پاکستانی پاسپورٹ کی بے توقیری اور ہماری ذمہ داری

عمران سرور باجوہ  بدھ 13 ستمبر 2017
برادر اسلامی ملک سعودی عرب تک ہرے پاکستانی پاسپورٹ کی ایسی عزت افزائی کرتا ہے کہ طبیعت ہری ہوجاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

برادر اسلامی ملک سعودی عرب تک ہرے پاکستانی پاسپورٹ کی ایسی عزت افزائی کرتا ہے کہ طبیعت ہری ہوجاتی ہے۔ (فوٹو: فائل)

جب دیارِ غیر میں آپ کو صرف پاکستانی ہونے کی بناء پر دھوکے باز کا طعنہ سننا پڑجائے تو حالت بھی غیر ہوجاتی ہے۔ شاید میری طرح اور بھی ہزاروں پاکستانیوں کو ایسی ہی صورتِ حال کا سامنا رہا ہو۔

یہ اکتوبر 2006 کی بات ہے جب مجھے لاہور سے لزبن (پرتگال) جانا تھا۔ میری فلائٹ لاہور سے براستہ دبئی اور زیورخ تھی۔ سوئس ایئرلائن سے زیورخ صبح 6 بجے پہنچا۔ بہت اچھا جہاز تھا لیکن سات گھنٹے کی پرواز نے تھکا دیا تھا۔ زیورخ ایئرپورٹ کے دو ٹرمینل ہیں، لزبن کےلیے فلائٹ دوسرے ٹرمینل سے 10 بجے ملنی تھی۔ پہلے ٹرمینل سے ٹرین لے کر دوسرے ٹرمینل پر پہنچا تو پتا چلا کہ لزبن کےلیے ابھی بورڈنگ میں ایک گھنٹہ باقی تھا، تو سوچا ڈیوٹی فری شاپ پر گھوم لیا جائے۔

ایک گھنٹہ ادھر اُدھر گھومنے کے بعد اعلان ہوا کہ بورڈنگ شروع ہو گئی ہے تو میں بھی لائن میں لگ گیا۔ جب باری آئی تو جیب میں پاسپورٹ تو تھا لیکن ٹکٹ غائب تھی۔ کاؤنٹر پر بیٹھے گورے کو اپنا پاسپورٹ دیا تو اُس نے چیک کرکے بتایا کہ سیٹ کنفرم ہے لیکن ٹکٹ دکھاؤ۔ میں نے کہا کہ ٹکٹ گم ہوگئی ہے، میری کنفرم ٹکٹ آپ کے کمپیوٹر پر آرہی ہے اور پاسپورٹ آپ کے سامنے ہے؛ اور ٹکٹ کی ضرورت نہیں۔ مگر وہ صاحب بضد تھے کہ ٹکٹ دیکھے بغیر بورڈنگ پاس نہیں بنائیں گے۔ تھوڑی بحث کے بعد جب بورڈنگ پاس نہ بنانے کی وجہ پوچھی تو فرمانے لگے ’’Sorry, Pakistanis are cheaters۔‘‘ دیارِ غیر میں جب کوئی آپ کی قوم پر تہمت لگائے تو ساری حب الوطنی دھری کی دھری رہ جاتی ہے۔

خیر! نئی ٹکٹ لینے کے سوا چارہ کوئی نہیں تھا۔ اچانک یاد آیا کہ پہلے ٹرمینل پر واش روم میں نہ بھول گیا ہوں۔ جلدی سے ٹرین پکڑی اور واش روم پہنچا تو واش بیسن پر ٹکٹ رکھی تھی۔ خدا کا شکر ادا کرتے ہوئے فوراً ٹکٹ اُٹھائی، اُسی گورے صاحب کو جاکر دکھائی اور کہا کہ Here is my ticket, Pakistanis are not cheaters۔ پھر ان صاحب نے آنکھ بھی نہیں اُٹھائی اور فوراً بورڈنگ پاس بنا دیا۔

یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب کوئی آپ کی بات کرتا ہے تو وہ کچھ عرصے بعد بھول جاتی ہے لیکن جب کوئی ملک یا قوم پر بات کرے تو مرتے دم تک یاد رہتی ہے۔ بہرکیف، پاکستانی پاسپورٹ کی بے توقیری کا یہ کوئی واحد واقعہ میرے ساتھ پیش نہیں آیا بلکہ فروری 2007 میں میری دبئی سے پیرس ڈائریکٹ فلائٹ تھی، جس میں بہت سارے یورپی بھی تھے۔ پیرس میں چارلی دی گُلی ائرپورٹ پر امیگریشن کے وقت 400 مسافروں کو ایک ایک کرکے چیک کیا جا رہا تھا، میری باری پر میرا پاکستانی پاسپورٹ دیکھ کر ایک فرانسیسی نے مجھے لائن سے نکال کر ایک سائیڈ پر کھڑا کر دیا اور میرا پاسپورٹ جیب میں ڈال لیا۔ باقی سارے مسافروں کو فارغ کرنے کے بعد فرانسیسی گورا صاحب دوبارہ میرے پاس آیا، میرا پاسپورٹ مجھے واپس کیا اور کہا ’’یو کین گو‘‘ (آپ جاسکتے ہیں)۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ ڈیڑھ گھنٹہ سے زائد ایک کونے میں کھڑا یہی سوچتا رہا کہ پاسپورٹ تو اصلی ہے، پھر اس بےعزتی کی کیا وجہ ہے؟ اور یہ کہ ابھی پتا نہیں اور کتنا تنگ کریں گے۔

اسی طرح کا ایک اور واقعہ ستمبر 2008 میں دوبارہ پیرس کے اسی ایئرپورٹ پر پیش آیا جب میں پورے ایئرپورٹ پر پی آئی اے کا کاؤنٹر ڈھونڈتا رہا۔ 2 گھنٹے در بدر پھرنے کے بعد سعودی ایئرلائن کے کاؤنٹر سے پوچھا تو معلوم ہوا کہ پی آئی اے کا کوئی علیحدہ کاؤنٹر ہے ہی نہیں بلکہ ایئر فرانس کا کاؤنٹر ہی پی آئی اے استعمال کرتی ہے۔ ایئر فرانس کے کاؤنٹر پر پہنچا تو وہاں ایک کالا فرانسیسی موجود تھا، اُسے اپنا پاسپورٹ دکھایا اور پی آئی اے کی فلائٹ کا پوچھا تو اُس نے پی آئی اے کا نام سُن کر ایسے ناک بھوں چڑھایا کہ دل ہی ڈوب گیا۔ اس نے سرے سے انکار ہی کردیا کہ اُس کا پی آئی اے سے کوئی تعلق نہیں۔

خیر! چار گھنٹے انتظار کے بعد آخرکار پی آئی اے کا عملہ آیا اور اُسی کاؤنٹرسے بورڈنگ پاس ملے۔ عملے سے دریافت کیا تو پتا چلا کہ پی آئی اے باقاعدہ اس کاؤنٹر کا کرایہ دیتی ہے لیکن پھر بھی ایئر فرانس والے بدتمیزی سے باز نہیں آتے۔ اُس دن پہلی بار انکشاف ہوا کہ ہم پاکستانیوں سے گورے تو کیا عزت سے بات کریں گے، کالے بھی کسی کھاتے میں نہیں لکھتے۔

پچھلے 12 سال میں بیسیوں ایئرپورٹس کا تجربہ ہوا۔ کچھ اچھے تجربے بھی ہوئے لیکن کسی اور قوم یا ملک کے لوگوں کے ساتھ اس طرح کا برتاؤ ہوتا نہیں دیکھا جو پاکستانی پاسپورٹ کے ساتھ روا رکھا جاتا ہے۔

یہ ساری پرانی باتیں آج ایک بار پھر تب ایک ساتھ یاد آگئیں جب حمزہ عباسی کا پاکستانی پاسپورٹ کے بارے بیان سنا۔ مجھے امید ہے کہ حمزہ عباسی کو بھی ایسے ناخوشگوار واقعات پیش آئے ہوں گے جو اُنہوں نے اس قدر تلخی کا اظہار کیا۔ پچھلے چند دنوں سے حمزہ عباسی کے اس بیان کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہے۔ مگر یہ بات کسی حد تک سچ ہے کہ پاکستانی پاسپورٹ کی وہ قدر نہیں جو امریکہ، یورپ، حتی کہ بھارت کے پاسپورٹ کی ہے۔

امریکہ اور یورپ ویسے تو انسانیت کے بہت بڑے علمبردار بنتے ہیں لیکن امریکہ، سوئٹزرلینڈ، فرانس، اسپین، اٹلی، برطانیہ اور بہت سے ممالک کے ہوائی اڈوں پر پاکستان سے گئی ہوئی فلائٹ کا کاؤنٹر ہی الگ ہوتا ہے؛ اور پاکستانی مسافروں کو کئی کئی گھنٹوں کی غیر ضروری چیکنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور کئی مرتبہ تو بہت سے پاکستانی مسافروں کو ایسی شدید حزیمت بھی اُٹھانی پڑتی ہے جو کسی اور یورپی یا امریکی شہری کو اُٹھانی نہیں پڑتی؛ کیونکہ اُن کےلیے چار سے پانچ کاؤنٹر ہوتے ہیں جن پر مسافروں کو چند منٹوں میں بھگتا دیا جاتا ہے۔

جو فلائٹ پاکستان سے آتی ہے اُس کےلیے صرف ایک کاؤنٹر ہوتا ہے اور وہ بھی 400 سے 500 مسافروں کےلیے۔ دو دو گھنٹے لائن میں لگیے، سب سے آخر میں پاکستانیوں کی باری آتی ہے۔ کچھ امیگریشن افسران تو پاکستانی پاسپورٹ کو دیکھ کرایسی طنزیہ مسکراہٹ دیتے ہیں کہ ساری حُب الوطنی ہوا ہوجاتی ہے۔

گورے ایسا برتاؤ کریں تو سمجھ بھی آتی ہے لیکن ہمارا برادر اسلامی ملک سعودی عرب تک پاکستانی پاسپورٹ کی ایسی عزت افزائی کرتا ہے کہ طبیعت ہری ہوجاتی ہے۔ اگر کوئی شخص پاکستانی فلائٹ سے سعودی عرب گیا ہو تو وہ جانتا ہے کہ پاکستانیوں کی کس طرح تذلیل کی جاتی ہے اور یہ کہ پاکستان سے آئے ہوئے مسافروں کو سب سے آخر میں رکھا جاتا ہے۔

پہلے امریکہ اور یورپ سے آئے ہوئے مسافر، پھر باقی عرب ممالک اور سب سے آخر میں پاکستانی مسافروں کو دیکھا جاتا ہے۔ یورپیوں کا کاؤنٹر الگ ہوتا ہے، ایشین کا الگ اور پاکستانیوں کا سب سے الگ۔ اگر آپ خود سعودی عرب نہیں گئے تو کوئی رشتہ دار یا دوست عمرے وغیرہ کےلیے سعودی عرب گیا ہو تو اُس سے ایئرپورٹ پر ہونے والی بےعزتی کا احوال خود سن لیجیے۔

جدہ ایئرپورٹ پر یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ جب پاکستانی فلائٹ اور ایک یورپی ملک کی فلائٹ اکٹھی لینڈ ہوتی ہے تو یورپی فلائٹ پر پہلے توجہ دی جاتی ہے اور ہاکستانی فلائٹ کو انتظار کروایا جاتا ہے۔

یہاں یہ نکتہ بھی قابل غور ہے کہ آخر پاکستانی پاسپورٹ اس قدر بے توقیر کیوں ہے؟ اور پاکستانیوں کے ساتھ ہی امتیازی سلوک کیوں روا رکھا جاتا ہے؟ تو اس کا جواب بہت آسان ہے؛ اور وہ یہ کہ اِس کی وجہ ہم خود ہیں۔ اوپر سے نیچے تک آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔

حکمرانوں کی بات کریں تو اُنہوں نے ہمیشہ ذاتی مفاد اور حکمرانی کو دوام دینے کےلیے قوم کی عزتِ نفس کو مجروح کیا؛ اور یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ دنیا پاکستانیوں کو ’’بھک منگا‘‘ اور ’’دہشت گرد‘‘ سمجھتی ہے اور ہم جانتے ہیں کہ بھکاریوں کی کوئی عزت نہیں کرتا۔ اسی لیے ہمارا پاسپورٹ بے توقیر ہے۔

یہاں یہ بات بھی توجہ طلب ہے کہ جذبہ حُب الوطنی اپنی جگہ، پاکستان کے لیئے مر مٹنے کے نعرے اپنی جگہ، لیکن دُنیا ہمارا رویہ دیکھتی ہے نہ کہ ہمارے نعرے۔ امریکہ سے ڈالر لے کر اپنے اڈے بیچنے ہوں یا اپنی حکومت بچانے کےلیے واشنگٹن کی چاپلوسی کرنی ہو، ہم اپنی عزت کا سودا کر آتے ہیں۔ معاملہ ایمل کانسی کا ہو یا ریمنڈ ڈیوس کا، ہم ہمیشہ ڈالروں کو ترجیح دیتے ہیں نہ کہ قومی وقار کو۔ ہماری ترجیح اپنے دورِ حکومت کو طول دینا ہوتی نہ کہ اپنی قوم کی عزت اور توقیر کا خیال رکھنا۔

عوام کی بات کریں تو جہاں تارکینِ وطن کی ایک بڑی تعداد نے یورپ اور امریکہ میں اچھا نام کمایا ہے وہیں تارکینِ وطن پاکستانیوں کی  بھی ایک کثیر تعداد یورپی اور امریکی معاشرے میں بدنامی کی وجہ بن رہی ہے۔ امریکہ اور یورپ نے اپنے شہریوں کو سہولتیں دینے کےلیے بہت سے اچھے اصول بنائے ہیں جیسے کہ بینکوں سے آسان قرضے، شادی کے ذریعے پاسپورٹ ملنا، تھوڑے ایڈوانس پر بیش قیمت سامان ملنا، وزٹ ویزہ وغیرہ۔

مگر ہمارے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد ان قوانین کا غلط استعمال کرکے راتوں رات امیر تو ہوجاتی ہے اور غیرملکی پاسپورٹ بھی لے لیتی ہے لیکن پاکستان کی عزت کا جنازہ بھی نکال دیتی ہے۔ ایسی غلطیاں اور جرائم بےشک پوری پاکستانی آبادی کا بہت کم حصہ کرتا ہے لیکن بدنام ساری قوم ہوتی ہے۔ کہیں سنا تھا کہ دیارِ غیر میں ہر شخص اپنی قوم کا سفیر (ایمبیسیڈر) ہوتا ہے۔

پچھلے 70 سال میں ہمارے حکمرانوں کی غلط پالیسیوں اور عوام کی بے وقوفیوں اور غلط کاریوں کی وجہ سے آج ہم اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ کوئی ملک ایک عام پاکستانی کو اپنا ویزہ نہیں دینا چاہتا۔ اگر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر امریکہ یا یورپ کا ویزا مِل بھی جائے تو ایئرپورٹ پر امتیازی سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ایئرپورٹ سے اگر خوش نصیبی سے بچ نکلیں تو سسٹم میں جگہ جگہ یہ احساس دلایا جاتا ہے کہ یہ پاکستانی پاسپورٹ ہے۔
جن ملکوں کے پاسپورٹ کو عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے وہ ڈالروں کے عوض اپنی عزت اور خود داری کا سودا نہیں کرتے۔ اُن ممالک کی اکثریت قانون کی پاسداری کرتی ہے اور دھوکہ دہی کو بہت بڑا جرم سمجھتی ہے۔ ہم پاکستانی لوگ فطرتاً جذباتی ہیں۔ اسلام پر کوئی بھی بات ہو تو بغیر سوچے سمجھے اُس پر کفر کا فتوی لگا دیا جاتا ہے اور پاکستانی پاسپورٹ کی بات ہو تو ملک بدر کرنے کی باتیں ہونے لگتی ہیں۔

جذبہ حب الوطنی اپنی جگہ بالکل صحیح ہے لیکن ہمیں سچ کا سامنا کرنا سیکھنا ہوگا اور پاکستانی پاسپورٹ کی عزت بھی ہمیں ہی بحال کرنی ہو گی۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کسی کو ملک بدر کرنے سے ہمارے پاسپورٹ کی عزت بحال نہیں ہوگی بلکہ اُس کےلیے ہمیں بھیک کا کشکول توڑنا ہوگا؛ اور پاکستان میں ہوں یا پاکستان سے باہر، خود کو قانون کا تابع بنانا ہوگا اور اس خود داری کو اپنانا ہوگا جس کا درس علامہ محمد اقبالؒ نے آج سے 90 سال پہلے کچھ یوں دیا تھا

اے طائر لاہوتی اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

 

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لئے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

عمران سرور باجوہ

عمران سرور باجوہ

مصنف کمپیوٹر سائنس میں برمنگھم یونیورسٹی انگلینڈ سے پی ایچ ڈی ہیں۔ یورپ میں کئی سال تحقیق و تدریس سے منسلک رہے اور آج کل پاکستان کی ایک یونیورسٹی میں بطور پروفیسر اور محقق ذمہ داریاں سرانجام  دے رہے ہیں۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔