے گئے تھے وہ تمام پاورز ان کو واپس دیے گئے۔ ساتھ ہی ججمنٹ کے Obiter Dicta میں عدالت نے اس بات پر زور دیا کہ پولیس کے محکمے کو غیر سیاسی کیا جائے تاکہ وہ اپنی تمام تر توانائی عوام کے تحفظ کے لیے استعمال کرسکے۔ اس ججمنٹ کے Ratio میں پولیس کے محکمے کی اصلاحات کے لیے کمیشن بنانے کی بھی تاکید کی گئی۔ میرے خیال میں یہ ایک تاریخ ساز فیصلہ ہے۔ اے ڈی خواجہ آئیں گے اور آکر چلے جائیں گے لیکن اس حکومت سے ٹکراؤ میں وہ ایک تاریخ رقم کرگئے۔

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت سندھ نے ایسے افسر کو، جس کا ماضی اچھی کارکردگی کا ضامن ہے، کیونکر آئی جی بنایا۔ وجہ شاید یہ تھی کہ اے ڈی خواجہ سے پہلے آئی جی جمالی نے اس محکمے کی کارکردگی اور  Reputationکو خراب کیا۔ تمام تقرریاں اور تبادلے صرف ذاتی اور سیاسی مفادات پر ہوتے تھے۔ جب حالات بہت بِگڑ گئے تو نیشنل ایکشن پلان (NAP) ترتیب دیا گیا، (NAP) متحرک ہوا تو کچھ صوبائی وزیروں نے دبئی کا رخ کیا، جو ان کے Blue Eyed افسر تھے، جیسا کہ ہاؤس بلڈنگ اتھارٹی کے چئیرمین کاکا صاحب فرار ہوگئے۔ آئی جی جمالی Contempt of Court میں روزانہ ہائی کورٹ میں پیش ہوتے تھے۔

اس سارے Scenario میں بالآخر اسٹیبلشمنٹ اور سندھ حکومت کے درمیان اس رائے پر اتفاق ہوا کہ سندھ کو ایک غیر متنازعہ آئی جی دیا جائے جو کہ پولیس کے محکمے کو دہشت گردی اور لاقانونیت کے خلاف صحیح طریقے سے استعمال کرے اور پولیس کو جرائم کے خلاف متحرک کرے۔ انھی حالات کے پِس منظر میں سندھ حکومت کو کڑوی گولی کھانی پڑی اور پیپلز پارٹی کی تاریخ میں شاید پہلی مرتبہ میرٹ پر آئی جی سندھ کی تقرری ہوئی۔

یہ دیکھنا بھی ضروری ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی کارکردگی اپنے دور حکومت میں کیا ہے؟ یہ پارٹی اقتدار میں دیہی سندھ کے ووٹ پر آتی ہے۔ پورے پاکستان میں تبدیلی آئی لیکن دیہی سندھ میں کوئی تبدیلی نہ آسکی۔ لگ بھگ نصف صدی سے دیہی سندھ پاکستان پیپلز پارٹی کا ووٹر ہے۔ تقریباً بیس سال پاکستان پیپلز پارٹی نے حکومت کی ہے، لیکن ان کے ووٹرز کی حالت تبدیل نہ ہوسکی، شاید یہ کرنا بھی نہیں چاہتے۔ دیہی سندھ مختلف گروہوں اور برادری میں بٹا ہوا ہے، اس Composition کی بنیاد انگریزوں نے ڈالی تھی اور آج تک روا ہے۔ اس Composition میں ایک وڈیرہ ہوتا تھا، ایک پٹواری اور ایک تھانیدار۔

ٖغرض یہ کہ اس مخصوص علاقے کے سرکاری افسر کا تبادلہ یا تقرری، اس علاقے کے Defacto Political Agents کی مرضی کے بغیر عمل میں نہیں آسکتی۔ یعنی کہ Locus of Power وڈیرہ اور وڈیرے کی اوطاق ہوتی ہے۔ جب تک اس ملک پر آمریت کا سایہ تھا اسی طرح کے Defacto Political Agents مختلف   Power Housesمیں بٹے ہوئے تھے اور اب یہ تمام Agent پاکستان پیپلز پارٹی کی چھتری کے نیچے آگئے ہیں۔

مقامی سطح پر اِن تمام Agent کی اپنی اپنی ضروریات ہیں جو پاکستان پیپلز پارٹی پوری کرتی ہے، مثلاً اپنے علاقے میں اپنی مرضی سے سرکاری افسروں کے تبادلے اور تقرریاں، تاکہ اس علاقے کے تمام سرکاری کام، افسر اپنی حکومت کی Guidance سے نہیں بلکہ Defacto Political Agents کی مرضی اور منشا سے کریں۔

اے ڈی خواجہ پٹارو میں میرے کلاس میٹ تھے، بہت عرصہ بیت چکا میری ان سے ملاقات نہیں ہوسکی، مگر اتنا ضرور ہے کہ ہم ایک دوسرے کے حالات سے واقفیت رکھتے ہیں۔ صاحب جب پہلی مرتبہ ایس پی بنے تھے، تو وہ عام ہاری کے روپ میں، مٹی زدہ کپڑے پہن کر مختلف جگہوں پر تعینات پولیس افسران کی کارکردگی کی خبر لیتے تھے اور یوں اسی موقع پر بہت سارے سپاہیوں کو نوکری سے فارغ بھی کیا اور ان کے خلاف انکوائری کا حکم بھی دیا۔

اے ڈی خواجہ ان Defacto Political Agents کی کسی بھی سفارش کو خاطر میں نہیں لاتے تھے۔ عام لوگ ان سے براہ راست رابطے میں آتے تھے۔ ان Defacto Political Agents کی اپنی کرائم مشین ہوتی ہے جو کہ ان کی چھت کے نیچے پھلتی پھولتی ہے، اور یہ کرائم مشین وہ اپنے مخالف کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔

مختصر یہ کہ اے ڈی خواجہ جہاں بھی گئے ان Defacto Political Agents نے ان کے خلاف محاذ کھڑے کردیے۔ کیونکہ اے ڈی خواجہ کا وجود ان کی حکومت کے لیے خطرہ تھا۔ اسی وجہ سے اے ڈی خواجہ اپنی پوسٹنگ پر کبھی مقررہ مدت پوری نہ کرسکے۔

صدیوں سے یہ ان افسران کے تعلقات Defacto Political Agents کے ساتھ رہے ہیں اور 90 فیصد اگر کہا جائے کہ پولیس کے محکمے میں کرپشن کی بنیاد یہی تعلقات ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ اے ڈی خواجہ کی بحالی نے نہ صرف سندھ حکومت بلکہ پولیس کے محکمے کے اندر بھی کھلبلی مچادی ہے۔ آج اس فیصلے سے سندھ میں حکومت کرنے کے روایتی طور طریقے ٹوٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ اس فیصلے کا اہم اور بنیادی نقطہ یہ ہے کہ پولیس کے اندر Reforms کے لیے کمیشن بنایا جائے اور میں یہ سمجھتا ہوں کہ پولیس کے اندر Reforms لانے کا اہم طریقہ یہی ہے کہ پولیس کو ان Defacto Political Agents سے نجات دلائی جائے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔