پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے

شاہد سردار  اتوار 10 ستمبر 2017

آبی وسائل پر تحقیقات کرنے والی پاکستان کونسل (بی آرڈبلیو آر) کی جانب سے جاری کی جانے کی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ وطن عزیز میں پینے کے صاف پانی کے نام پر فروخت کیے جانے والے ’’منرل واٹر‘‘ کے 13 سے زائد برانڈ مختلف اقسام کے کیمیائی مواد کی آمیزش کے باعث اس قدر مضر صحت ہیں کہ ان کا مسلسل استعمال کرنے والے ہیپاٹائٹس سی، جگر، پھیپھڑے، مثانے، گردے، جلد اور معدے کے کینسر کا شکار ہوسکتے ہیں وگرنہ بلڈ پریشر، شوگر اور امراضِ قلب جیسے امراض میں مبتلا ہوسکتے ہیں۔

اس بات میں دو رائے نہیں ہوسکتی کہ پاکستان میں آبادی کے بڑھتے ہوئے دباؤ اور مختلف کارخانوں اور فیکٹریوں سے نکلنے والے آلودہ پانی کے بغیر کسی ٹریٹ منٹ کے اندھا دھند اخراج سے نہ صرف زیر زمین پانی آلودگی کی خطرناک حدود کو چھورہا ہے بلکہ اس کی آڑ میں جو پانی منرل واٹر کے نام سے شہریوں کو فروخت کیا جارہا ہے وہ بھی ایسی کیمیاوی آلودگیوں کا شکار ہے کہ دنیا کے کسی مہذب ملک میں اس کی فروخت کی اجازت نہیں مل سکتی۔

امریکا میں بیس ویں صدی کے اوائل میں پانی میں آلودگی کی شکایات پیدا ہوئیں تو حکومت نے فوری طور پر ملاوٹ اور آلودگی کی روک تھام کے لیے ایک فوڈ اینڈ ڈرگ ایجنسی تشکیل دی جو اب تک پوری ذمے داری سے کام کررہی ہے اور کسی ادارے کی مجال نہیں کہ وہ عوامی استعمال کی کسی چیز میں کوئی چھوٹی سی ملاوٹ بھی کرسکے۔

ہمارے ملک پاکستان میں یہ عالم ہے کہ یہاں غذائی اشیا، ادویات اور پینے کے پانی سمیت ہر چیز میں ملاوٹ کرکے شہریوں کی جانوں سے کھیلا جارہا ہے۔ اس دھندے کو روکنے کا کوئی موثر انتظام موجود نہیں اور طرفہ تماشا تو یہ ہے کہ بجٹ میں بھی کبھی کسی سطح پر پینے کے شفاف پانی کی فراہمی کے لیے کچھ سرمایہ مختص نہیں کیا جاتا۔

کون نہیں جانتا کہ پانی اس وقت پاکستان میں ہی نہیں پوری دنیا کے لیے نہ صرف ایک بنیادی ضرورت ہے بلکہ اہم ترین مسئلہ بھی ہے کہ پانی کی کمی سے ساری دنیا دو چار ہے۔ اس حوالے سے بین الاقوامی ادارے خصوصاً سویڈن کے انسٹیٹیوٹ نے پانی کی قلت دور کرنے کے حل نکالے ہیں۔

ضرورت ہے کہ پاکستان ترجیحی بنیادوں پر اس طرف توجہ دے اور نہ صرف ملک کی ’’واٹر پالیسی‘‘ مرتب کی جائے بلکہ پانی کی کمی دورکرنے کے منصوبے بھی مرتب کیے جائیں۔ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہوسکتی کہ ملک میں پانی کی کمی کی ایک بڑی وجہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے اور پانی کی پراسسنگ نہ ہونے کے باعث پانی کی طلب و رسد کا توازن بگڑگیا ہے جب کہ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے مناسب تعداد میں ڈیم بھی نہیں بنائے جاسکے جس کی باعث بجلی کی ضرورت پورا کرنے کے لیے ہائیڈل پاور جنریشن نہیں ہو رہی۔ اس کی وجہ سے ملک کو لوڈ شیڈنگ جیسی اذیت ناک صورتحال کا بھی سامنا طویل برسوں سے ہے۔

ہمارے ہاں پانی ذخیرہ کرنے کے حوالے سے کئی منصوبے بنائے گئے مگر بد قسمتی سے کالا باغ ڈیم جیسا اہم منصوبہ سیاست کی نذر ہوگیا اسی طرح بھاشا اور منڈھا ڈیم پر بھی مکمل طور پر کام شروع نہیں ہوسکا۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ چھوٹے بڑے آبی ذخائر اور ڈیموں کی تعمیر کے ساتھ ساتھ ایک جامع واٹر پالیسی مرتب کرکے پانی کی فراہمی اور اس کے حصول کو اولین ترجیح دی جائے۔

یہ بات فہم سے یکسر باہر ہے کہ ہمارے ملک میں جس قدر صاف پینے کے پانی کی قلت ہے اسی قدر شہر کا ہر تیسرا آدمی منرل واٹر فروخت کرنے کا کام کررہا ہے، پینے کے پانی میں جان لیوا چیزوں کی آمیزش کے ساتھ ساتھ انسانی فضلہ شامل ہونے کی بات بھی پرانی ہوچکی لیکن پورے ملک میں اس وقت پینے کے پانی کی سپلائی کا کاروبار آسمانی حدوں کو چھورہا ہے، ایک سے بڑھ کر ایک نئے نام سے پینے کا پانی لوگوں تک پہنچایا جارہاہے اور جو لوگ اسے پی رہے ہیں وہ جان لیوا امراض میں مبتلا ہورہے ہیں اور اس کو بیچنے والے اپنی تجوریاں بھررہے ہیں۔

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اس وقت ملک میں ایک کروڑ پچاس لاکھ افراد ہیپاٹائٹس سی اور تقریباً پچاس لاکھ ہیپاٹائٹس بی میں مبتلا ہیں اور ان میں روزانہ چار سو مریضوں کا مزید اضافہ بھی ہوتا جارہا ہے اور یہ سب کا سب مضر صحت پانی کے پینے سے ہورہاہے۔ اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا جان لیوا امراض میں مبتلا ہوجانا یا جان سے چلے جانا ایک بہت خطرناک سگنل ہے جس سے عہدہ برآ ہونے کے لیے عوام کو صحت کی زیادہ سے زیادہ سہولتیں فراہم کرنے کے ساتھ پینے کا صاف پانی ہر قسم کی ملاوٹ سے پاک مہیا کیے جانا سرکار کا فرض ہے لیکن سرکار ہمیشہ سے کسی دوسرے فریضے میں مصروف چلی آرہی ہے نتیجے میں:

پانی میں بھی پیاس کا اتنا زہر ملا ہے
ہونٹوں پر آتے ہی ہر قطرہ سوکھ رہا ہے

والی صورتحال کا سامنا ہے۔ یہ بھی ایک مسلمہ امر ہے کہ قدرت کے بنائے ہوئے مکمل اور انسان دوست نظام کو جب ذاتی اور گھٹیا مفادات کے لیے خراب یا تبدیل کیا جاتا ہے تو اس کی سزا ان بے شمار بے گناہ لوگوں کو بھی بھگتنا پڑتی ہے جن کا اس سارے معاملے میں کوئی قصور نہیں ہوتا۔ ہر سال مضر صحت پانی پینے سے ڈیڑھ لاکھ مریضوں کا موت کے گھاٹ اتر جانا کیا معنی رکھتا ہے؟ اس کا کون ذمے دار ہے؟ قانون ساز ادارے اتنی بھاری تعداد میں مرنے والے لوگوں کے قتل کا نوٹس کیوں نہیں لے رہے اور یہ گھناؤنا خونی کھیل یا کاروبار عین سرکاری ناک کے نیچے کیونکر ہورہاہے؟ ان سوالات کے جواب کون دے گا اور کب دے گا؟

ہمارے ارباب اختیار یا حکمرانوں کو یہ بات ذہن نشین کرلینی چاہیے کہ کسی کو اپنے اچھے عمل سے خوشی دینا ہزار سجدے کرنے سے بہتر ہوتا ہے۔ جس طرح دیوار سے لگے شیشے اور دل سے جڑے رشتے ہمیشہ غفلت سے ٹوٹتے ہیں بالکل اسی طرح وطن عزیز میں بھی زہر میں گھلا پانی ارباب اختیار کی غفلت سے انسانی جانوں کو لاشوں میں بدلنے کا کام کررہاہے۔

اب بھی وقت کی مہلت سے ہمارے ارباب اختیار کو فائدہ اٹھاتے ہوئے اس جانب نگاہ کرلینی چاہیے جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک عوام کو پینے کے پانی سے لے کر دیگر غذائی اشیا اور ادویات تک ہر چیز ملاوٹ سے پاک فراہم کرنے کے لیے جو تجربات کررہے ہیں اور اس حوالے سے جو ضابطے وضع کرچکے ہیں پاکستان میں بھی ان سے فائدہ اٹھایا جائے۔ کیونکہ زندگی کی اصل خوبصورتی یہ نہیں کہ آپ کتنے خوش ہیں بلکہ اصل خوبصورتی تو یہ ہے کہ دوسرے آپ سے کتنا خوش ہیں؟ ویسے بھی عقل مند یا ذی ہوش انسان دیوار یہ لکھی ہوئی تحریر سے بھی سبق سیکھ لیتا ہے لیکن جاہل کے لیے پورا کتب خانہ بھی فضول ہوتا ہے۔ کاش اب بھی پینے کے پانی کے حوالے سے ہمارے پالیسی ساز کوئی مثبت پالیسی وضع کرلیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔