اٹھیے بس اب، کہ لذت خواب سحر گئی

رسول احمد کلیمی  منگل 19 فروری 2013
rkaleemi@hotmail.com

[email protected]

مستقبل کے بارے میں پیش گوئی کرنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ مستقبل کو خود تخلیق کیا جائے۔ یہ کام مشکل ہے مگر جرأت مند اور بہادر لوگوں کے لیے نہیں۔ کیونکہ جرأت اور بہادری بے خوف ہونے کا نام نہیں بلکہ خوف و خطر کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت کا نام ہے۔ اور اپنے اندرونی اور بیرونی کوائف، صلاحیتوں، حالات و واقعات اور مشکلات سے مکمل اور سچی آگاہی کے بغیر اس صلاحیت کا پیدا ہونا ممکن نہیں۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اپنے ماضی قریب کے تجربوں اور حال کی سفاکیوں سے نبرد آزما ہونے میں ہم اس قدر الجھ گئے ہیں کہ مستقبل کا تصور کرنے سے بھی بے خبر اور بے نیاز ہو چکے ہیں اور غالباً اسی لیے اندرونی اور بیرونی صورت حال کا صحیح ادراک کرنے کی کوئی امنگ، کوئی خواہش ہم میں بیدار نہیں ہوتی۔

ایک طرف ہم ایک بدترین جمہوری دور کی کامیاب تکمیل کا جشن منانے کے لیے بے خود و سرشار ہو رہے ہیں، دوسری جانب 2013 میں صاف، شفاف الیکشن کے لیے بے تاب و بے قرار۔ اس میں ہمیں ہزار وسوسوں، بدگمانیوں اور واہموں کا سامنا ہے، ایک طرف ڈاکٹر قادری ایک بلائے بے درماں کی طرح حالات حاضرہ سے بغل گیر ہو گئے ہیں تو دوسری جانب جنرل (ر) پرویز مشرف وقتاً فوقتاً میڈیا کے ذریعے ہمارے سیاستدانوں اور تجزیہ کاروں کو اکسانے کے لیے ’’یاد دلواتے ہیں وہ یوں میرا افسانہ مجھے، گاہے گاہے کہہ دیا کرتے ہیں دیوانہ مجھے‘‘ کے مصداق کوئی ایسا بیان یا فرمان داغ دیتے ہیں کہ پہلے سے مضطرب اور ہیجان زدہ سیاسی تالاب میں ایک اور اضطرابی دائرے کا اضافہ ہو جاتا ہے۔

بین الاقوامی تعلقات کے محاذ پر ہماری تمام تر کارکردگی ہندوستان سے تجارتی اور ثقافتی تعلقات میں کسی ہدف یا سمت کا تعین کیے بغیر ایک نیم دروں، نیم بروں قسم کی کارکردگی تک محدود ہے۔ باقی تمام محاذوں پر ہم مسلسل گھس بھی رہے ہیں اور پٹ بھی رہے ہیں۔ قوم ہے کہ فلاکت اور ہلاکت سے نیم جاں ہے اور حکومت اور اس کے کارندے ہیں کہ ’’آرایش جمال سے فارغ نہیں ہنوز‘‘ کی صورت دونوں ہاتھوں سے دولت اور بد دعائیں سمیٹنے میں مصروف ہیں۔ ادھر عالمی بساط سیاست پر ایک نیا کھیل شروع ہونے کو ہے، جس کا آغاز اس شیرازہ بندی کے ساتھ ہو چکا ہے جو 2014 میں افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلا کے باقاعدہ اعلان سے پہلے ہی آراستہ ہونے لگی تھی۔ اس عمل اور رد عمل کے درمیان، آیندہ کئی برسوں تک ہمارے لیے بہت سے مسائل فکر مندی اور پریشانی کے اسباب پوشیدہ ہیں۔ افغانستان میں برپا ہونے والی صورت حال اور اس تمام قضیے میں امریکا اور ہندوستان کا کردار پاکستان کے اندرونی حالات و معاملات پر براہ راست اثرانداز ہو گا۔

موجودہ کیفیت یہ ہے کہ تمام تر خوش گمانیوں کے باوجود افغانستان پر امریکا کی گرفت بہت مضبوط نہیں ہے۔ لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکی فیصلے اور بندوبست نہ صرف افغانستان بلکہ پورے خطے پر فیصلہ کن انداز میں اثرانداز ہوتے رہے ہیں اور آیندہ بھی ہوں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ کرپشن، سنگین جرائم، زمینوں پر ناجائز قبضہ، مالی بدعنوانیوں، اقربا پروری، قانون شکنی اور پسندیدہ مفاد پرست گروہوں کی سرپرستی، افغانستان کے سیاسی نظام کا لازمی جزو بن چکے ہیں۔ اگرچہ یہ سیاسی نظام پورے کر و فر سے افغانستان میں تقریباً ایک دہائی سے مسلط ہے مگر اطلاعات یہی ہیں کہ اس پورے سیاسی بندوبست کو افغانیوں کی اکثریت جائز اور درست خیال نہیں کرتی۔ اگر حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو اندازہ ہوتا ہے کہ امریکا کا یہ دعویٰ کہ اتحادی افواج کو ہلمند اور قندھار کے علاقوں میں واضح کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں کچھ زیادہ غلط معلوم نہیں ہوتا۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ ان علاقوں میں 2009 سے ہی بھاری مقدار میں امریکی امداد پہنچائی گئی ہے۔

اس سے یہ فائدہ تو ضرور ہوا کہ وہاں جاسوسی نظام مضبوط ہوا اور پاور بروکرز کے ذریعے مطلوبہ نتائج کا حصول آسان اور بہتر ہو گیا، لیکن خبریں اس امر کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ امداد کے سیلاب نے علاقے میں معاشی استحکام کے بجائے معاشی ابتری اور معیشت میں بے راہ روی کی کیفیت پیدا کر دی ہے۔ چنانچہ یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ علاقہ جہاں بادی النظر میں امریکا کو سب سے زیادہ کامیابیاں حاصل ہوئی ہیں وہیں انتشار اور پراگندگی کے امکانات سب سے زیادہ نظر آتے ہیں۔ دوسری جانب امریکا بہ تکرار اپنی اس پریشانی کا اظہار کرتا رہا ہے کہ مشرقی افغانستان میں حقانی گروپ سرگرم عمل ہے اور اس علاقے میں جنگ فیصلہ کن نتیجے کے بغیر تقریباً برابری کی بنیاد پر لڑی جا رہی ہے، امریکا کی یہ تشویش بھی ڈھکی چھپی نہیں کہ حقانی گروپ کو پاکستانی سرحدی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔

کچھ رپورٹیں اس بات کی بھی نشاندہی کرتی ہیں کہ شمال کے کچھ حصوں، مثلاً بلخ میں امریکا کی گرفت مضبوط اور مستحکم ہے مگر ساتھ ہی یہ تشویشناک خبریں بھی آ رہی ہیں کہ ان ہی علاقوں، اور بالخصوص قندوز اور بقلان میں شدید نسلی محاذ آرائی میں روزبروز اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ صورت حال بھی بہت زیادہ امید افزا نہیں کیونکہ یہ بات شدت سے محسوس کی جا رہی ہے کہ افغانیوں کی اکثریت موجودہ مافیا طرز حکمرانی سے نہ صرف متنفر اور بے زار ہے بلکہ جان و مال کی حفاظت اور حصول انصاف کے ساتھ اس کی یہ خواہش بھی شدید ہے کہ موجودہ حکمران ٹولے کا سخت ترین احتساب کیا جائے۔ خوف یہ بھی ہے کہ افغان آرمی کے کابل اور چند دوسرے بڑے شہروں پر قابض ہونے کے باوجود طالبان جنوبی اور مشرقی افغانستان پر قابض رہنے کی پوری صلاحیت رکھتے ہیں۔ ایسے غیر یقینی حالات میں یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ افغانستان میں مجوزہ 2014کے الیکشن کوئی مستحکم قیادت یا بہترین طرز حکمرانی لانے کے بجائے مزید انتشار اور باہمی ٹکراؤ کو جنم دیں گے۔

ساتھ ہی یہ خدشہ بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ افغان نیشنل سیکیورٹی فورسز بین الاقوامی مدد کے طفیل مضبوط تو ضرور ہوئی ہیں مگر امریکا کی واپسی کے ساتھ ہی، فرقے اور زبان کی بنیاد پر ان کا مختلف گروہوں میں تقسیم ہو جانا یقینی ہے۔ ان حالات میں مستقبل میں امریکا کی ترجیحات کے بارے میں پیش گوئی کرنا نسبتاً آسان ہے، مگر ہمیں اپنا مستقبل تخلیق اور تعمیر کرنا ہو گا۔ امریکا ہر قیمت پر اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے افغانستان کو معاشی، سیاسی اور امن عامہ کے کسی بھی ممکنہ انتشار اور خانہ جنگی کے بحران سے محفوظ رکھنا چاہے گا۔ اس کی یہ کوشش بھی شدید ہو گی کہ القاعدہ کو دوبارہ منظم ہونے اور طالبان گروہوں کے اشتراک سے، کوئی بھی کارروائی کرنے کے امکانات کو ختم کر دیا جائے۔ وہ بوجوہ پاکستان کے قبائلی علاقوں پر گہری نظر رکھنا چاہے گا اور بوقت ضرورت ڈرون کے علاوہ بھی فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔

خیال کیا جاتا ہے کہ وہ اس کارروائی کے لیے ایک یا اس سے زیادہ فوجی اڈے افغان علاقوں میں واپسی کے بعد بھی قائم رکھے گا۔ یہ بات بھی اب عیاں ہو چکی ہے کہ مستقبل کے تمام منصوبوں کی کامیابی کے لیے طالبان کی مدد اور اشتراک ضروری ہے۔ یہ بات بھی خارج از امکان نہیں کہ امریکا کسی بھی مرحلے پر ہندوستان کو افغانستان میں کوئی اہم کردار ادا کرنے کے لیے منتخب کر لے۔

غرض کہ افغانستان میں آیندہ چند برسوں میں عملاً وقوع پذیر ہونیوالے واقعات کی کسی زاویے سے منظر کشی کی جائے، پاکستان کے لیے خطرات اور چیلنجز بہر صورت ابھر کر سامنے آتے ہیں۔ پاکستان پہلے ہی ہر محاذ پر سنگین ترین مسائل سے دو چار ہے اور حالات کو مزید ابتری کا شکار ہونے سے ہر قیمت پر روکنا پاکستان کی بقا کے لیے انتہائی اہم ہے۔ اور اس کے لیے ایک مضبوط اور دور اندیش دیانت دار قیادت اور انتہائی ماہرانہ منصوبہ بندی اور حکمت عملی ناگزیر ہے۔ ہمارا خیال ہے کہ تاریخ نے قوم کو ایک بار پھر ایک ایسے موڑ پر کھڑا کر دیا ہے جہاں قائد اعظم کے الفاظ اور ارشاد ’’اتحاد، تنظیم اور یقین محکم‘‘ کی کڑی کسوٹی پر اسے ایک سخت امتحان سے گزرنا ہے۔ اور وہ بازی کھیلنی ہے جس میں ہارنے کی گنجائش نہیں ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔