ادبی میلہ‘ دو سیشن جو مجھے سمجھ نہ آئے

نصرت جاوید  منگل 19 فروری 2013
nusrat.javeed@gmail.com

[email protected]

ہمارے انگریزی اخباروں میں گزشتہ ہفتے کراچی میں ہونے والے ایک ادبی میلے کی بڑی دھوم رہی ہے۔ بھتہ مافیا اور ٹارگٹ کلنگ سے تقریباََ نتھی سمجھے جانے والے اس شہر میں اتنے بہت سارے لکھاریوں اور ان کے معاشرتی حوالے سے خوش حال اور موثر مانے جانے والے مداحین کا تین روز تک آپس میں ملنا ملانا یقیناً بڑی خوش آیند بات ہے۔ علم و ادب سے پیار کرنے والوں کے لیے ایسے بہت سارے پر امن جزیرے پورے پاکستان میں پھیل جائیں تو دل کو اور خوشی ہو گی۔ مگر ایک بات میرا کند ذہن ابھی تک نہیں سمجھ پایا کہ ’’برصغیر میں موروثی سیاست‘‘ پر ہونے والے ایک سیشن کا اس ’’ادبی میلے‘‘ سے تعلق کیسے جوڑا گیا۔ اسی طرح میرے ایک بڑے ہی پیارے اور مشہور صحافی کی ’’چڑیا‘‘ کا کھوج لگانے والا سیشن بھی میری سمجھ میں نہ آ سکا جہاں سب سے زیادہ سوال یہ جاننے کے لیے بھی اٹھائے گئے کہ آیندہ انتخابات اپنے معینہ وقت پر ہو بھی پائیں گے یا نہیں۔

برطانیہ سے آئے ایک گورے رکن پارلیمان کی تقریر کے بارے میں بھی بڑے فخر و انبساط سے لبریز کہانیاں لکھی گئیں۔ ان کی تقریر جو میں نے تین مختلف اخباروں میں پڑھی کسی بھی طرح ادب سے متعلق دکھائی نہ دی۔ ہو سکتا ہے اس کی رپورٹنگ کرنے والے میری طرح بس ’’رپورٹر‘‘ ہوں گے اور جارج گیلووے نے جو باریک و دقیق ’’ادبی باتیں‘‘ اپنی تقریر میں کی ہوں گی ان کو سمجھ نہ پائے۔ میری بے وقوفی یا کم عقلی، جارج گیلووے جیسے ’’گورے‘‘ ہم ’’کالوں‘‘ کو خوش کرنے والی باتیں کرتے مجھے تو ہمیشہ دو نمبر کے لگے۔

ایسے ہی لوگوں میں ایک صاحب نوم چومسکی بھی ہیں۔ امریکی اشرافیہ کی علامت سمجھے جانے والے ایک ادارے میں لسانیات کے ماہر کے طور پر Full Tenure پروفیسر کے طور پر کام کرتے ہیں۔ مجھے امریکی یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے لوگوں نے بتایا ہے کہ ایسا پروفیسر بڑے مزے کی زندگی بسر کرتا ہے۔ بھاری بھرکم تنخواہ لیتا ہے۔ جب چاہے کلاس یا کورس لیتا ہے۔ ورنہ تحقیق کرنے یا کتاب لکھنے کے نام پر کہیں غائب ہو جاتا ہے۔ یہ صاحب امریکی حکومت کی دفاعی اور خارجہ پالیسیوں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔

ان موضوعات پر لکھا ہوا ان کا کوئی بھی مضمون ہمارے تمام انگریزی اخبارات بڑے اہتمام سے چھاپتے ہیں۔ ایسا کرتے ہوئے شاید وہ میرے جیسے بے بس پاکستانیوں کو یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اب تو امریکا کی اس کے گھر میں بھی مذمت ہو رہی ہے۔ چومسکی کی طرف سے برپا ’’مذمت‘‘ مگر پہلے بش اور اب اوباما کو سن 2000 سے وہ سب کچھ کرنے سے نہ روک پائی جو وہ عراق اور افغانستان کے بارے میں طے کر بیٹھے تھے۔ آپس کی بات ہے کبھی کبھار بھارت کی ارون دھتی رائے بھی مجھے چومسکی جیسی ’’وکھری ٹائپ‘‘ کی حرکتیں کرتی نظر آتی ہے۔

گیلووے اور چومسکی جیسے ’’نمونوں‘‘ سے متاثر ہو جانے والے میرے جیسے کم فہم ’’دیسی‘‘ پتہ نہیں یہ بات کیوں یاد نہیں رکھ پاتے کہ ہوشربا ترقی کرنے والے معاشروں کی طاقت اس امر میں بھی پنہاں ہے کہ وہاں کی اشرافیہ کو ’’وکھری ٹائپ‘‘ دِکھنے والوں کے ساتھ رہنے کا ڈھنگ آ گیا ہے۔ لندن کے عین وسط میں پہلے ہائیڈ پارک میں اتوار کو ہر طرح کی تقریریں ہوتی ہیں۔ میں جب 1981میں پہلی بار لندن گیا تو ہر اتوار بڑے اشتیاق سے وہاں پہنچ جاتا۔ چار پانچ پھیروں کے بعد میرا شوق پورا ہو گیا۔ وہاں کچھ مخصوص لوگ ہر اتوار بس اپنے آپ کو دہراتے دِکھنا شروع ہو گئے تھے۔ ان کے اِرد گرد جمع سیاح ان کی باتیں سن کر خوش ہوتے اور بس۔ امریکا تو اس معاملے میں برطانیہ سے بھی دو ہاتھ آگے ہے۔ یہ ’’کھسکے‘‘ ہوئے لوگوں کو مارکیٹ کر کے فیشن بنا دیتا ہے۔

بیٹلز اور میڈونا کے ساتھ اس نے یہی کچھ کیا۔ سارہ سلورمن ایک یہودن ہے۔ لیکن وہ یہودیوں کے بارے میں بڑے بے باک اور زیادہ تر فحش لطیفے سناتے ہوئے اب ایک Star بن چکی ہے۔ کراچی میں ادبی میلے کا انعقاد کرنے والے مجھے کچھ ایسی ہی مارکیٹنگ کے شوق میں مبتلا نظر آئے۔ کراچی والے میلے کا ’’ادب‘‘ سے واقعی کوئی گہرا رشتہ ہوتا تو کم از کم ایک سیشن تو اس سوال کا جواب ڈھونڈنے میں صرف کیا جانا چاہیے تھا کہ جہلم کے قریبی دینہ میں پیدا ہونے والا سمپورن سنگھ جب گلزار بن کر اپنے آبائی گائوں پہنچتا ہے تو لاہور واپس پہنچ کر اس کا دل کیوں گھبرا جاتا ہے۔ وہ کراچی کے ادبی میلے میں پہنچنے کے بجائے ممبئی واپس کیوں چلا گیا؟ صرف اس سوال پر توجہ مرکوز کر دی جاتی تو شاید کراچی میں جمع علم و ادب کے متوالوں کو یہ بات بھی سمجھ میں آ جاتی کہ وہ جس شہر میں بیٹھے ہیں وہاں بھتہ خوری اور ٹارگٹ کلنگ کیوں ہوتی ہے۔ شاید یہ بات سمجھانے کے لیے کوئی قرۃ العین حیدر کو بھی یاد کر لیتا اور اس ’’ستیا‘‘ کا ذکر کرتا جو ’’بھارت‘‘ سے آ کر ایک شادی میں شرکت کے ذریعے یوپی کے مہاجر عرفان کو ساتھ لے کر ’’سندھ کا دورہ‘‘ کرواتی ہے۔ اسے وہ ’’سندھ‘‘ دکھاتی ہے جو ہم بہت سارے پاکستانی ابھی تک نہیں دیکھ پائے۔

قرۃ العین حیدر کا ذکر ’’ہائوسنگ سوسائٹی‘‘ کی یاد بھی دلا سکتا تھا اور اس بات کی وضاحت بھی کہ کراچی میں ’’پراپرٹی مافیا‘‘ کیسے پیدا ہو کر 2013 تک پہنچتے ہوئے اتنا سفاک بن گیا۔ گلزار اور قرۃالعین حیدر کے درمیان شاید کہیں سعادت حسن منٹو کا ذکر بھی آ جاتا۔ اس کا ذکر چلتا تو شاید ہم یہ بھی یاد کر لیتے کہ قیام پاکستان کے بعد وہ پہلا ادیب تھا جس کو عدالتوں میں صرف اور صرف اس کے افسانوں کی وجہ سے گھسیٹا گیا۔ فیض احمد فیض یقینا انقلابی شاعر تھے مگر جیل ’’پنڈی سازش کیس‘‘ کی وجہ سے گئے تھے کسی نظم یا غزل لکھنے کے جرم میں نہیں۔ وہ جیل میں تھے تو پھر بھی نورجہاں ان کی ’’مجھ سے پہلی سے محبت‘‘ سنا کر فوجی حکمرانوں سے داد وصول کرتی رہی۔ منٹو کو تو ’’فحاشی‘‘ کا الزام لگاکر عدالتوں میں گھسیٹا گیا تھا مگر دیوانے جالبؔ کو کئی بار میری آنکھوں کے سامنے پولیس والوں نے بے دردی سے مارا اور پوری بربریت کے ساتھ گریبان سے پکڑ کر سڑکوں پر گھسیٹا۔ وہ خود تو ساری زندگی ’’رل گیا‘‘ مگر اس کی ’’ایسے دستور‘‘ والی نظم اب پنجاب کے خادم اعلیٰ کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ وہ اسے بڑے جوش سے پڑھتے اور ڈائس پر لگے مائک گرادیا کرتے ہیں۔ کراچی میں ادبی میلہ رچانے والوں کو ایک سیشن ان کے اعزاز میں بھی برپا کرنا چاہیے تھا۔ ’’ادب کے عملی سیاست پر اثرات‘‘ کو سمجھنے کے لیے ۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔