- پشاور؛ بس سے 2 ہزار کلو سے زیادہ مضر صحت گوشت و دیگر اشیا برآمد
- وزیراعلیٰ پنجاب نے نوازشریف کسان کارڈ کی منظوری دے دی
- چائلڈ میرج اور تعلیم کا حق
- بلوچستان؛ ایف آئی اے کا کریک ڈاؤن، بڑی تعداد میں جعلی ادویات برآمد
- قومی ٹیم کی کپتانی! حتمی فیصلہ آج متوقع
- پی ایس 80 دادو کے ضمنی انتخاب میں پی پی امیدوار بلامقابلہ کامیاب
- کپتان کی تبدیلی کیلئے چیئرمین پی سی بی کی زیر صدارت اہم اجلاس
- پاکستان کو کم از کم 3 سال کا نیا آئی ایم ایف پروگرام درکار ہے، وزیر خزانہ
- پاک آئرلینڈ ٹی20 سیریز؛ شیڈول کا اعلان ہوگیا
- برج خلیفہ کے رہائشیوں کیلیے سحر و افطار کے 3 مختلف اوقات
- روس کا جنگی طیارہ سمندر میں گر کر تباہ
- ہفتے میں دو بار ورزش بے خوابی کے خطرات کم کرسکتی ہے، تحقیق
- آسٹریلیا کے انوکھے دوستوں کی جوڑی ٹوٹ گئی
- ملکی وے کہکشاں کے درمیان موجود بلیک ہول کی نئی تصویر جاری
- کپتان کی تبدیلی کے آثار مزید نمایاں ہونے لگے
- قیادت میں ممکنہ تبدیلی؛ بورڈ نے شاہین کو تاحال اعتماد میں نہیں لیا
- ایچ بی ایف سی کا چیلنجنگ معاشی ماحول میں ریکارڈ مالیاتی نتائج کا حصول
- اسپیشل عید ٹرینوں کے کرایوں میں کمی پر غور کر رہے ہیں، سی ای او ریلوے
- سول ایوی ایشن اتھارٹی سے 13ارب ٹیکس واجبات کی ریکوری
- سندھ میں 15 جیلوں کی مرمت کیلیے ایک ارب 30 کروڑ روپے کی منظوری
زیادہ ہلاکت خیز طوفانوں کو عورتوں والے نام کیوں دیئے جاتے ہیں؟
کراچی: اس وقت جبکہ طوفان ’’اِرما‘‘ امریکی ریاست فلوریڈا میں تباہی مچانے کے بعد اختتام پذیر ہوچکا ہے، یہ سوال ایک بار پھر کیا جارہا ہے کہ آخر زیادہ بھیانک، زیادہ شدید، زیادہ نقصان دہ اور زیادہ ہلاکت خیز طوفانوں کو عورتوں والے نام کیوں دیئے جاتے ہیں؟
ان کے مقابلے میں وہ طوفان جو کم تر شدت اور ممکنہ طور پر کم تر تباہی کی وجہ بننے والے ہوتے ہیں، ان کے نام مردانہ ہوتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ آپ کو یہ جان کر شاید حیرت ہو کہ مذکورہ اصول کسی امریکی ایجنسی نے نہیں بلکہ عالمی موسمیاتی ادارے (ڈبلیو ایم او) نے بھی اختیار کر رکھا ہے۔
اس ادارے کی ویب سائٹ پر طوفانوں کو نام دینے سے متعلق واضح کیا گیا ہے کہ ان کا مقصد خبر رسانی اور یاد رکھنے میں سہولت پیدا کرنا ہے تاہم یہ نہیں بتایا گیا کہ خواتین والے نام زیادہ تباہ کن طوفانوں ہی کےلیے کیوں مخصوص ہیں۔
اگر ہم اب تک آنے والے طوفانوں (ہریکینز) کے ناموں کا جائزہ لیں تو ان میں سے میتھیو، مچ، گستاف، اینڈریو، فلوئیڈ، ہوزے اور ایون وغیرہ کے نام مردانہ ہیں جبکہ وہ اپنی شدت اور تباہ کاری میں بھی نسبتاً کم ثابت ہوئے تھے۔
ان کے مقابلے میں کترینا، ولما، سنڈی، ریٹا اور اب اِرما نہ صرف زیادہ شدید ہیں بلکہ ان سے ہونے والی تباہی بھی کہیں زیادہ ہوئی ہے۔
اگرچہ یہ کوئی سائنسی اصول تو نہیں لیکن بالعموم یہ خیال کیا جاتا ہے کہ عورتوں کے ناموں والے طوفان، مردانہ ناموں والے طوفانوں کے مقابلے میں 3 گنا زیادہ خطرناک اور ہلاکت خیز ہوتے ہیں۔
اگر کوئی طوفان اپنی ابتداء ہی سے ’’کٹیگری 4‘‘ میں ہو، یعنی اس میں چلنے والی ہواؤں کی رفتار 210 کلومیٹر فی گھنٹہ یا اس سے زیادہ ہو، تو اسے فوری طور پر کسی عورت کا نام دے دیا جاتا ہے۔ تاہم اگر اس کی شدت کم ہو تو پھر اس کےلیے مردانہ نام اختیار کیا جاتا ہے۔
حالیہ برسوں میں اس حوالے سے طوفان ’’ہاروے‘‘ منفرد ہے کیونکہ اپنی ابتداء میں یہ کٹیگری 3 کا طوفان تھا لیکن نام دیئے جانے کے بعد، غیر متوقع طور پر، اس کی شدت میں اضافہ ہوگیا اور یہ کٹیگری 4 کا طوفان بن گیا؛ لیکن تب اس کے نام میں تبدیلی نہیں کی جاسکتی تھی۔
حقوقِ نسواں کے عالمی حلقوں کو اس پر شدید اعتراض ہے اور ان کا کہنا ہے کہ زیادہ تباہ کن اور ہلاکت خیز طوفانوں کو عورتوں والے نام دے کر ظاہر کیا جاتا ہے کہ جیسے تباہی اور بربادی ہی عورت کے مزاج کا خاصّہ ہے۔ اس کے برعکس مخالف حلقے یہ کہتے ہیں کہ زنانہ ناموں والے طوفانوں کی زیادہ شدت ظاہر کرتی ہے کہ مردوں کے مقابلے میں عورتیں کہیں زیادہ مضبوط ہوتی ہیں اور اپنے راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو پچھاڑتی ہوئی آگے بڑھتی چلی جاتی ہیں۔
حقیقت کچھ بھی ہو لیکن یہ بات بہرحال طے ہے کہ زیادہ تباہی پھیلانے والے طوفانوں کو عورتوں والے نام ہی دیئے جاتے ہیں۔
ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔