چہرہ دیکھ کر تکلیف کا احساس کرنے والا کمپیوٹر پروگرام

ویب ڈیسک  منگل 12 ستمبر 2017
ایم آئی ٹی کے ماہرین نے درد کو پہچاننے والا سافٹ ویئر الگورتھم بنایا ہے۔ فوٹو: فائل

ایم آئی ٹی کے ماہرین نے درد کو پہچاننے والا سافٹ ویئر الگورتھم بنایا ہے۔ فوٹو: فائل

بوسٹن: انسانی چہرے کے تاثرات اور کرب کو دیکھ کر درد کی شدت ناپنے والا ایک نظام تیار کیا گیا ہے اور بسا اوقات خود مریض سے بہتر طور پر درد کا احوال بیان کرتا ہے۔

میسا چیوسیٹس انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی ( ایم آئی ٹی) کے ماہرین نے یہ کمپیوٹر الگورتھم بنایا ہے جو بسا اوقات چہرے کے معمولی خدوخال کو بھی پڑھ لیتا ہے اور مریض سے بہتر انداز میں درد کا احوال بیان کرتا ہے۔

ایم آئی ٹی کے پروفیسر ڈیانبو لوئی اور ان کےساتھیوں نے یہ کمپیوٹر الگورتھم بنایا ہے۔ ان کے مطابق مختلف افراد درد کا اظہارمختلف انداز سے کرتے ہیں۔ اس طرح خود ڈاکٹر درد کی جس شدت کا اندازہ لگاتا ہے وہ حقیقی درد سے کم یا زیادہ ہوسکتی ہے۔ اسی طرح یہ سسٹم اصلی اور جعلی درد کی کیفیت بھی نوٹ کرسکتا ہے۔

تجربے کے طور پر ماہرین کی ٹیم نے پہلے الگورتھم کو بعض ویڈیوز پر تربیت فراہم کی جن میں مختلف افراد کو درد سے دوہرے ہوتے دکھایا گیا تھا۔ مثلاً ایک ویڈیو میں کندھے کے درد میں مبتلا ایک شخص کو دکھایا گیا جس سے کہا گیا کہ وہ ایک مختلف قسم کا برتاؤ کرے اور اس کے بعد اپنے درد کی شدت بیان کرے۔ اس کے بعد الگورتھم کو بہتر سے بہتر بنایا گیا۔ اس طرح چہرے کے آثار سے درد کی کیفیات کو نوٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔

ماہرین کے مطابق چہرے کے کئی حصے درد کو بہتر طور پر بیان کرتے ہیں۔ ہمارے منہ اور ناک کے پاس کے حصے شدید درد اور تکلیف میں قدرے مختلف انداز میں کھنچ جاتے ہیں یا حرکات پیدا ہوتی ہیں۔ اس سے قبل کئی تجربات سے ثابت ہوچکا ہےکہ کمپیوٹر بہتر انداز میں اصل اور جعلی درد کو پہچان سکتا ہے۔ یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو نے درد کی اداکاری کرنے والوں کو 85 فیصد درستگی سے شناخت کرلیا جبکہ وہ سافٹ ویئر اتنا جدید نہ تھا اور درستگی کا درجہ صرف 55 فیصد تھا۔

اس سافٹ ویئر کو مزید بہتر بنانے کے لیے اس میں عمر، جنس، رنگت اور دیگر معلومات کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے۔ واضح رہے کہ درد کے تاثرات میں عمر کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ پروفیسر ڈیانبو لوئی کے مطابق اس طرح ہم انفرادی طور پر ہر فرد کی تکلیف معلوم کرسکتے ہیں۔

تاہم یہ سافٹ ویئر ڈاکٹروں کی جگہ نہیں لے سکتا اور اسے بہتر بنانے کے لیے مزید تحقیق کی جارہی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔