مسلم امہ ہوش میں آئے!

عابد محمود عزام  منگل 12 ستمبر 2017

میانمار میں روہنگیا مسلمانوں پر بدترین انسانیت سوز مظالم کے بعد ایک بار پھر یہ سوال سامنے آن کھڑا ہوا ہے کہ مسلم امہ کہاں ہے؟ برما میں اس وقت مسلمانوں کو جس بے دردی کے ساتھ قتل کیا جا رہا ہے، ان مظالم کا صرف تصور ہی رونگٹے کھڑے کردینے کے لیے کافی ہے۔

روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کے متعلق سوشل میڈیا کے ذیعے جو معلومات مل رہی ہیں وہ دل دہلا دینے والی ہیں۔ ان پر ٹوٹنے والی قیامت کے تصور ہی سے دل کانپ اٹھتا ہے اورکلیجہ منہ کو آتا ہے۔ مسلم ممالک میں روہنگیا مسلمانوں کے مسئلے کو مسلمانوں کا مسئلہ توکہا جا رہا ہے، لیکن اسے حل کرانے کے لیے موثر عملی اقدامات کہیں نظر نہیں آ رہے۔

مسلم ممالک کی جانب سے برمی حکومت کے ساتھ سفارتی سطح پر بھرپور کوشش کرنے کی ضرورت ہے، جو نہیں کی جا رہی۔ دنیا بھر میں ان مظالم پر عوامی سطح پر بھرپور احتجاج تو ہورہا ہے، لیکن حکومتی سطح پر تقریباً خاموشی یا غیر موثر بیان بازی کے سوا کچھ نہیں ہورہا۔ میانمار کے صوبے راکھین میں مجبور و بے کس مسلمانوں پر ہونے والے مظالم میں شدت آتی جارہی ہے، ان کے ساتھ خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ ان کی بستیوں کے ساتھ ساتھ لاشیں بھی جل رہی ہیں۔

میانمار کی درندہ فوج سے جان بچا کر روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد ہجرت کرچکی ہے۔ گزشتہ پندرہ روز میں صرف بنگلہ دیش میں پہنچنے والوں کی تعداد اڑھائی لاکھ سے تجاوز کرچکی ہے، لیکن مظالم کے اس کربناک المیے کا مداوا کرنے والا کوئی نہیں۔ حقوق انسانی کی علمبردار تنظیمیں بے بس نظر اور عالمی طاقتیں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں۔

2013ء میں اقوام متحدہ نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی ان قوموں میں شمار کیا تھا ، جن کی سب سے زیادہ نسل کشی کی جا رہی ہے اور روہنگیا کو دنیا کی مظلوم ترین قوم قرار دیا تھا، لیکن کیا صرف ان کو مظلوم قرار دینے سے مسئلہ حل ہوجائے گا یا صرف مظلوم قرار دینا ہی اقوام متحدہ کی ذمے داری ہے؟ ہرگز نہیں، بلکہ مظلوم ثابت ہوجانے کے بعد تو پر روہنگیا مسلمانوں پر ہونے والے مظالم رکوانا، ان کو بنیادی حقوق دلوانااور ان کی مدد کرنا اقوام متحدہ پر فرض ہوچکا ہے۔ 1982ء سے روہنگیا مسلمانوں کو برما کی شہریت سے محروم کردیا گیا تھا، جس کے بعد سے ان کو انسانی سہولیات تک میسر نہیںہیں اور وہ لوگ میانمار میں غلاموں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔

میانمار فوج اور حکومت کی جانب سے وقتاً فوقتاً کوئی بہانہ بنا کر ان پر ظلم کے پہاڑ توڑنا شروع کردیے جاتے ہیں۔ ایسے میں اقوام متحدہ پر لازم ہے کہ مظلوموں کو فوری طور پر بنیادی حقوق دلائے اور اگر یہ نہیں کرسکتے تو روہنگیا مسلمانوں کی سابقہ ریاست ارکان کو آزاد کرکے ان کے لیے علیحدہ ملک بنایا جائے۔ اگر انڈونیشیا میں مصنوعی فسادات پیدا کرکے عیسائیوں کے لیے ملک بن سکتا ہے اور سوڈان تقسیم کیا جاسکتا ہے تو پھر ارکان میں حقیقی اور دالخراش واقعات کے بعد روہنگیا مسلمانوں کے لیے مسلم ریاست ارکان صوبے پر مشتمل کیوں نہیں بنائی جاسکتی۔

حالیہ مظالم کی تصویر کشی نے دنیا بھر کے انسانوں کو بولنے پر مجبور کر دیا، لیکن اقوام متحدہ صرف تماشا دیکھ رہی ہے، جس سے اس خیال کو مزید تقویت ملتی ہے کہ اقوام متحدہ سمیت عالمی برادری مسلمانوں کے ساتھ مخلص ہے ہی نہیں، اسی لیے جب کہیں مسلمانوں کا مسئلہ ہوتا ہے تو خاموش تماشائی بن جاتی ہے۔

اقوام متحدہ ایک قسم کی عالمی اسمبلی ہے جس میں تمام ممالک کے نمایندگی ہوتی ہے اور ممبر ممالک کے تمام مسائل کے حل کے لیے راہیں نکالنا اور اقدامات کرنا اس کی ذمے داری ہے۔ اس کے چارٹر کے مطابق دنیا کو جنگوں سے نجات دلانا، انسانی اقدارکی عزت اور قدرومنزلت اور چھوٹوں اورکمزور قوموں کو ان کے حقوق دلانا اس کی ذمے داری ہے، لیکن 1945 ء سے آج تک اقوام متحدہ امریکا کے مفادات کا تحفظ اور اس کی جنگوں کو سپورٹ کرتی نظر آتی ہے۔ اپنے قیام کے وقت سے اب تک مسلم ممالک کا شاید ہی کوئی ایسا مسئلہ ہو جو اس نے حل کروایا ہو۔ کشمیر اور فلسطین کے مسائل اقوام متحدہ کے چارٹر پر سب سے قدیم ہیں، لیکن 70سال سے ان مسائل کے حل کے لیے کوئی کوشش سامنے نہیں آئی۔

سب کچھ اقوام متحدہ کے سامنے ہے، لیکن اقوام متحدہ کو کبھی ہوش نہیں آیا۔ برما کا معاملہ تو ان سے بھی سنگین ہے، کیونکہ یہاں بہت ہی برے طریقے سے روہنگیا مسلمانوں کی زندگیوں سے کھیلا جارہا ہے، لیکن اقوام متحدہ ان کے لیے کچھ نہیں کر رہی۔ اگر امریکا کسی ملک کو ناپسندیدہ ملک قرار دے کر اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہے تو اقوام متحدہ نہایت عجلت کے ساتھ اس کارروائی کی منظوری دے دیتی ہے۔

افغانستان، عراق، شام،پاکستان، لیبیا اور دیگر مسلم ممالک میں امریکا نے اپنے مفادات کی خاطر لاکھوں بے گناہ انسانوں کو موت کے گھاٹ اتاردیا۔ اقوام متحدہ نے امریکا کو روکنے کی بجائے اس کی سپورٹ کی۔ ایسے حقائق کے بعد اقوام متحدہ سے یہ امید کیسے کی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانوں کے مسائل حل کروانے میں مخلص ہے؟ اقوام متحدہ مسلمانوں کے معاملے میں ہمیشہ منافقت سے کام لیتی آئی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے معاملے میں بھی منافقت سے کام لے رہی ہے۔ اب روہنگیا مسلمانوں کے معاملے کو مسلم ممالک نے ہی حل کروانا ہے۔

یہ مانا کہ ہر اسلامی ملک سب کچھ کرنا ممکن نہیں ہے، ہر ایک کے لیے کئی مسائل ہوتے ہیں، لیکن تمام مسلم ممالک ایک اجلاس بلاکر اس میں تمام آپشنز پر غورتو کرسکتے ہیں۔ ترکی کے صدر طیب اردوان اس معاملے میں پیش پیش ہیں، دیگر ممالک کو بھی ترکی کا ساتھ دینا چاہیے۔

مسلم ممالک کو حالات کا ادراک کرنا ہوگا اور یہ بات جتنی جلدی ہو سمجھ لینی چاہیے کہ مسلم امہ کے مسائل انھوں نے خود ہی حل کرنے ہیں۔ اگر مسلم ممالک ہوش میں آجائیں اور اپنی قوت کو پہچان لیں تو زمین پر ان سے بڑی قوت کوئی نہیں ہوگی۔

دنیا میں مسلم ممالک کی تعداد پچاس سے زاید ہے، جن کے پاس بے انتہا وسائل، مال و دولت، معدنی ذخائر،باصلاحیت افرادی قوت اور بہترین افواج ہیں، جن میں سے پاکستان، ترکی، مصر وغیرہ کی افواج کا تو دنیا کی بیس بہترین افواج میں شمار کیا جاتا ہے۔ اسلامی ملک پاکستان دنیا کی سات ایٹمی طاقتوں میں بھی شامل ہے، لیکن اس کے باوجود ان کی دنیا میں کوئی خاص حیثیت نہیں ہے۔اس کی وجہ س شاید یہ ہے کہ انھوں نے اپنا مقام خود نہیں پہچانا اور ان میں اتحاد نہیں ہے۔

موجودہ حالات میں مسلم امہ کا اتحاد انتہائی ضروری ہے۔ مسلم ممالک کو مسلم اقوام متحدہ کے عنوان سے اپنا ایک الگ موثر پلیٹ فارم تشکیل دینا چاہیے، تاکہ مسلم ممالک کے مسائل حل کیے جاسکیں۔ عالمی برادری کسی صورت یہ نہیں چاہتی کہ مسلم ممالک کا متحدہ پلیٹ فارم بن سکے۔ اسی سوچ کو ختم کرنے کے لیے ہی تو اسلامی امہ کو یکجا کرنے کی کوشش کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو اور شاہ فیصل کو راستے سے ہٹا دیا گیا تھا، تاکہ کوئی مسلمانوں کے اتحاد کی بات ہی نہ کرے۔

اب ایک بار مسلم ممالک کو مسلم امہ کے ہیرو طیب اردوان کے ساتھ مل کر مسلم ممالک کا ایک پلیٹ فارم تشکیل دینا ہوگا، جس کے ذریعے روہنگیا، فلسطینی، کشمیری اور تمام مسلمانوں کے مسائل حل کیے جاسکیں، بصورت دیگر مسلم ممالک اسی طرح دنیا میں پٹتے رہیں گے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔