وزیر خارجہ کا تقرر

شکیل فاروقی  منگل 12 ستمبر 2017
S_afarooqi@yahoo.com

[email protected]

پاکستان جس وقت معرض وجود میں آیا، اس وقت دنیا طاقت کے دو بلاکوں میں بٹی ہوئی تھی۔ امریکی بلاک اور سوویت یونین پر مشتمل روسی بلاک۔ حالات کا تقاضا یہ تھا کہ اس معاملے میں روس یعنی سوویت یونین کو ترجیح دی جائے چنانچہ اس سلسلے میں سفارتی کوششوں کا آغاز کیا گیا جس کے لیے محمد شعیب جیسے ذہین اور زیرک شخص کا انتخاب کیا گیا۔

ادھر انڈین لابی ماسکو میں اپنے پنجے گاڑے ہوئے تھی اور سوویت اعلیٰ قیادت کو رام کرنے میں روز و شب مصروف تھی۔ پاکستانی سفارت کاروں کے لیے یہ بڑا سنگین چیلنج تھا لیکن اس کے باوجود وزیراعظم پاکستان لیاقت علی خان کے دورہ روس کا دعوت نامہ حاصل کرلیا گیا۔ مگر بد قسمتی سے اس مجوزہ دورے کی تاریخ پاکستان کی آزادی کی سالگرہ سے متصادم ہوگئی جس کے بعد روسی حکومت سے نئی تاریخ طے کرانے کے لیے رجوع کیا گیا لیکن بوجوہ یہ کوشش کامیاب نہ ہوسکی اور وزیراعظم لیاقت علی خان کو حالات کے تقاضوں کی وجہ سے امریکا سے روابط قائم کرنے کے لیے مجبور ہونا پڑا۔ یوں امریکا پاکستان تعلقات کا آغاز ہوا جن میں بڑی گرم جوشی تھی۔

امریکا کے اس دور کے تقاضوں کے اعتبار سے پاکستان کا جغرافیائی محل و وقوع بہت زیادہ اہم تھا جس وجہ سے پاکستان ہی اس کی خاص نظرِ عنایت تھی۔ چنانچہ اسے بڑے پیمانے پر مختلف قسم کی امداد ملی جس میں فوجی امداد سر فہرست تھی۔ امریکا کے مفاد میں بہت سے فوجی معاہدے بھی ہوئے جن میں پاکستان بھی شامل رہا۔ دریں اثنا بھارتی وزیراعظم نہرو نے غیر وابستہ تحریک کا ناٹک بھی رچایا اور سوویت بلاک کی قربت سے بھی خاطر خواہ فائدہ اٹھایا یعنی:

رند کے رند رہے ہاتھ سے جنت نہ گئی

اس کے بعد بھارت نے روس کے ساتھ خوب پینگیں بڑھائیں اور روسی قائدین مارشل بلگانن اور نکیتا خروشچیف نے دلی کی تاریخی یاترا کی۔ جس میں ان دونوں سوویت رہنماؤں کا پر زور سواگت کیا گیا اور اس وقت کی دو بھارتی نام ور اداکاراؤں و جینتی مالا اور پدمنی کو ان کی ’’خاطر تواضح‘‘ کے لیے خاص میزبانی کے لیے مامور کیا گیا کیونکہ چانکیہ کی ڈپلومیسی میں جائز و ناجائز کی کوئی تمیز نہیں اور اپنا ہدف حاصل کرنے کے لیے ہر حربہ آزمانے کی کھلی اجازت ہے۔ مطلب یہ کہ اپنا الو سیدھا کرنے کے لیے کچھ بھی کیا جاسکتا ہے۔ سوویت یونین کے ساتھ بھارت کا بیس سالہ دفاعی معاہدہ ان ہی کوششوں کا ثمر تھا۔

دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے دریغ قربانیاں دی ہیں جس کے نتیجے میں 70 ہزار سے بھی زیادہ جانوں کا نذرانہ پیش کیا جاچکا ہے اور ہزاروں لوگ زخمی ہوچکے ہیں،100بلین ڈالر کا مالی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ افغان جنگ کی وجہ سے ہی پاکستان طالبان کا نشانہ بنا ہوا ہے اور نقصان پر نقصان اٹھارہا ہے۔

دہشت گردی کی وجہ سے ہی پاکستان کی انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہوئی ہے اور سیاحت کا زبردست آمدنی والا شعبہ بھی بری طرح متاثر ہوا ہے جس کا کوئی ذکر ہے نہ شمار۔ دہشت گردی نے ہمارا قبائلی علاقوں میں قیامت خیز تباہی اور بربادی مچائی ہے جس کے نتیجے میں 20 فی صد آبادی نہ صرف بے گھر اور در بدر ہوئی ہے بلکہ مال مویشی کا بھی ناقابل تلافی بھاری نقصان ہوا ہے۔

سب سے بڑھ کر وہ بے دریغ قربانیاں ہیں جو پاکستانی سیکیورٹی فورسز نے پیش کی ہیں جن کا کوئی مواد نہیں ہوسکتا مگر امریکی ٹرمپ نے ایک سانس میں پاکستان کے سب کیے دھرے پر نہ صرف پانی پھیر دیا بلکہ ’’الٹا چور کوتوال کو ڈانٹے‘‘ والی کہاوت کا اعادہ کیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کو افغانستان کی جنگ اور وہاں کی سیاسی نزاکتوں کا کوئی علم اور اندازہ ہی نہیں ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب نیٹو کی ڈیڑھ لاکھ سے زائد افواج افغانستان میں قیام امن میں ناکام ہوگئیں تو اب مزید تین چار اضافی فوجی وہاں بھیجنے سے بھلا کونسا فرق پڑ جائے گا؟ مگر ٹرمپ جیسے ہٹ دھرم شخص کو بھلا اتنی سی بات کون سمجھائے۔

صدر ٹرمپ نے اپنی گزشتہ 21 اگست کی تقریر میں پاکستان کے خلاف بے نظیر الزام تراشی کرکے احسان فراموشی کا گھناؤنا کردار ادا کرکے اپنی اوقات بتانے کے سوائے اور کچھ نہیں کیا۔ مگر پاکستان کی حکمران قیادت کا رد عمل درج ذیل شعر کے مصداق تھا

کتنے شیریں ہیں تیرے لب کے رقیب
گالیاں کھا کے بے مزہ نہ ہوا

ایک سروے کے مطابق 65 فی صد امریکی عوام امریکا کے افغان جنگ میں ملوث ہونے کے خلاف ہیں چونکہ اس سے کوئی فائدہ حاصل ہونے کے بجائے امریکا کی معیشت بری طرح متاثر ہورہی ہے اور دنیا بھر میں امریکا کی ساکھ کو نقصان الگ پہنچ رہا ہے۔ امریکی صدر کی حکمت عملی قطعی غیر منطقی اور عاقبت نا اندیشی پر مبنی ہے کیونکہ آج سے تقریباً ایک ماہ قبل ہی امریکی وزیر دفاع جیمز سٹین نے کھلے عام یہ اعتراف کیا تھا کہ امریکا افغانستان میں جیت نہیں رہا اور وہاں کے حالات بد سے بد تر ہو رہے ہیں۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ افغان حکمرانوں اور امریکیوں کو افغانستان پر کنٹرول حاصل نہیں ہے۔ زمینی حقائق بتاتے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کا 40 فی صد سے بھی زیادہ علاقہ افغان طالبان کے زیر نگیں ہے جس میں کوئی کمی آنے کے بجائے اضافہ ہی ہو رہا ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ جب تک افغانستان کے مسئلے کے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں نہیں لیا جائے گا تب تک مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ صدر ٹرمپ کی نئی افغان حکمت عملی کے نتیجے میں امریکا افغانستان کی دلدل سے نکلنے کے بجائے وہ اس میں مزید دھنستا چلا جائے گا۔

وقت اور حالات نے اس تاثر کو بالکل غلط ثابت کردیا ہے کہ امریکا پاکستان کا ہمدرد یا دوست ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آزمائش کی ہر گھڑی میں امریکا نے پاکستان کو مایوس ہی کیا ہے۔ 1962 میں جب بھارت نے چین کے خلاف جارحیت کا ارتکاب کیا تھا تب پاکستان اگر چین کی حمایت میں کود پڑتا تو شاید مقبوضہ کشمیر کا قصہ بھی پاک ہوجاتا لیکن اس وقت امریکا کے دباؤ کی وجہ سے پاکستان نے کوئی قدم اٹھانے سے گریز کیا۔

اس کے نتیجے میں مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ کے لیے حل کرنے کا ایک نادر موقع پاکستان کے ہاتھوں سے نکل گیا۔ اس کے بعد 1965 کی پاک بھارت جنگ کے موقع پر بھی امریکا نے پاکستان کو ٹھینگا دکھادیا جس کی وجہ سے پاکستان کو بڑی مایوسی سے دو چار ہونا پڑا۔ پھر جب 1971کا معرکہ پیش آیا تو امریکا نے پاکستان کی مدد کے لیے مشرقی پاکستان کے دفاع کے لیے اپنا بحری بیڑہ بھیجنے کا وعدہ کیا۔ لیکن امریکا نے اس مرتبہ بھی اپنی پرانی روش برقرار رکھی۔ نتیجتاً امریکی بیڑے کی آمد کے انتظار میں وطن عزیزکا بیڑہ غرق ہوگیا اور مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا۔ امریکا کی دوستی پر حفیظ جالندھری کا یہ شعر حرف بہ حرف صادق آتا ہے۔

دیکھا جو کھاکے تیر کمیں گاہ کی طرف
اپنے ہی دوستوں سے ملاقات ہوگئی

امر واقعہ یہ ہے کہ امریکا نہ کبھی پاکستان کا دوست تھا  نہ اب ہے اور نہ ہی آیندہ کبھی ہوگا۔ قصور ہمارا اپنا ہی ہے۔اصل صورتحال یہ ہے کہ امریکی ایوان نمایندگان نے ہر سال پاکستان کی امداد میں کٹوتی کرنے کو ایک مستقل روایت بنالیا ہے۔ دوسری جانب امریکی سینیٹ بھی ہمارے ساتھ عدم ہمدردی کا رویہ اختیار کیے ہوئے ہے۔

اس سلسلے کا آغاز سینیٹر کارل لے ون نے 2015 میں پاکستان کے لیے امریکی فوجی امداد میں اس بہانے کی آڑ لے کر قانون میں ترمیم کے ذریعے کیا تھا کہ اگر پاکستان حقانی نیٹ ورک کے خلاف کافی کارروائی کرنے میں ناکام ہوگیا تو اس کی فوجی امداد روک دی جائے گی۔ امریکی پارلیمان جوکہ کانگریس کہلاتی ہے امریکا کا سب سے طاقتور ادارہ ہے۔

امریکی امداد یا پابندیوں کے سلسلے میں اس کا فیصلہ حرف آخر کی حیثیت رکھتا ہے لیکن بد قسمتی سے اس ادارے کے ساتھ پاکستان کے تعلقات اچھے نہیں رہے۔ اسے ہماری سفارت کاری کی ناکامی بھی کہا جاسکتا ہے۔ اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کیونکہ جب ہی کوئی وزارت خارجہ کا قلمدان ہی عرصہ دراز تک خالی پڑا رہا ہو تو اور کسی کو بھلا کیا دوش دیا جائے۔

تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ ہم گزشتہ سات ماہ کے عرصے میں ٹرمپ انتظامیہ کے ساتھ بامقصد روابط قائم نہیں کرسکے جوکہ ہماری خارجہ پالیسی کی بہت بڑی ناکامی ہے۔ اس غلطی یا غفلت کا اصل ذمے دار کون ہے؟ اس سوال کا جواب ایک عام پاکستانی بھی با آسانی دے سکتا ہے شکر کا مقام ہے کہ ہمارے نئے مگر عارضی وزیراعظم نے ایک وزیر خارجہ مقرر کرکے خلا کو پر کردیا ہے کچھ نہ ہونے سے کچھ ہونا  بہتر ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔