- صرف غیر ملکی کوچز ہی کیوں! پاکستان میں بھی قابل لوگ موجود ہیں، شاہد آفریدی
- دہشت گرد نماز کی پہلی صف میں موجود تھا، خواجہ آصف
- بنی گالہ سے قتل کے ملزم کو لے جانے والی جھنگ پولیس پر فائرنگ، اہلکار شہید
- بابراعظم میرے بیٹے جیسا ہے اُس سے کبھی ناراض نہیں ہوا، وسیم اکرم
- پاکستان کیخلاف جنگ کرنیوالوں کو صفحہ ہستی سے مٹا دینگے، وزیراعظم
- امریکا کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ؛ صدر اور اپوزیشن سر جوڑ کر بیٹھنے کو تیار
- صوابی میں سی ٹی ڈی آپریشن، خودکش حملہ آوروں نے خود کو دھماکے سے اُڑالیا
- جنوبی افریقا میں سالگرہ کی تقریب پر فائرنگ؛ 8 افراد ہلاک
- فواد چوہدری کہاں ہیں کچھ پتا نہیں، حبا چوہدری
- پشاور پولیس لائنز کی مسجد میں خودکش دھماکا، اہلکاروں سمیت 28 افراد شہید
- پی ایس ایل کے نمائشی میچ کیلیے ٹکٹ کی قیمت صرف 20روپے
- قتل کی سازش کا الزام؛ آصف زرداری کا عمران خان کو 10 ارب ہرجانے کا نوٹس
- پختونخوا الیکشن کی تاریخ نہ دینے کیخلاف پی ٹی آئی کا عدالت جانے کا فیصلہ
- حب میں مسافر بس حادثے کا مقدمہ مالکان کیخلاف درج
- پاکستانی باکسر نے دبئی میں پروفیشنل باکسنگ فائٹ جیت لی
- مار گئی ہمیں یہ مہنگائی!
- مارشل آرٹس میں عالمی ریکارڈ ہولڈر راشد نسیم اطالوی ٹی وی شو میں مدعو
- مہنگائی کیخلاف عوام بیدار ہوں، احتجاج کے بغیر مسائل کم نہیں ہونگے، حافظ نعیم
- امارات کے صدر کا اسلام آباد کا دورہ ملتوی
- حکومت سے فواد چوہدری کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات طلب
نیب کامختلف مقدمات میں سپریم کورٹ کی ہدایات پراعتراض
فوٹو: فائل
اسلام آ باد: قانون کے مطابق نیب کے کام میں نہ تومداخلت کی جاسکتی ہے اور نہ ہی نیب کی نگرانی کی جاسکتی ہے۔
سپریم کورٹ ٹرائل کورٹ نہیں ایک آئینی عدالت ہے جس کا کام مقدمات اور قوانین کا عدالتی جائزہ لینا ہے، اگرسپریم کورٹ سے براہ راست مقدمات نیب ،ایف آئی اے اور دیگر تفتیشی اداروںکو بھیجنے کا عمل جاری رہا تو آئندہ لوگ دادرسی کیلیے براہ راست عدالت عظمٰی آئیں گے جس سے غلط روایت قائم ہوگی ۔یہ بات پراسیکیوٹر جنرل نیب کے کے آغا نے عدنان خواجہ کی غیر قانونی تقرری اور احمد ریاض شیخ کی ترقی کے بارے میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران کہی۔جسٹس انور ظہیر جمالی اور جسٹس اعجاز افضل پر مشتمل ڈویژن بینچ نے پراسیکیوٹر جنرل کی درخواست پر کیس کی مزید سماعت اگلے ہفتے تک ملتوی کر دی اور انہیں مقدمے کے مندرجات پر دلائل دینے کی ہدایت کی ہے۔
جسٹس انور ظہیر جمالی نے ریمارکس دیے عدالت ناانصافیوں پر آنکھیں بند نہیں رکھ سکتی،ملک میں جمہوریت کے باوجود ہم ایک غیر معمولی صورتحال میں رہتے ہیں جس میں عدالت آئینی دائرہ اختیارکے استعمال کا سہارا لے سکتی ہے۔کے کے آغا نے مختلف مقدمات میں نیب کی انکوائریوں اور تفتیش کے عمل پر سپریم کورٹ کی طرف سے جاری ہدایات پراعتراض کیا اورکہا کہ وہ چیئرمین نیب کے اختیار پر بات کرنا چاہتے ہیں ،نیب خود مختار ادارہ ہے اورکسی معاملے کی انکوائری وتفتیش کرنے اور ریفرنس دائرکرنے یا نہ کرنے کا اختیار چیئرمین کے پاس ہے۔
نیب کی رائے میں سپریم کورٹ انکوائری کے عمل میں نہ تو مداخلت کرسکتی ہے اور نہ ہی نگرانی کر سکتی ہے،نیب قانون کسی کو مداخلت یا نگرانی کی اجازت نہیں دیتا،آر پی پی،اسٹیل مل،ایساف کنٹینرز اور اوگرا کا معاملہ نیب پر چھوڑ دیا جائے ،اگر سپریم کورٹ ہر معاملے میں براہ راست مداخلت کرے گی تو عدالت کے جائزہ لینے کا اختیار متاثر ہوگا۔جسٹس جمالی نے کہا اگر چیئرمین نیب کسی کیس کو تفتیش کے مرحلے سے آگے نہ جانے دیں تو معاملہ تو ختم ہوگیا پھر اس فیصلے کا کیسے جائزہ لیا جا سکتا ہے۔جسٹس اعجاز افضل نے کہا اگر پراسیکیوٹر جنرل عدالت کو دائرہ اختیار پر مطمئن کر لیتے ہیں تو ہم اپنا ہاتھ اٹھا لیںگے لیکن اگر عدالت کے حکم پر عمل کرنا آئینی پابندی ہے تو پھر عمل ہونا چاہیے۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔