پنجاب میں پیپلز پارٹی: جیت کے کتنے امکانات؟

تنویر قیصر شاہد  منگل 19 فروری 2013
tanveer.qaisar@express.com.pk

[email protected]

15 فروری 2012 کو پیپلز پارٹی کے 9 اورق لیگ کے 2 ارکان اسمبلی نون لیگ میں شامل ہو گئے۔ عظمیٰ بخاری، کامل گجر، جاوید علائوالدین، نشاط ڈاہا، قیصر سندھو، رانا بابر، جمیل شاہ، عباس ہراج اور منور غوث ارکان پنجاب اسمبلی تھے جو پیپلز پارٹی کو چھوڑ گئے۔ دیوان عاشق بخاری اور پیر اسلم بودلہ قومی اسمبلی کے رکن تھے جنہوں نے آصف علی زرداری سے ناتہ توڑ کر نواز شریف سے سیاسی رشتہ جوڑ لیا۔ کسی سیاسی جماعت، اور وہ بھی مقتدر سیاسی جماعت سے گیارہ ارکان کا ایک ہی روز نکل کر حریف جماعت میں شامل ہو جانا غیر معمولی واقعہ قرار دیا جانا چاہیے۔

لاریب مقتدر پیپلز پارٹی اور اس کے شریک چیئرمین کو اس اقدام نے بہت بڑا دھچکا پہنچایا ہے۔ ’’جادوگر‘‘ منظور احمد وٹو صاحب کو پنجاب میں پیپلز پارٹی کی صدارت و قیادت بخش کر جو بلند توقعات وابستہ کی گئی تھیں، اس واقعہ کے بعد وہ ریت کا گھروندا ثابت ہوئی ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ واقعہ ہوا کیوں؟ عظمیٰ بخاری صاحبہ ایسی کمٹڈ اور دلیر جیالی، جنہوں نے ہر فورم پر پنجاب میں پیپلز پارٹی کا دفاع کیا، نے اس لمحہ جدائی پر چیخ کر کہا: ’’ہم نے اپنا سب کچھ پیپلز پارٹی پر قربان کر دیا لیکن پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے ہمیں نظراندازی کی قربان گاہ پر قربان کر دیا۔‘‘

موجودہ وفاقی حکومت کے نقاد الزام لگاتے ہیں کہ پیپلزپارٹی کی حکومت نے سرکاری ملازمتیں فروخت کرکے اپنی جیبیں تو بھر لیں لیکن پارٹی کارکنان اور اہل جیالوں کو نوکریوں سے محروم رکھا۔ ہم اِس الزام کی تصدیق یا تردید میں نہیں پڑتے لیکن دیکھنے والی بات یہ ہے کہ جب شہید بی بی اقتدار میں آئیں تو انھوںنے پارٹی ورکرز میں ملازمتیں تقسیم کیں تو اِس کا طریقۂ کار کیا تھا؟ بی بی صاحبہ کے دورِ اقتدار میں ’’پلیسمنٹ بیورو‘‘ کے تحت پورے پاکستان میں سرکاری نوکریاں دی جاتی تھیں۔ ہر قسم کی سرکاری ملازمتیں اِس بیورو میں اکٹھی کی جاتی تھیں اور پھر وہاں سے نہایت احتیاط کے ساتھ ضلع و تحصیل کی سطح پر پارٹی تنظیموں کو کوٹہ دیا جاتا تھا۔ اِس پر احسن انداز میں کام ہوا، اگرچہ شکایتیں تو سامنے آئیں لیکن ان کی تعداد کم تھی۔

موجودہ حکومت میں بھی اس بیورو کا وجود تو تھا لیکن صوبہ پنجاب میں پی پی پی کے سابق صدر (فیصل آباد سے تعلق رکھنے والے رانا آفتاب صاحب) اِس میں سے مستحق جیالوں کے لیے یہ ملازمتیں حاصل کرنے میں نہ صرف ناکام رہے بلکہ انھوں نے اِس حوالے سے پارٹی کے سینئر ارکان کے فیصلوں کو بھی منسوخ کر دیا۔ اِس بیورو کے سربراہ (جاموٹ شاہ) بھی ہٹا دیے گئے۔ اب یہ پلیسمنٹ بیورو ہی ختم کیا جا چکا ہے۔ جیالوں اور پارٹی ورکرز جنہوں نے اپنا سب کچھ بھٹو کی محبت میں پارٹی پر لٹا دیا، کواگر اپنی ہی حکومت میں ملازمتوں کی شکل میں پارٹی کی محبت نہ مل سکی تو آیندہ انتخابات کے دوران پارٹی کو اِن جیالوں اور کارکنان کی محبتیں کہاں سے مل سکیں گی؟

یوں لگتا ہے جیسے پنجاب میں پیپلز پارٹی کی قیادت نے پارٹی کو دانستہ نظرانداز کیے رکھا ،حالانکہ یہی پنجاب بھٹو صاحب اور بی بی صاحبہ کا گڑھ اور قلعہ رہا ہے لیکن پی پی پی کی سینئر قیادت کی غفلت سے اِس کا بھٹہ بیٹھ چکا ہے۔ ویسے غلط فہمی میں رہنا اور اپنی غلطیوں کے باوجود بلند توقعات قائم رکھنے میں کوئی حرج ہے نہ گناہ۔ لاہور سیاست کا مرکز ہے (اسی وجہ سے تو جناب زرداری کو مجبوراً یہاں ڈیرے ڈالنے پڑے ہیں) لیکن پی پی پی لاہورسمیت پورے پاکستان میں کوئی بڑا پراجیکٹ شروع نہ کر سکی۔ یہ محترمہ ثمینہ خالد گھرکی، جو وفاقی وزیر ہیں، گزشتہ پانچ برسوں کے دوران لاہور میں پارٹی ورکرز کے لیے کیا کر سکی ہیں؟اِس کے مقابل مسلم لیگ (ن) نے صرف لاہور میں تقریباً ایک سو ارب روپے کے میگا پراجیکٹ شروع کر رکھے ہیں۔

کیا یہ بھی المیہ نہیں ہے کہ گوجرانوالہ میں امتیاز صفدر وڑائچ کی جگہ سٹی پریذیڈنٹ کا عہدہ ڈیڑھ برس تک خالی رہا لیکن پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت کو اِس کی پروا ہی نہ رہی۔پنجاب میں پیپلز پارٹی نے ہر وہ کام کیا، جس کے مشاہدے سے یہ احساس اُبھرتا ہے کہ پارٹی میں لاپرواہی کا عنصر غالب ہے۔ مثال کے طور پر تقریباً دو ماہ قبل بی بی صاحبہ کی برسی کا موقع آیا تو فیصلے کے مطابق 21 دسمبر 2012 کو لاہور میں گورنر ہائوس کے اندر ایک اہم میٹنگ ہونا تھی جس میں یہ طے کیا جانا تھا کہ 27 دسمبر (بی بی صاحبہ کی شہادت) کے حوالے سے قافلوں کی ترتیب اور کارکنان کی شرکت کس نہج میں کی جائے گی۔ اِس میٹنگ کی کی صدارت جناب منظور احمد وٹو نے کرنا تھی۔ اچانک گورنر پنجاب کی تبدیلی عمل میں آ گئی اور وٹو صاحب نے بریفنگ بھی منسوخ کر دی حالانکہ اُنھیں اِس کے برعکس کردارادا کرنا چاہیے تھا ۔

پنجاب کے حوالے سے پیپلز پارٹی کے مقتدر قائدین نے جو فیصلے کیے، پنجاب کو جس طرح نظر انداز کیے رکھا، اب نتائج بھگتنے کے دن قریب آ گئے ہیں۔ قومی اسمبلی میں پی پی پی کے 124 ارکان منتخب ہو کر آئے لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ پی پی پی کے جو امیدوار 2008 کے عام انتخابات میں ہار گئے تھے، اُنھیں مرکزی حکومت کی طرف سے کتنے فنڈز جاری کیے گئے تاکہ اپنے حلقوں میں پی پی پی کے ووٹروں کو یکجا بھی رکھا جا سکے اور مقامی سطح پر ڈویلپمنٹ کے کام بھی جاری رہتے جن کا ثمر اب ملتا۔ اِس پہلو کو بھی مسلسل نظراندازکیا گیا۔کیا یہی جیتے ہوئے 124 لوگ اب سارے ملک میں پیپلز پارٹی کا کامیاب الیکشن لڑیں گے؟ پوچھنے والے پوچھتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کے کتنے اور کون کون سے وفاقی وزراء ہیں جو اِس پانچ سالہ دورِاقتدار میں اپنے حلقے کے علاوہ کسی اورسے ملے؟ کتنے ہیں جنہوں نے پنجاب میں پیپلز پارٹی کے کسی چھوٹے بڑے نئے دفتر کا افتتاح کیا اور پرانے دفاتر کا دورہ کیا؟

یہ حقیقت اب تقریباً دیوار پر لکھی جا چکی ہے کہ آیندہ دو تین ماہ کے دوران ہونے والے قومی انتخابات میں پنجاب پیپلز پارٹی کو بہت ٹف ٹائم ملنے والا ہے ۔پنجاب میں رواں لمحوں میں پی پی پی کی حیثیت اور حقیقت کیا ہے، اِس کا ایک جواب تودو ماہ پہلے ہونے والے ضمنی انتخابات میں پیپلز پارٹی کو واضح طور پر مل گیا تھا۔ یہ ہماری مختصر سی تاریخ کا پہلا ضمنی انتخاب تھا جب پنجاب میں پیپلز پارٹی کہیں نظر نہ آئی۔ اِن ضمنی انتخابات میں پی پی پی کو سب سے زیادہ دھچکا پنجاب میں سیالکوٹ حلقے میں پہنچا۔ سیالکوٹ سے پیپلزپارٹی کے تین وزیر رہے: عبدالرحمان ملک، ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان اور (صوبائی وزیر) ڈاکٹر تنویرالاسلام۔ رحمان ملک صاحب کا اپنا کوئی حلقہ خیر سے ہے ہی نہیں۔ نتیجتاً وہ سیالکوٹ میں پی پی پی کا دست و بازو کیوں بنتے؟ لیکن اگر وہ اپنے آبائی ضلع میں پارٹی کارکنان کی دستگیری فرماتے تو یقیناً اب انتخابات میں اِس کے مثبت نتائج نکلتے۔ اِس کمزوری سے ملک صاحب خود بھی آگاہ ہیں۔ہاں ڈاکٹر فردوس صاحبہ اپنے حلقے میں پورے پانچ سال سرگرم رہی ہیں۔ وہ ہر مہینے کے ہر ہفتے کے اختتام پر ہفتہ، اتوار اور سوموار اپنے حلقے میں اپنے ووٹروں کی خوشی غمی میں تسلسل کے ساتھ شریک رہیں۔ اس کا اُنھیں یقینااب پھر پھل ملنے والا ہے کہ وہ نہایت تگڑی اور پاپولر امیدوار ہیں۔ ڈاکٹر تنویر الاسلام کا کردار تو صفر رہا ہے۔

ہاں، پیپلز پارٹی کا جیالا کارکن غلام عباس، جو ایک بار صوبائی وزیر بھی رہا ہے، اپنے حلقے میں خوب سرگرم رہا ہے، اگرچہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت اُسے مسلسل نظرانداز کرتی رہی اور اُنھیں قریب تک پھٹکنے نہ دیا گیالیکن وہ اس کے باوجود ٹوٹ کر کہیں نہ گیا۔ یکسُو ہو کر پارٹی سے جڑا رہا اور اب بھی اسی پارٹی کے قصیدے پڑھتا ہے۔ ضلع سیالکوٹ میں مقتدر پیپلز پارٹی نے غفلت اور نظراندازی کے’’ جو گناہ ‘‘کیے، اسی کارن وہ ضمنی انتخابات میں بہت بری طرح شکست کھا گئی تھی۔ پیپلز پارٹی کی اس سے زیادہ مزید بدقسمتی کیا ہو سکتی ہے کہ اسی علاقے میں اسے چوہدری طارق انیس (جس کے گھر میں تین ارکانِ اسمبلی ہیں) ایسا قابل سیاستدان ملا لیکن مرکزی اقتدار پر بیٹھنے والوں نے اُسے بھی نظرانداز کیے رکھا۔ انھیں وزارت تو دی لیکن آدھی۔ ہائوسنگ کا وزیر مملکت لیکن اس کے باوصف چوہدری طارق انیس اپنے حلقے میں پیپلز پارٹی اور ق لیگ کے ترانے گاتے رہے۔ اکیلے چوہدری طارق انیس نے اپنے حلقے میں عوام الناس کے لیے جتنے ترقیاتی کام کروائے، ضلع نارووال اور ضلع سیالکوٹ میں پیپلز پارٹی کے تمام سیاستدان مل کر بھی اپنے اپنے حلقوں میں اتنے کام نہ کروا سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔