راکٹ سائنس پڑھنے کی ضرورت نہیں…

شیریں حیدر  اتوار 10 ستمبر 2017
Shireenhaider65@hotmail.com

[email protected]

قصاب کی دکان میں داخل ہوئی تو اندازہ ہوا کہ کچھ جلدی ہی آ گئی تھی، ابھی تک انھوں نے ذبح کیے ہوئے بکروں اور دیگر جانوروں کومعمول کی طرح ہکوں کی مدد سے لٹکایا نہ تھا، سارے ذبح شدہ جانور زمین پر ہی ایک چٹائی پر ڈھیر کیے ہوئے پڑے تھے- سوچا کہ تھوڑی دیر کے بعد آ جاؤں گی مگر وہاں اخبار پڑا دیکھ کر وہیں ایک نشست سنبھالی کہ چلو تھوڑا وقت گزارنا مشکل نہ ہو گا-

عید کو ہفتہ بھر گزر چکا تھا، اخبار بھی انھی دنوں کا رکھا ہوا تھا- پہلے صفحہ پر ہی ایک تصویر پر نظر جم گئی، ایک ایسا منظر جو کہ رونگٹے کھڑے کر دے، اخبار سے نظر ہٹائی تو ویسا ہی منظر نظر کے سامنے تھا، فرق یہ تھا کہ نظر کے سامنے جانور تھے اور اخبار میں وہ … جنھیں ان جانوروں سے بھی بد تر سمجھا گیا تھا اور بے دردی سے ہلاک کر دیا گیا تھا-

ان گنت صدیوں کے خاموش بہیمانہ طلسم
ریشم و اطلس و کمخواب میں بنوائے ہوئے

جا بجا بکھرے( بکتے) ہوئے کوچہ و بازار میں جسم
خاک میں لتھڑے ہوئے خون میں نہلائے ہوئے

لوٹ جاتی ہے ادھر کو بھی نظر کیا کیجیے!!!!

فیض احمد فیض

(نوٹ- لفظ’’ بکتے‘‘ کو حسب موقع تبدیل کرنے پر فیض صاحب سے معذرت)

ہم سب چیخ رہے ہیں کہ میانمار میں مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے اس پر انسانی حقوق کی تنظیمیں اور اقوام متحدہ خاموش کیوں ہیں۔ انسانوںکو کیا اس لیے ذبح کیا جا رہا ہے کہ وہ ایک ملک میں اقلیت ہیں، جینے کا حق مانگتے ہیں اور وہ ایک متنازع شہریت کی حامل اقلیت سہی مگر انسان تو ہیں نا؟؟ انھیں انسان کیوں نہیں سمجھا جا رہا- ان کا استحصال اس لیے ہو رہا ہے کہ وہ مسلمان ہیں جو کہ دنیا بھر میں اسی پاداش میں زیر عتاب ہیں- ساڑھے پانچ کروڑ کی آبادی کا ملک… جس میں مسلمان لگ بھگ بیس لاکھ ہیں – ان میں سے 13  لاکھ روہنگیا نسل کے مسلمان ہیں، روہنگیا نسل فقط مسلمانوں ہی کی نہیں بلکہ اس نسل کے ہندو بھی ہیں- یہ مسلمانوں اور ہندوؤں کی وہ نسل ہے جسے میانمار میں بنگالی مہاجرین کہا جاتا ہے اور ان سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ میانمار کو چھوڑ دیں- اس وجہ سے ان پر وہ مظالم ڈھائے جاتے ہیں کہ جنھیں دیکھ کر فلک بھی انگشت بدندان رہ جاتا ہے-

میانمار کی شہریت نہ دینا ایک مسئلہ ہے، ان کی نقل و حرکت پرپابندی اس مسئلے کا ایک اور رخ، انھیں شہریت نہ دیا جانا میانمار کی حکومت کا فیصلہ اور روہنگیا مسلمانوںکا بے رحمانہ اور بہیمانہ قتل… وہاں کی فوج کا ’’کارنامہ‘‘- فقط قتل ہو تو اس کی بہیمیت کم ہو جاتی ہے مگر جو سلوک وہاں ہو رہا ہے اس پر عالمی اداروں کی پراسرار خاموشی… ادارے خاموش تو شاید نہیں ہیں مگر عملی طور پر کچھ نہیں کیا جا رہا،

اس کی کیا وجہ ہے؟میانمار انھیں نکالنے پر تلا ہوا ہے، بنگلہ دیش انھیں کسی حد تک ہی اپنے ملک میں داخل ہونے دے سکتا ہے- کس سے بھولا ہوا کہ جب کسی ملک سے کوئی پناہ گزین آتے ہیں تو اس کا بوجھ اس ملک کی معیشت پرکس طرح پڑتا ہے- ہم نے خود کئی برس تک افغان مہاجرین کو اپنے ملک میں آ کر آباد ہوتے اور اب تک کئی کو مستقل ہوتے ہوئے دیکھا ہے- ان کی بہ عافیت واپسی ہوئی تو ملک سے کئی افغان بستیوں کا خاتمہ ہوا جہاں نہ صرف ضرورت مند پناہ گزین آباد تھے جنھیں ہم نے جذبہ ہمدردی کے ساتھ اس ملک میں داخل اور آباد ہونے دیا تھا بلکہ ان کی آڑ میں کئی طرح کے جرائم پیشہ ، اسمگلر اور دہشتگرد بھی اس ملک میں اپنے پنجے جما گئے-

بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں مدینہ ہجرت کر کے آنے والے مہاجرین اور ان کے ساتھ مدینہ کے انصار کی تاریخی مثال نہیں بھولنا چاہیے مگر ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ اس وقت اور آج کے حالات میں بہت فرق ہے- بے شک ہم مسلمان ہیں اور مسلمان ایک جسم کی طرح ہیں کہ جس کے ایک عضو کو تکلیف ہو تو سارا جسم اس کو محسوس کرتا ہے- اس بات میں کوئی شک نہیں، ہم بھی اخبارات اور سوشل میڈیا پر تصاویر دیکھتے ہیں تو اندر تک لرز جاتے ہیں مگر ہر انسان کے اختیار کی حد ہے، اس کے اعمال لا محدود نہیں بلکہ سرحدوںکے پابند ہیں-

سوشل میڈیا پر مسلمانوں کو بے حس کہنے والے ان کے جذبات کو بھڑکانے کی کوشش کرتے ہیں مگر انھیں شاید علم نہیں کہ یہ سب ایک سوچی سمجھی سازش کا حصہ ہے-میانمار کی سرحدیں چین، ہندوستان، تھائی لینڈ، بنگلہ دیش اور لاؤس سے ملتی ہیں – ایک تخمینے کے مطابق جولائی 2017 تک لگ بھگ پچھتر ہزار مسلمانوں نے بنگلہ دیش کی سرحد پار کر کے وہاں پناہ لی تھی جب کہ دنیا کے مختلف ممالک میں لگ بھگ چار لاکھ روہنگیا مسلمان پناہ گزین ہیں، ان ممالک میں پاکستان بھی شامل ہے-

یہ ایک ہفتہ جس کے دوران ہم نے عید بھی منائی ہے اس ایک ہفتے کے دوران وہاں پر مسلمانوں پر قیامت ٹوٹتی رہی، چار سو سے زائد مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا… تین ہزار کے قریب گھروں کو جلا دیا گیا اور صرف اس ایک ہفتے میں تہتر ہزار روہنگیا مسلمان مختلف ذرایع سے بنگلہ دیش پہنچ کر وہاں پناہ گزین ہوئے ہیں – مسلمانوں نے بھی مختلف واقعات میں سیکیورٹی اہلکاروں کو ہلاک کیا ہے-دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ سب اعداد وشمار انٹر نیٹ پر دستیاب ہیں اور ان معلومات کا ذریعہ امریکا کی خبر رساں ایجنسیاں ہیں-

مسلمان ممالک اپنے اپنے طور پر جو کچھ کر سکتے ہیں وہ کر رہے ہیں، خواہ وہ انھیں پناہ دے رہے ہیں، ان کی مالی امداد کر رہے ہیں یا میانمار کی فوج کے خلاف لڑنے کے لیے اسلحہ دے رہے ہیں یا اور کچھ نہیں تو ان کے قتل عام اور ان کے ساتھ ہونیوالے سلوک کی بھر پور طریقے سے مذمت کر رہے ہیں – ہمارے ہاں بھی دو روز پہلے ہی مذہبی جماعتوں نے میانمار کے سفارت خانے کے باہر اجتماع کر کے اپنا احتجاج پیش کرنے کا عزم کیا- ریڈ زون کو سیل کر کے انھیں ڈپلومیٹک انکلیو کے باہر اجتماع کرنے کی اجازت دی گئی اور انھوں نے اپنا احتجاج رجسٹر کیا-

اسرائیل میانمار کا مددگار ہے اور انھیں ہر طرح کا اسلحہ اور امداد بلاواسطہ اور بالواسطہ اسرائیل سے ملتی ہے- اسرائیل کی اسلام دشمنی کس سے چھپی ہے، مگر اسرائیل کس کا لے پالک ہے، وہ بھی ہم سب جانتے ہیں – مسلمانوں کو جہاں خطرہ ہو وہاں اسرائیل کی موجودگی نظر آ جاتی ہے، اسرائیل تو ایک کارندہ ہے… کس کا؟ اس کا جواب ڈھونڈنے کے لیے راکٹ سائنس پڑھنے کی ضرورت نہیں-

میانمار کا مسئلہ، کیا اتنا ہی سادہ ہے جتنا نظر آ رہا ہے کہ وہاں مسلمانوں کی ایک ایسی اقلیت ہے جسے نہ میانمار own کرتا ہے نہ ہی کوئی اور ملک ان کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے – ان کی تصاویر دیکھ کر ہمیں لگتا ہے کہ ہم اپنے ملک کے وجود میں آنے کی تاریخ کو دیکھ رہے ہیں – ہم اس کے عینی شاہد تو نہیں مگر جو بزرگوں سے سنا اور جو تاریخ اور ادب کی کتابوں میں پڑھا ہے، وہ سب کچھ ایسا ہی تھا، ایسے ہی قتل عام کے مناظر… ایسے ہی بچوں کو کرپانوں میں پرویا گیا تھا ، ایسے ہی چاقوؤں اور خنجروں سے مردوں اور بچوں کو ذبح کیا گیا تھا اور ایسے ہی عورتوں کی عزتوں کو لوٹا گیا تھا- دل یہ سب دیکھ کر کرب سے بھر جاتا ہے مگر ہماری کیا بساط… ماسوا اس کے کہ ہم زبانی احتجاج کر لیں- ہم تو یہ بھی نہیں سمجھ رہے کہ بساط کیا بچھی ہے- اصل کھیل کیا ہے، شطرنج کے کس مہرے کو کس طرح استعمال کیا جا رہا ہے-

اب تک جہاں جہاں امریکا نے در اندازی کی ہے وہاں وہ ایک دن میں اٹھ کر نہیں پہنچ جاتا، وہ ہر ملک میں اپنے داخلے اور حملوں کے جواز کا ڈرامہ تیار کر کے اپنا کام شروع کرتا ہے- ہر ڈرامے کی منصوبہ بندی بہت اہتمام سے کی جاتی ہے اور اصل ڈرامہ شروع ہونے سے پہلے بیس بیس سال پہلے، بلکہ اس سے بھی زیادہ وقت سے وہاں پر کھیل شروع کر دیا جاتا ہے- ایسے حالات پیدا کیے جاتے ہیں، حالات کو انتہائی حد تک خراب کر دیا جاتا ہے، پھران کی مذمت کی جاتی ہے اور پھر عملی طور پر ’’بڑے کھڑپینچ ‘‘ صاحب مداخلت کرتے ہیں-

اس کی وجہ کیا ہے؟ جاننا چاہتے ہیں نا آپ- آج تک جہاں جہاں امریکا نے مداخلت کی ہے، وہ ممالک یا تو قدرتی وسائل سے مالا مال ہیں یا ان کی جغرافیائی اہمیت بہت زیادہ ہے- کہیں امریکا کی گود میں بیٹھ کر اسرائیل دوسروںکو آنکھیں دکھاتا ہے اور یہاں امریکا کو انڈیامیسر ہے کہ اس کی جغرافیائی سرحدیں میانمار سے ملتی ہیں- جس ملک کے دل میں سارے وسائل کو اپنی گرفت میں لینے اور دنیا بھر پر حکمرانی کا لالچ سوار ہو، وہ اپنے اس لالچ کی تکمیل کے لیے کسی حد تک بھی جا سکتا ہے، اس کے راستے میں آنیوالی کوئی رکاوٹ اہم نہیں ہوتی- ماضی میں جہاں جہاں پر امریکا نے دراندازی کر کے اپنے مقاصد کی تکمیل کی ہے، انھیں دیکھ لیں- اگرنہیں سمجھ میں آرہا تو میانمار کے بارے میں پڑھیں اور جانیں، آپ کو اندازہ ہو گا کہ نہ صرف میانمار تیل، گیس اور کوئلے کے قدرتی ذخائر سے مالا مال ہے بلکہ قیمتی پتھروں کے دنیا کے سب سے بڑے ذخائر بھی میانمار میں ہیں- دو اور دو چار جیسی سیدھی سی بات ہے… اب بھی نہ سمجھو گے میانمار والو… سمجھ جاؤ ورنہ مٹ جاؤ گے! !

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔