گورنر راج کے نفاذ سے بھی حالات بہتر نہ ہوئے

رضا الرحمٰن  منگل 19 فروری 2013
صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے ایک ماہ کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔  فوٹو: فائل

صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے ایک ماہ کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ فوٹو: فائل

کوئٹہ:  معزول حکومت کی اسمبلی کا اجلاس تواتر سے جاری ہے۔جس میں ارکان اسمبلی بلوچستان میں گورنر راج کو زبردست تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اپنی بھڑاس نکالتے نظر آتے ہیں۔ 

یہاں تک کہ وہ ارکان اسمبلی بھی ان دنوں زور و شور سے اسمبلی میں جذباتی تقاریر کررہے ہیں جنہوں نے گزشتہ ساڑھے چار سال میں بمشکل کچھ ہی الفاظ کسی بھی مسئلے میں ادا کئے ہونگے جس کا ریکارڈ بلوچستان اسمبلی سے حاصل کیا جاسکتا ہے ۔ گزشتہ دنوں بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں ارکان اسمبلی نے دھواں دار تقاریر کرتے ہوئے گورنر راج کے نفاذ کے بعد ایک ماہ کی کارکردگی رپورٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ صوبے میں گورنر راج کے نفاذ کے ایک ماہ کے بعد بھی کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

صوبے میں اس دوران 125افراد قتل 75زخمی اور 35افراد اغواء ہوئے جبکہ 15بم دھماکے ہوئے لہٰذا بلوچستان کی آئینی حکومت کو بحال کیا جائے، ان ارکان اسمبلی کا یہ بھی کہنا تھا کہ صوبائی حکومت وسائل لوٹنے کیلئے برطرف کی گئی ہے ہم ایسا نہیں ہونے دینگے ۔ ان ارکان اسمبلی کا یہ بھی کہنا تھا کہ پی پی پی کے ہر دور میں بلوچستان کی حکومتیں ختم کی گئیں کراچی سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں امن و امان کی صورتحال خراب ہے مگر وہاں کی حکومتیں ختم نہیں کی گئیں حکومت تبدیل کرنی ہے تو تحریک عدم اعتماد لائی جائے۔ ارکان اسمبلی کی اس تنقید کا جواب حکومت کی طرف سے بھی دیا جارہا ہے ،گورنر راج کے بعد صوبے میں حکومت نے جو اقدامات کئے ہیں اس کے حوالے سے کارکردگی رپورٹ دی جارہی ہے۔

ارکان اسمبلی اور حکومت کے درمیان بیان بازی کا یہ سلسلہ جاری تھا کہ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں ایک اور بڑا سانحہ پیش آگیا، ہزارہ ٹائون کے علاقے علی آباد میں ایک دھماکے میں 84افراد جاں بحق اور 154سے زائد زخمی ہوگئے یہ بھی اسی نوعیت کا سانحہ ہے جس سانحہ کے بعد بلوچستان میں حکومت کو برطرف کردیا گیا تھا اور گورنر راج نافذ کردیا گیا تھا ، اس سانحے نے موجودہ حکومت کی بھی جڑیں ہلا کر رکھ دیں ہیں ، متاثرین نے ایک مرتبہ پھر دھرنا دے کر کوئٹہ کو فوج کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ سیاسی حلقوں کے مطابق اس طرح کے سانحات کو روکنا بہت مشکل ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت ایسے سانحات کے تدارک کے لئے کوئی ٹھوس حکمت عملی مرتب کرے جس کے لئے تمام سیاسی و قوم پرست جماعتوں اور مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو اس میں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا اور موجودہ حالات اس بات کے شدت سے متقاضی ہیں کہ اس پر فوری عمل شروع کیا جائے۔

بلوچستان میں نگراں سیٹ اپ کے حوالے سے مختلف باتیں ہورہی ہیں بعض سیاسی تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ گورنر راج کی مدت 2ماہ ہے اور صوبے سے دو ماہ قبل ہی گورنر راج اٹھالیا جائے گااور بلوچستان اسمبلی کو نیا قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کے چنائو کیلئے کہا جائے گا جس کے انتخاب کے بعد دونوں نومنتخب قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کی مشاورت سے بلوچستان میں نگران سیٹ اپ تشکیل دیا جائیگا سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان میں نگران سیٹ اپ کے حوالے سے مشاورت کا عمل ابھی سے شروع ہے اور گزشتہ دنوں سابق اسپیکر بلوچستان اسمبلی محمد اسلم بھوتانی کی کوئٹہ آمد اور یہاں گورنربلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی سے ان کی ملاقاتوں کو بہت اہمیت دی جارہی ہے اس سے قبل ان کے بڑے بھائی سردار صالح بھوتانی بھی کوئٹہ میں مقیم رہے ہیں جو کہ 2007-08میں بلوچستان کے نگران وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں –

سیاسی حلقوں کے مطابق بلوچستان کے بعض سابق پارلیمنٹیرین نے (ن) لیگ میں شمولیت کے لئے اپنے قریبی ساتھیوں سے مشاورت شروع کردی ہے اور اس حوالے سے جلد ہی سابق پارلیمینٹیرین کی ایک اچھی خاصی تعداد (ن) لیگ میں شمولیت اختیار کرے گی ۔ ان حلقوں کے مطابق ان پارلیمینٹرینز کی شمولیت سے (ن) لیگ کو بلوچستان میں کافی پذیرائی مل سکتی ہے جس کے بلوچستان کی آئندہ سیاست پر بھی گہرے اثرات مرتب ہونگے جوں جوں انتخابات کے حوالے سے باتیں ہورہی ہیں صوبے میں سیاسی اتحادوں کی تشکیل کیلئے بھی رابطے ہورہے ہیں نگران سیٹ اپ کی تشکیل کے بعد ملک کے دیگر صوبوں کی طرح بلوچستان کی سیاست میں بھی تیزی آجائے گی اور مختلف انتخابی اتحاد سامنے آنے کے قوی امکانات ہیں قوم پرست جماعتیں بھی اس حوالے سے رابطے کررہی ہیں۔

سیاسی حلقوں کا کہنا ہے کہ صوبے میں نگران سیٹ اپ کی تشکیل کے بعد گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی بھی سیاسی میدان میں درپردہ سرگرم ہونگے کیونکہ ان کے بہت سے قریبی سیاسی دوست آئندہ الیکشن میں حصہ لینے کے لئے بے تاب ہیں اور انہیں گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی جیسے منجھے ہوئے سیاستدان کی مشاورت اور سپورٹ کی ضرورت ہے ۔ بعض سیاسی حلقوں کا کہنا بھی ہے کہ بلوچستان میں سابق پارلیمینٹرینز پر مشتمل جو ہم خیال گروپ تشکیل پایا ہے اسے درپردہ گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار مگسی کی مکمل سپورٹ حاصل ہے کیونکہ اس گروپ میں ان کے قریبی دوست زیادہ سرگرم ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔