برگد بنجارہ/ بنجارا اور بنیا

سہیل احمد صدیقی  اتوار 10 ستمبر 2017
ہوسکتا ہے کہ پیپل اور برگد کے ہم رشتہ ہونے کے سبب، برگد کو بودھ کا درخت کہا گیا ہو جو بعدازآں تبدیل ہوکر ’’بوڑ‘‘ ہوگیا ہو۔ فوٹو: فائل

ہوسکتا ہے کہ پیپل اور برگد کے ہم رشتہ ہونے کے سبب، برگد کو بودھ کا درخت کہا گیا ہو جو بعدازآں تبدیل ہوکر ’’بوڑ‘‘ ہوگیا ہو۔ فوٹو: فائل

کبھی آپ نے سوچا کہ کراچی میں تیزی سے کم ہوتے ہوئے درختوں میں سب سے قیمتی کون سا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کو میرا سوال ہی عجیب لگے۔

گذشتہ کالم میں نِیم کا تذکرہ دیکھنے کے بعد اور اس کالم کا عنوان دیکھ کر ہوسکتا ہے کہ آپ سوچ رہے ہوں کہ یہ شعروادب اور صحافت کی راہ کا مسافر آخر پٹڑی بدل کر پودوں اور درختوں کی بات کیوں کرنے لگا ہے۔

(پٹری غلط ہے)۔ پڑھے لکھوں کی تو کیا بات کریں، اہل قلم میں بھی ایسے لو گ مل جاتے ہیں جو فطرت پسندی اور فطرت نگاری کو عجیب نظروں سے دیکھتے ہیں۔ وہ کچھ اس طرح سوچتے ہیں کہ فطرت کے موضوعات پر کچھ کہنا گویا وقت کا ضیاع ہے اور یہ شاید ادب کے دائرے سے باہر کوئی چیز ہے۔

اس قسم کی خیال آرائی (یا گستاخی معاف، کھُلے لفظوں میں، بکواس) فرمانے والے یہ بنیادی نکتہ فراموش کردیتے ہیں کہ ہرذی شعور کو فطرتاً، فطرت پسند ہونا چاہیے اور قدرت کی صناعی کا اعتراف اور اس کے متعلق نظم ونثر میں اظہار کرنا بھی عین فطرت ہے۔ جو فطرت سے پیار نہیں کرتا، وہ کسی وحشی درندے سے بھی گیا گزرا ہے۔ تو میں کہہ رہا تھا کہ کراچی میں سب سے کم یاب اور قیمتی درخت کا نام بتائیں۔ ہوسکتا ہے کہ اس ضمن میں آم، جامن اور پپیتے سے لے کر کیلے تک کوئی بھی نام لیا جائے۔ راقم کوئی ماہرنباتات تو کُجا، اس مضمون کا اچھا طالب علم بھی نہیں، مگر بقول جگرؔ مرادآبادی

گلشن پرست ہوں مجھے گل ہی نہیں عزیز
کانٹوں سے بھی نِباہ کیے جارہا ہوں مَیں

میری دانست میں اس شہر ِ خرابی میں شجرکاری سے زیادہ شجرکُشی [‘Tree-killing’] یا استیصالِ شجر ہوتا ہے۔ (استیصال یعنی جڑ سے اکھاڑ پھینکنا، تباہ کرنا۔ انگریزی میں کہتے ہیں: To uproot ۔ ہمارے اہل قلم کی اکثریت اس کی جگہ استحصال یعنی حاصل کرنا، استعمال کررہی ہے جو سراسر غلط ہے اور جس کی وضاحت اس خاکسار کی تحریروں میں پہلے بھی ہوچکی ہے)۔ یہ المیہ بھی ہمارے دہشت گرد سیاسی کلچر کی دین ہے کہ فقط مرکزی شاہراہوں پر اپنے اپنے لوگوں کو نوازنے کے لیے کسی ماہرماحولیات سے مشورہ کیے بغیر کسی بھی قسم کے درخت لگادیے جائیں اور پھر کچھ عرصے کے بعد، اُسی گروہ یا اُن کے بعد برسراقتدار آنے والے گروہ کی جانب سے وہ درخت اکھاڑ کر کوئی اور درخت لگادیے جاتے ہیں۔

اس پورے کھیل میں اہم نکتہ ہے، کثرتِ مال حرام سے، اپنی اور اپنے اپنوں کی جیبیں بھرنا۔ کراچی جن اہم پودوں اور درختوں سے خالی ہوتا جارہا ہے، ان میں خاکسار کے نزدیک، سب سے اہم، قیمتی اور کم یاب ہے ، برگد[Banyan,also Banian]۔ وہ درخت جسے ’شجرِحیات‘ [Tree of Life]اور ’اَمَر‘ (کبھی نامرنے والا، نا مرجھانے والا) [Never dying, Undying or immortal]کہا جاتا ہے اور جو ہندو مذہب میں سب سے مقدس ہے، جسے بھارت کا قومی درخت مانا جاتا ہے۔ برگد کو اردو اور ہندی میں ’’بَڑ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ ہندی میں اسے ’برگت‘ اور ’بٹ‘ بھی کہتے ہیں جو سنسکرت لفظ ’وَٹ‘ کی بدلی ہوئی شکل ہے۔ پنجاب کی مختلف زبانوں میں اسے بڑ، بوڑ اور بوہڑ کہا جاتا ہے۔

اس کا نباتی نام[Botanical name]ہے: Ficus benghalensis۔ اسی خاندان کے دیگر مشہور درختوں میں گُولر[Ficus benghalensis-Indian fig or Cluster fig]، انجیر[Fig]اور پیپل[Ficus religiosa or sacred fig] شامل ہیں۔ یہ لفظ بوڑ کیسے بنا، اس کی بابت تحقیق نہیں ہوئی، مگر لسانی تحقیق کے ایک طالب علم ہونے کے ناتے، یہ خاکسار ایک قیاس کرسکتا ہے۔ سنسکرت لفظ ’بودھ‘ کا مطلب ہے عقل ودانش اور یہی نام تھا اپنے وقت کے بڑے عابدوزاہد مہاتما سدھارتھ عُرف گوتم بودھ/بدھ کا جو بدھ مَت کی روایات کے مطابق پیپل کے پیڑ کے نیچے دھیان گیان میں محو تھے تو انھیں ’نِروان‘ یعنی عرفان حاصل ہوا۔

ہوسکتا ہے کہ پیپل اور برگد کے ہم رشتہ ہونے کے سبب، برگد کو بودھ کا درخت کہا گیا ہو جو بعدازآں تبدیل ہوکر ’’بوڑ‘‘ ہوگیا ہو۔ (روحانیت سے منسلک، میرے دوست حمودشاہ نے کچھ سال قبل یہ انکشاف کیا کہ گوتم بدھ، توحید پرست تھے اور انھوں نے بنی اسرائیل کے مومنین کی صحبت میں رہ کر اللہ تعالیٰ کا اسم ’اَلبُدّوح‘ BUD’DUH/ سیکھا اور اس کے عامل ہوئے۔

کثرت ِاستعمال سے یہ لفظ بگڑ کر بودھ/بدھ ہوگیا۔ بعض علماء نے قیاس کیا کہ وہ شاید بنی اسرائیل کے پیغمبر حضرت حِزقیل علیہ السلام یا حضرت ذوالکفل علیہ السلام ہی تھے، مگر یہ قیاس بالتحقیق اسی طر ح غلط ثابت ہوچکا ہے جیسے اِن دو مقدس نبیوں کا ایک ہی شخص ہونا)۔ الہ آباد، اترپردیش (ہندوستان) کے قدیم اکبری قلعے کے پٹل پوری مندِر میں واقع ایک برگد کی قدامت کے متعلق یہ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ اس کے سائے میں رام، لکشمن اور سِیتا نے آرام کیا تھا ، اسی لیے اس کی پرستش کی جاتی ہے۔ یہ بات ہندوؤں کی قدیم مذہبی کتب میں شامل ایک پران میں منقول ہے۔ اسے ’اکشے وٹ‘۔ یا۔ ’پریاگ وٹ‘ کہا جاتا ہے۔ برگد کے لیے ’وٹ‘ یا ’بٹ‘ کا لفظ دیگر ہندوستانی زبانوں (مثلاً بنگلہ) میں بھی مستعمل ہے۔

یہ جگہ تین مشہور دریاؤں گنگا، جمنا اور سَرَسوَتی کے سنگم پر واقع ہے۔ اس جگہ کو اصطلاح میں ’تِربِینی‘ یا سنسکرت تلفظ میں ’تِروِینی‘ Tirbini] [Tirvini/کہا جاتا ہے۔ نامور ہندی، اردو شاعر گلزار نے اسی نام سے ایک سہ مصرعی صنف سخن ایجاد کی جسے پاکستان میں سب سے پہلے ممتاز شاعر یاوراَمان اور ہماری معاصر شاعرہ فوقیہ مشتاق نے اپنایا اور خوب فروغ دیا۔ (یاورامان نے دنیا چھوڑ دی تو دوسری طرف فوقیہ مشتاق نے ملک چھوڑکر امریکا میں سکونت اختیار کرلی۔ بات کی بات ہے کہ ہندی اور بنگلہ سے بخوبی واقف یاورامان نے اپنی اَخیر عمر میں شیخ مجیب الرحمن کی خودنوشت سوانح عمری کا بنگلہ سے اردو میں رواں ترجمہ کیا تھا جو شایع ہوچکا ہے)۔ اس مقدس برگد کی زیارت، بارہ سال میں فقط ایک بار، کنبھ کے میلے کے موقع پر کرائی جاتی ہے۔ یہ میلہ آخری بار سن دو ہزار تیرہ میں منعقد ہوا تھا اور اَب آیندہ دوہزار پچیس میں منعقد ہوگا۔ یہ عظیم درخت ایک وسیع وعریض علاقے پر محیط ہے اور اس میں لاکھوں پرندوں کا آشیانہ ہے۔

دنیا کاسب سے بڑا برگد، کلکتہ (ہندوستان) کے نزدیک ہَوڑہ کے اچاری جگ دیش چندربوس انڈین بوٹانک گارڈن میں موجود ہے جسے اس کی شاخوں اور3772 ڈاڑھیوں [Aerial roots]کے پھیلاؤ کے سبب ایک پورے جنگل کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ (ان ڈاڑھیوں کو جَٹائیں بھی کہا جاتا ہے)۔ برگد کی ڈاڑھیوں سے مراد اُس کے وہ ریشے ہیں جو شاخوں سے لٹک کر زمین تک پہنچتے ہیں: نوراللغات از مولوی نور الحسن نیّرؔ جلد اول۔ سینہ گزٹ کے مطابق یہ درخت ڈھائی سو برس پرانا ہے۔ سن اٹھارہ سو چونسٹھ اور اٹھارہ سو سڑسٹھ میں دومرتبہ خوف ناک آندھی آنے سے اس درخت کو بہت نقصان پہنچا اور بالآخر سن انیس سوپچیس میں اس کا تنا کاٹ کر الگ کردیا گیا ، مگر اس کے باوجود، اس نے اٹھارہ ہزار نوسو اٹھارہ مربع میٹر [18,918 square metres]  جگہ گھیری ہوئی ہے۔ اس کے اوپری حصے [Crown]کا موجودہ گھیر چارسو چھیاسی میٹر[486 m] ہے، جب کہ اس کی سب سے اونچی شاخ کی بلندی ساڑھے چوبیس میٹر ] [24.5 m ہے۔ [https://en.wikipedia.org/wiki /The_Great_Banyan]۔

برگد کے پھل، ’بڑولی‘ (جمع بڑولیاں) کہلاتے ہیں۔ ان پھلوں، پتوں، کونپلوں، ڈاڑھی اور چھال کے طبی فوائد بے شمار ہیں۔ آنکھوں کی سوجن، بالوں کے مسائل، ناک کی نکسیر، جلن، کانوں کا درد، ذیابیطس، سرطان، الٹی متلی، دانتوں کا درد، چہرے کی چھائیاں اور دیگر شکایات اور بیماریوں میں اس کا مختلف طرح سے استعمال فائدہ مند ہے۔ برگد بہ یک وقت مردانہ اور زنانہ امراض خصوصاً بانجھ پن کے علاج کے لیے مفید ہے۔ گاؤں دیہات کے بزرگوں کا خیال ہے کہ جس جگہ برگد ہو، وہاں کے مرد کبھی نامرد نہیں ہوتے اور وہاں کوئی جوڑا بے اولاد نہیں رہتا۔ گذشتہ سال راقم نے معروف سندھی ادیب اور براڈکاسٹر محترم زیب سندھی کی منفرد (سندھی) کتاب ’’جپسیGypsy (also Gipsy)  ۔ یورپ جا سندھی خانہ بدوش‘‘ کے متعلق انگریزی میں ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا:

Zaib Sindhi highlights the Sindhi origin of Gypsies

[https://www.liverostrum.com/zaib- sindhi-highlights-the-sindhi -origin-of-gypsies/1020325.html]

اس اہم موضوع پر لکھی گئی کتاب میں زیب سندھی سمیت متعدد فاضل شخصیات کے پچیس مضامین (بالتحقیق) شامل ہیں۔ اثنائے مطالعہ و مزید تحقیق جو انکشافات ہوئے ان کے مطابق یہ خانہ بدوش قوم (ایک روایت کے مطابق) دراصل وَنڑجارا/وَن جارہ یا بنجارہ ہے۔ یہ برگد کے سائے تلے جمع ہوکر اپنا اپنا مال (خصوصاً تبادلے کی بنیاد پر) بیچنے والے تاجر تھے جو سندھ سے نکل کر ایشیا کے مختلف حصوں، چین، ازبکستان اور عراق تک جایا کرتے تھے۔ ویسے ان کے متعلق یہ روایت بھی کافی قوی ہے کہ ان کی اکثریت بہ لحاظ پیشہ لوہار تھی اور شوقیہ گانے گایا کرتی تھی۔ سندھی زبان میں لفظ ’ونڑ‘ کا مطلب ہے، درخت، جب کہ اردو میں لفظ بنجارَہ (یا بنجارا) کے متعلق یہ وضاحت لغات میں ملتی ہے کہ اس کا مادّہ ’بَنَج‘ یعنی تجارت، بیوپار اور تبادلہ اشیاء ہے۔ یہ لفظ ہندی اردو لغت از راجہ راجیسورراؤ اصغرؔ، مطبوعہ انجمن ترقی اردو کے مطابق، بَنَج Banajاور بَنِجBanij دونوں طرح درست ہے۔

اس کا مآخذ سنسکرت کا ’وَنِج‘ ہے۔ اسی لغت کی رُو سے بنجارہ کی تعریف یہ ہے: ایک فرقے (یعنی گروہ) کا نام جو اکثر اَناج بیلوں پر لاد کر ایک مقام سے دوسرے مقام پرلے جایا کرتا ہے۔ برگد کے سائے تلے’بَنَج‘یعنی تجارتی معاملات طے کرنے والے لوگ ’بَنیا‘ (نیز سنسکرت تلفظ میں ’وَنیا‘) کہلائے اور اسی بنیاد پر انگریزی لفظ بین یَن [Banyan] معرض وجود میں آیا۔ یہ الگ بات کہ یہ بنئے سود کی بنیاد پر کاروبار کے لیے بدنام ہوئے۔ انھیں مہاجن بھی کہا جاتا ہے۔ ان کی برادری ہندوستان میں ایک پورا فرقہ سمجھی جاتی ہے، مگر خطہ بنگال میں یہ لفظ نسبتاً وسیع معانی میں مستعمل ہے۔ بنیا برادری کی شاخوں میں اگروال، دسوڑا، دِیشاوَل، کپول، ناگوری اور ناگر وغیرہ شامل ہیں۔ [https://joshuaproject.net/people _groups/16318/PK]۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ گجراتی زبان میں بنیا کے معنی ہیں، تاجر، دکان دار۔ نامور انگریز ماہرلسانیات S.W.Fallonکی لغتِ ہندوستانی۔ انگریزی[Hindustani-English Law and Commercial Dictionary]مطبوعہ 1879ء میں اس لفظ کے معانی اس طرح بیان کیے گئے ہیں:

A grain-seller, corn-chanler; a vendor of provisions

(راقم کے پاس موجود نسخہ 1980ء کا مطبوعہ ہے)۔ (اس ساری تفصیل سے قطع نظر، ایک امریکی خاتون نے خاکسار کا انگریزی مضمون پڑھ کر زیب سندھی سے رابطہ کیا اور بتایا کہ سہیل کے مضمون سے قبل، میں یہ سمجھتی تھی کہ ہم جپسیوں کی جڑ، ہندوستان میں ہے، اب پتا چلا کہ یہ تو سندھ سے نکلنے والی قوم ہے، لہٰذا میں سندھ کا دورہ کرنا چاہتی ہوں۔ زیب سندھی نے اس حوالے سے سندھی اخبار روزنامہ کاوش کی اشاعت بابت مؤرخہ چار جولائی دو ہزار سترہ میں ایک کالم سپرد قلم کیا)۔

کہا جاتا ہے کہ بنیا برادری کا قیام کوئی پانچ ہزارسال قبل اُس وقت عمل میں آیا جب اُن کے جد امجد اگَرسین یا اُگرسین نے جو اگر وہاں (موجودہ ہریانہ) کا مہاراجہ تھا، ہندوؤں کی تیسری ذات ’ویش‘ کو اٹھارہ قبائل میں تقسیم کردیا جن میں اگر وال، گُپتا، لالہ، سیٹھ، ویش، مہاجن، ساہو اور ساہوکار شامل تھے۔ [http://www.peoplegroupsindia. com/profiles/bania/]  پندرہویں صدی میں ہندوستان کی سرزمین پر قدم رکھنے والی پرتگیز قوم نے یہ لفظ پہلے پہل ہندو تاجروں کے لیے استعمال کیا، بعدازآں سولھویں صدی کے لگ بھگ انگریزی میں یہ لفظ دَر آیا اور برگد کو ہی بنیا سے موسوم کردیا گیا۔ بنیوں کے اپنے مقروض لوگوں پر مظالم کا ذکر جابجا پڑھنے، سننے اور دیکھنے میں آیا ہے۔ بچپن میں خاکسار نے اپنی والدہ مرحومہ سے یہ ’پہاڑا‘ سنا تھا جو کسی دل جلے نے ہندو بنیے کے متعلق گھڑ کر عام کیا تھا۔ آسان الفاظ میں، اس قدر بھرپور طنزداد طلب ہے، ملاحظہ فرمائیں:

بنیا اِکم بنیا

بنیا دُونی دال

بنیا تِیا تیل

بنیا چوکے چاول

بنیا پنجے پان

بنیا چھِک چھالیہ

بنیا سَتے سَتو

بنیا اَٹھے آٹا

بنیا نِم نمک

بنیادھائیں دھنیہ

(کالم زباں فہمی28 از سہیل احمد صدیقی، مطبوعہ روزنامہ ایکسپریس مؤرخہ گیارہ مارچ سن دوہزارسولہ)۔ اردو شاعری میں برگد کا استعمال بذاتہ اسی پیڑ کے لیے اور بطور علامت ہوتا رہا ہے۔ اردو نظم کے سَرخَیل نظیرؔ اکبر آبادی نے کہا تھا:

ہیں دشت بیاباں اور وادی ، عرصہ ، میداں ، صحرا ، جنگل

ویرانہ ، پربت، جھاڑ، شجر، بوٹی ، جھاڑی، پیڑ اور جَبَل

پیلو یا کھر، نرما، سنبھل، کچنال ، سنبھالو، بَڑ، پیپل

کیا اَبر ہَوا کیا برق گھٹا، کیا دَل، بادل ، کیا جَل اور تھَل

کُل عالَم تیری یاد کرے تو صاحِب سب کا سچّا ہے

(حمد موسوم بہ الہٰی نامہ۔ ریڈیو پاکستان سے مہدی حسن اور ہم نَوا کی آواز میں ایک طویل عرصے تک پیش کی گئی)۔ اردو کے نامور سخنور دیا شنکر نسیم دہلوی نے اپنی مشہور مثنوی ’’ گلزار ِنسیم ‘‘ میں شعر رقم کیا:

برگد کی جٹائیں بال اُس کے+زنبورِ سیاہ ، خال اُس کے (منقول در نور اللغات از مولوی نور الحسن نیّرؔ جلد اول)

جدیدشعراء میں ہندوستان کے ممتاز نغمہ نگار جاوید اختر اور نظم گو شاعرمنیب الرحمن نے برگد کے عنوان سے نظمیں کہی ہیں۔ مصدق سانول (ملتان) کا شعر ہے: پچھلی رات کے سناٹے میں بوڑھا برگد بولے گا

اتنی رات گئے لوٹے ہو، کون بھلا دَر کھولے گا

ہمارے بزرگ معاصر محترم زاہدحسین نے برگد کا نام لیے بغیر ایسا کلام نظم کیا ہے:

جس کی گھنی چھتنار تلے سایہ گھنا تھا + اس دور نے وہ بوڑھا شجر کاٹ دیا ہے

خاکسار سہیل نے بھی اپنی دو ہائیکو میں لفظ ’برگد‘ استعمال کیا ہے:

سورج سرپر ہے

برگد پر ہے جنّ آباد

سایہ گھر پر ہے

٭٭

برگد کہتا ہے

ایک گیانی برسوں سے

مجھ میں رہتا ہے

ویسے فلمی شاعری کی بات کی جائے تو ساحرؔ لدھیانوی کا کلام ، بستی بستی، پربت پربت گاتا جائے بنجارہ…..لے کر دل کا اِکتارہ…..نامور گلوکار محمد رفیع کی سُریلی آواز میں بہت زیادہ مشہور اور مقبول ہوا۔ فلم ’ریلوے پلیٹ فارم‘ کے لیے اس کی دھن بنائی تھی مَدَن موہن نے اور یہ فلم 1955ء میں نمائش کے لیے پیش ہوئی تھی۔

ایک اور ہندوستانی فلم کا گانا لتا منگیشکر اور کشورکمار کی آوازوں میں بہت مشہور ہوا تھا: ہم بنجاروں کی بات مَت پوچھو جی، جو پیار کیا تو پیار کیا…..جو نفرت کی تو نفرت کی۔ (شاعر: آنندبخشی، مُوسیقار: لکشمی کانت، پیارے لال فلم دھرم وِیر: 1977ء)۔ بنجارہ یا بنجارن نام کی فلمیں بھی خوب بنیں۔ ہندوستان کی طرح پاکستان میں بھی بنجاروں کے متعلق فلم اور گانے تیار ہوئے اور ٹیلی وژن ڈراموں میں بھی اس کی عکاسی کی گئی۔ اس وقت محض اتفاق ہے کہ ایسی کوئی مثال یاد نہیں۔ اردو کے نثری ادب میں عموماً برگد کی علامت بزرگی، شفقت اور دانش کے لیے استعمال ہوتی رہی ہے۔ اس کے علاوہ کسی ایسی شخصیت کو بھی برگد کہا جاتا ہے جو بہت خاموش اور سنجیدہ ہو یعنی بہ الفاظ دیگر، کسی خُفتہ آتش فشاں کی طرح خطرناک ہو۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔