ہندو قوم پرستی کے بانی؛ تاریخ کے اسرار وا کرتی تحقیق

عامر ریاض  منگل 12 ستمبر 2017
 اس محکومی کے ردعمل میں شکست خوردہ مرہٹے بتدریج ہندو قوم پرستی کی طرف غلطاں ہوگئے۔ فوٹو : فائل

اس محکومی کے ردعمل میں شکست خوردہ مرہٹے بتدریج ہندو قوم پرستی کی طرف غلطاں ہوگئے۔ فوٹو : فائل

پچھلے ایک عشرے سے مذہب سے جڑی قوم پرستی نے جنوبی ایشیا کا حلیہ اس حد تک بگاڑ دیا ہے کہ ڈیڑھ ارب سے زیادہ لوگوں پر مشتمل یہ خطہ “لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ” کی عملی تصویر بنا  ہوا ہے۔آج اس خطے میں بسنے والے ہندو، مسلم، سکھ اور مسیحی سب ہی میں مذہبی قوم پرستی کا اثر نمایاں ہے۔

اس بگاڑ کی کچھ وجوہ تو نو آبادیاتی دور کی پالیسیوں میں بدرجہ اتم موجود ہیں، تو اس کا ایک حوالہ مقامی بھی ہے۔ آج میں آپ کا تعارف ہندو طبقے سے تعلق رکھنے والے اس ٹرائیکا یا تگڈم سے کروا رہا ہوں جنہوں نے نو آبادیاتی دور میں مذہبی قوم پرستی کی بنیادیں رکھیں۔

یہ تھے بال گنگا دھر تلک (23 جولائی 1856 ء یکم اگست 1920ء) لالہ لجپت رائے (28 جنوری 1865 ئتا 17 نومبر 1928ء) اور بپن چندر پال (7 نومبر 1858ء تا 20 مئی 1932ء)۔

بال گنگا دھر تلک علاقہ مہاراشٹر کے باسی تھے۔ اس علاقے میں مراٹھی بولنے والے ہندوؤں کی اکثریت تھی اور سلطنت موریہ، شیوا جی اور بمبئی سے تعلق پر تقاخر بھی۔ مرہٹہ قوم کا المیہ یہ تھا کہ مغلوں اور افغانوں سے لڑتے ہوئے مرہٹے انیسویں صدی کے اوئل میں انگریزوں کے محکوم بن گئے تھے۔ اس محکومی کے ردعمل میں شکست خوردہ مرہٹے بتدریج ہندو قوم پرستی کی طرف غلطاں ہوگئے۔

بال گنگا دھر تلک کے دیگر دونوں ساتھی، لالہ لجپت رائے اور بپن پال ایسے علاقوں میں پیدا ہوئے جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی۔ لالہ جی پنجاب اور پال جی بنگال میں اقلیتی مذاہب کے پیروکار تھے۔ دونوں صوبوں میں مسلمانوں کا تناسب نہ صرف پچاس فیصد سے زیادہ تھا بلکہ اکثر اضلاع میں تو مسلم تناسب ساٹھ سے اسّی فیصد بھی تھا۔ دونوں صوبوں میں بہت کم اضلاع ایسے تھے جہاں صرف ہندو یا صرف سکھ پچاس فیصد سے زیادہ ہوں۔

بپن صاحب کا تو یہ المّیہ بھی تھا کہ وہ مسلم اکثریتی علاقے مشرقی بنگال کے ضلع حبیی گنج میں پیدا ہوئے تھے۔ خود لالہ جی بھی پنجاب کے ضلع موگا میں پیدا ہوئے جس کے اردگرد پنجابی مسلمانوں کے بڑے اضلاع فیروز پور اور لدھیانہ تھے۔

1849ء میں پنجاب پر قبضے کے بعد انگریزوں کا تسلط پورے برٹش انڈیا پر مسلمہ حقیقت بن چکا تھا۔ یہ تینوں حضرات اسی دور میں 1856 ء سے 1865 ء کے درمیان دنیا میں وارد ہوئے۔ جدید انگریزی تعلیم سے مستفید ہونے کے بعد تینوں کے سوچ میں مختلف وجوہ کی بنیاد پر محکومی کا حل یہ ٹھہرا کہ ہندوستان میں ہندو قوم پرستی کی ترویج کی جائے۔

یہ حکومت پانے کے لیے پرچی (ووٹ) اور برچھی (مسلح جدوجہد) ،دونوں کے استعمال کو جائز سمجھتے تھے۔ نتیجہ اگر ’’ہندو راج‘‘ کی صورت میں برآمد ہو تو انہیں ہر طریقہ و نظام قبول تھا۔ اپنے خوابوں کی تکمیل کے لیے تینوں نے آل انڈیا کانگرس کا رخ کیا کیونکہ ولائتی تعلیم، امریکا و یورپ کے دوروں اور محدود حق رائے دہی کی بنیاد پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کی وجہ سے ’’ووٹ کی سیاست‘‘ کی بھنک پڑ چکی تھی۔

وہ انگریز کی ہندو مذہب میں مداخلت کے سخت خلاف تھے۔ ان کی انگریز مخالفت کی وجوہ میں غیر ملکی تسلط کے بجائے مذہب میں مداخلت کو اولیّت حاصل تھی۔ ستی اور کمسنی میں شادی جیسی روایات کو ختم کرنے کے انگریزی قوانین کے خلاف یہ آگے آگے رہتے۔ اگر کہیں قوم پرستی اور مذہب میں تکرار ہوتی تو یہ مذہب کو اولیّت دیتے ۔ جب مذہب اور جدیدیت میں تکرار ہوتی تب بھی وہ عقائد پر پہرہ دیتے۔

سیاسی مذہبیت کے دلدادہ ان تینوں رہنماؤں کی تحریریں دستیاب ہیں۔ ان میں انھوں نے 1857ء کے غدر کو ہندوؤں کی جنگ آزادی لکھا ہے ۔ اس سلسلے میں انہوں نے جنگ آزادی کا ہیرو منگل پانڈے کو بنایا تھا۔

بیسویں صدی کے پہلے دو عشروں میں ان کی مذہبی سیاست نے بہت زور پکڑلیا۔ جب صوبہ بنگال کی تقسیم ہوئی تو انھوں نے اس کو دھرتی کی تقسیم کے بجائے مسلم بنگال کی فتح کی صورت دیکھا۔ وہ کانگریس کو گوپال کرشن گوکھلے، جناح، دادا بھائی نوروجی، موتی لال نہرو جیسے لبرل عناصر سے پاک کرتے ہوئے اسے مذہبی قوم پرستی میں رنگا دیکھنے کے خواہاں تھے۔

لبرل ازم اور قوم پرستی کو مذہب کے تابع رکھنے کے خواہاں ’’لال۔ بال۔ پال‘‘ کی سیاست کو بعد ازاں مہاتما گاندھی، ہندو مہا سبھا، آریہ سماجی تحریک کے گوریلوں اور سردار پٹیل نے خوب ورتا۔ بعد میں ان کی پھیلائی ’’سیاسی مذہبیت‘‘ کا اثر مسلمانوں اور سکھوں پر بھی ہوا۔1901 ء میں جب انگریزوں نے پنجاب کے چھ اضلاع کو کاٹ کر پنجابیوں اور پٹھانوں پر مشتمل صوبہ سرحد بنایا تو اسے صوبائی حقوق نہ دیے تھے۔ اسی طرح سندھ کو 1847 ء سے بمبئی کے زیر تسلط رکھا ہوا تھا جبکہ بلوچستان کو بدستور صوبہ بنانے سے انگریز بوجوہ گریزاں تھے۔

یہ تینوں مسلم اکثریتی علاقے تھے۔ اس لیے لال۔ بال۔ پال ان کو صوبائی حقوق دینے یا ان علاقوں کو صوبہ بنانے کے شدید مخالف تھے۔ اگر ان علاقوں میں ہندوؤں کی اکثریت ہوتی تو لال۔ بال۔ پال ان کو صوبہ بنانے یا صوبائی حقوق دلوانے کے حامی ہوتے۔ ان کی مخالفت کے باوجود 1930 ء کی دہائی کے پہلے نصف میں صوبہ سرحد کو صوبائی حقوق دے دیئے گئے جبکہ سندھ کو بمبئی کے تسلط سے آزادی مل گئی۔

1916ء کے معاہدہ لکھنؤ کی حمایت انہوں نے اس لیے کی کہ اس معاہدے سے برٹش انڈیا میں موجود دونوں مسلم اکثریتی صوبوں یعنی پنجاب و بنگال میں مسلمانوں کا تناسب پچاس فیصد سے کم ہو جانا تھا۔ اگر اس معاہدے پر عمل ہوتا ’’بھارت ماتا‘‘ میں مسلم اکثریت کا ایک بھی صوبہ باقی نہ رہتا۔

انہیں انگریزوں کے پھیلائے بیانیوں سے الفت تھی کیونکہ آریاؤں کی عظمت اور مسلم حملہ آوروں کی آمد وخود ساختہ مظالم کو انہوں نے قومی بیانیے میں داخل کر رکھا تھا۔ وہ ہندوستانی (اْردو، ہندی زبان جو پرانی انڈین فلموں میں چلتی ہے) کے بجائے ہندی زبان کے دلدادہ تھے مگر اپنے علاقوں میں مراٹھی اور بنگالی کے حامی بھی۔

اپنے مذہبی بیانیے کی وجہ سے لال۔ بال۔ پال قوم پرستی اور جمہوریت کے جدید اطوار کو وطنی و قومی تشکیل میں سمونے سے عاری تھے۔ یہی وجہ تھی کہ ان کے خیالات و نظریات پر مشتمل جس یک قومی نظریہ (one nation theory) کی کانگرس حمایت کرتی رہی اس سے دیگر گروہوں میں اضطراب بڑھا اور ردعمل میں مسلمانوں اور سکھوں میں بھی مذہبی قوم پرستی توانا ہوگئی۔

1920ء میں تلک، 1928ء میں لالہ جی اور 1932 ء میں بپن پال راہی ملک عدم ہوئے مگر جس مذہبی قوم پرستی کے بیج وہ بوگئے تھے، انہوں نے بعد ازاں بہت سے انڈے بچے دیے۔ آج خاص طور پر بھارت میں وہی ہندو لیڈر سرگرم ہیںجو جمہوریت اور جدیدیت کو اولیت نہیں دیتے اور نہ ہی اسے وطنی تشکیل اور طرز حکمرانی کا نمایاں حصّہ بنانا چاہتے ہیں۔ہندو قوم پرستی ان کا ملجاوماوی بن چکی۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔