اہل کراچی خبردار ہوجائیں

سید عاصم محمود  منگل 12 ستمبر 2017
آبی ریلا لہر کی خطرناک ترین بات یہ ہے کہ یہ دکھائی نہیں دیتی۔ فوٹو : فائل

آبی ریلا لہر کی خطرناک ترین بات یہ ہے کہ یہ دکھائی نہیں دیتی۔ فوٹو : فائل

ہفتے کی دوپہر ناظم آباد، کراچی کا ایک گھرانا سیرو تفریح کرنے سینڈزسپٹ نامی ساحل سمندر پہنچا۔

بحیرہ عرب کے پر واقع یہ مقام اہل کراچی کا مرغوب پکنک علاقہ ہے۔ اس گھرانے کے وہم و گمان میں نہ تھا کہ ساحل سمندر پر نہایت المناک واقعہ ان کا منظر ہے۔ہوا یہ کہ گھرانے کے افراد سمندر میں نہانے لگے۔ شام کو پانی چڑھنے لگا، تب بھی وہ سمندر میں نہاتے رہے۔

شام چھ بجے سبھی افراد جانے کے لیے کوسٹر میں بیٹھے۔تبھی ایک لڑکی ہاتھ دھونے ساحل پہ گئی۔بدقسمتی سے وہ ایک تیز لہر میں پھنس گئی جو اسے سمندر کی طرف لے جانے لگی۔ اس کی چیخیں سن کر سبھی بڑے اپنی پیاری کو بچانے بڑھے۔ مگر بھنور انہیں بھی گہرے پانیوں میں لے گیا جہاں بچی سمیت گھرانے کے بارہ بدقسمت افراد ڈوب کر ہلاک ہوگئے۔ایدھی فاؤنڈیشن کے مطابق صرف پچھلے ایک ماہ میں کراچی کے ساحلوں پر 33 افراد ڈوب کر ہلاک ہوچکے۔ ان اموات کی اصل وجہ یہ ہے کہ تعلیم یافتہ لوگ بھی نہیں جانتے، سمندر کے ساحل پر پانی کس سائنسی اصول کے تحت حرکت کرتا اور انھیں اجل سے ملا دیتا ہے۔

بنیادی طور پر ہوائیں سمندر کی سطح پر پانی کو حرکت میں لاتی ہیں۔ ساحلوں پر وہ پانی کو زمین کی سمت دھکیلتی ہیں۔ اور جب زمین پر چڑھا پانی واپس سمندر کی طرف آئے، تو قدرتاً اس کی رفتار تیز ہوتی ہے۔ اس دوطرفہ تیز رفتار آبی نقل و حرکت کے باعث ساحلوں کے قریب ریت کے ٹیلے یا ابھار (Ridge) بن جاتے ہیں۔ اصطلاح میں انہیں ’’بالوچر‘‘ (Sandsbar) کہا جاتا ہے۔

پانی کی مسلسل نقل و حرکت کے باعث ریت سے بنے یہ ٹیلے بنتے ٹوٹتے رہتے ہیں۔ کبھی کبھی ان کے درمیان پانی کا تیز بہاؤ پتلا سا راستہ بنالیتا ہے۔ اس راستے سے ساحل پر چڑھا پانی قدرتاً بہت تیزی سے گزرتا ہے۔ پانی کا یہ بہاؤ اصطلاح میں ’’آبی ریلا‘‘ (Rip Current) کہلاتا ہے۔

ساحل سمندر پر نہانے والوں کے لیے یہ آبی ریلا نامی سمندری لہر ہی سب سے زیادہ خطرناک ہے۔ وجہ یہ کہ جب کوئی انسان اس لہر میں پھنس جائے، تو تیزی سے بہنے والا پانی اسے اپنے ساتھ گہرے سمندر میں بہالے جاتا ہے۔ تیراک بالعموم سرتوڑ کوشش کے باوجود اس لہر سے نکل نہیں پاتا۔ بالوچر کے کٹاؤ پر پانی کی حرکت سے کبھی کبھی گرادب یا بھنور بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ انسان ان میں بھی پھنس کر اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔

کراچی کے تمام ساحلوں کے نزدیک ریت سے بنے ابھار یا بالوچر موجود ہیں۔ سمندری پانی اپنی طاقت سے ان میں پتلے راستے بنالیتا ہے۔ ناظم آباد کا بدقسمت خاندان کسی بالوچر میں پیدا ہوئی تیز سمندری لہر یا بھنور ہی میں پھنس گیا جہاں پانی کا بہاؤ نہایت تیز تھا۔ وہ دیکھتے ہی دیکھتے بارہ بیش قیمت جانیں نگل گیا۔ ایسی اچانک افتاد میں ساحل پر کھڑے گارڈ بھی آبی ریلا لہر میں پھنسے بدنصیبوں کی مدد نہیں کرپاتے۔ یہی وجہ ہے، امریکا اور یورپی جیسے ترقی یافتہ ممالک کے ساحلوں پر بھی ہر سال سیکڑوں لوگ اس قاتل سمندری لہر کی نذر ہوجاتے ہیں۔

آبی ریلا لہر کی خطرناک ترین بات یہ ہے کہ یہ دکھائی نہیں دیتی۔ بس پانی میں اٹھتے بلبلے اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہاں آبی ریلا لہر گزر رہی ہے۔ اسی لیے آبی ریلا لہر سے بے خبر تیراک تیرتے ہوئے اس میں جاگھستا ہے۔ پھر وہ موت کے وار سے بمشکل ہی بچ پاتا ہے۔اہل کراچی سے اپیل ہے کہ وہ جب بھی کسی ساحلی مقام پر سیروتفریح کرنے جائیں، تو بالوچر کے قریب تیرنے سے گریز کریں۔ سمندر میں جب مدوجزر آئے، تو زیر آب ریت کے ٹیلوں یا بالوچروں میں بنے پتلے راستے زیادہ خطرناک ہوجاتے ہیں۔ ان سے پھر چڑھا پانی اتنی تیزی سے گزرتا ہے کہ ماہر سے ماہر تیراک بھی اس کی لپیٹ میں آکر گہرے پانیوں میں اتر جاتا ہے۔

بلدیہ کراچی یا حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ کراچی کے ساحلی مقامات کا ماہرین سے سروے کرائے تاکہ معلوم ہوسکے، کس کس مقام پر خطرناک بالوچر موجود ہیں۔ پھران مقامات پر انتباہی نوٹس لگائے جاسکتے ہیں تاکہ وہاں اہل کراچی تیراکی کرنے اور نہانے سے گریز کریں۔ دوسری صورت میں بالوچروں میں جنم لیتی آبی ریلا لہریں قیمتی انسانی جانیں نگلتی رہیں گی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔