پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کا شاندار استقبال

عباس رضا  منگل 12 ستمبر 2017
قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکیورٹی انتظامات کے لیے کمر کس لی۔ فوٹو : فائل

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکیورٹی انتظامات کے لیے کمر کس لی۔ فوٹو : فائل

سکیورٹی صورتحال قدرے بہتر ہوئی تو چند ایک اسپورٹس فیڈریشنز نے بین الا قوامی مقابلوں کا اہتمام کیا لیکن کرکٹ کی بحالی کے لیے زیادہ پیش رفت دیکھنے میں نہیں آئی۔

سابق چیئرمین پی سی بی شہریار خان کی خدمات کو سراہا جانا چاہیے کہ ان کی کوششوں سے مئی 2015میں زمبابوے کی ٹیم 3ون ڈے اور 2ٹی ٹوئنٹی میچز کے لیے لاہور آئی، وسوسے بہت تھے لیکن بہترین سیکیورٹی انتظامات نے اعتماد کی بحالی کا سفر تیز کردیا، بعد ازاں رواں سال پاکستان سپر لیگ کا فائنل قذافی اسٹیڈیم میں ہوا تو حکومت نے ہوش اور شائقین نے جوش کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس ایونٹ کو یادگار بنادیا۔

ورلڈ الیون کی میزبانی کے لیے بات چیت تو ایک عرصہ سے چل رہی تھی لیکن پی ایس ایل فائنل کے بعد پی سی بی کا کیس مضبوط ہوگیا، آئی سی سی ٹاسک فورس برائے پاکستان کے سربراہ جائلز کلارک نے پاکستان دوستی کا حق ادا کرتے ہوئے ٹی ٹوئنٹی سیریز کے لیے عملی کوششوں کا آغاز کیا، منصوبہ بندی کرتے ہوئے کئی مشکلات درپیش تھیں، چیئرمین شہریار خان کی عہدے کی مدت ختم ہورہی تھی، سپریم کورٹ کے فیصلے میں نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دیئے جانے کی وجہ سے سیاسی منظر نامے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوئی۔

سابق وزیراعظم کی خالی ہونے والی نشست پر ضمنی انتخاب 17ستمبر کو شیڈول کئے جانے کی وجہ سے ورلڈ الیون کا مجوزہ شیڈول بھی متصادم ہوگیا، یواے ای میں سری لنکا کیخلاف سیریز کے لیے قومی ٹیم کی روانگی کو پیش نظر رکھتے ہوئے انٹرنیشنل کرکٹرز کی میزبانی کا مرحلہ 25اگست سے قبل مکمل ہونا ضروری تھا،ان حالات میں ورلڈ الیون کی سیریزکے امکانات کم ہی دکھائی دے رہے تھے لیکن قوم نے تمام مشکلات کو آہنی عزم سے شکست دینے کا ارادہ کرتے ہوئے مقابلے ضمنی الیکشن سے قبل ہی کروانے کا فیصلہ کرلیا۔

قانون نافذ کرنے والے اداروں نے سیکیورٹی انتظامات کے لیے کمر کس لی تو دوسری طرف پی سی بی نے میسر وقت میں قذافی اسٹیڈیم کی تزئین و آرائش، نشریاتی حقوق فروخت، مہمان کرکٹرز کی رہائش اور آمدورفت سمیت مختلف امور کی انجام دہی کا بیڑا اٹھالیا، تیاریوں کے کٹھن مراحل طے کئے جاچکے، کم قیمت ٹکٹوں کی عدم دستیابی کی شکایات کے باوجود عوام کا جوش وخروش بھی عروج پر پہنچ چکا، میلہ تو صرف لاہور میں لگے گا لیکن پورا پاکستان انٹرنیشنل کرکٹ کا شاندار استقبال کررہا ہے۔

ورلڈ الیون میں شامل 7ملکوں سے تعلق رکھنے والے 14کرکٹرز دبئی میں اکٹھے ہونے کے بعد پیر کو علی الصبح زندہ دلوں کے شہر میں ڈیرے ڈال چکے ہیں،آئی سی سی اور کرکٹ بورڈز کی نگاہیں اس سیریز پر مرکوز ہیں، یہ صرف 3ٹی ٹوئنٹی میچ نہیں ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کے لیے ایک چابی ہیں، ایونٹ کا کامیاب انعقاد سری لنکن ٹیم کو بھی ایک میچ کے لیے پاکستان آنے کا حوصلہ دے گا، ویسٹ انڈیز ٹور کا فیصلہ کرنے کے لیے ان دونوں مواقع پر کئے جانے والے انتظامات پر نظر رکھے ہوئے ہے۔

انٹرنیشنل کرکٹ کو ترسی ہوئی پاکستانی قوم اور ادارے ہم آواز ہوکر اس ایونٹ کو کامیاب بنانے کے لیے پر عزم ہیں۔ورلڈ الیون میں شامل سٹارز پر ایک نظر ڈالی جائے تو ٹیم کی کمان جنوبی افریقی کپتان فاف ڈو پلیسی کے سپرد کی گئی ہے۔

جارح مزاج بیٹسمین نے لاہور میں پہلی پریس کانفرنس کرتے ہوئے بجا طور کہا ہے کہ یہ صرف ایک سیریز نہیں بلکہ اس سے بڑھ کر بہت کچھ ہے،انہوں نے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی میں اہم کردار اداکرنے کے ساتھ شاندار استقبال پر میزبان قوم کا شکریہ بھی اد کیا،جنوبی افریقی بیٹسمین ہاشم آملا اور عمران طاہر عالمی کرکٹ بڑے نام اور پاکستانی شائقین کے دلوں میں بستے ہیں، لیگ سپنر کا آبائی شہر بھی لاہور ہے،یوں ان کی آمد خاندان کے لیے بھی خوشی کا پیغام ہے۔

شائقین قذافی اسٹیڈیم میں ورلڈ ٹی ٹوئنٹی2010ء کی فاتح انگلش ٹیم کے کپتان پال کولنگ وڈ کو بھی ایکشن میں دیکھنے کے لیے بیتاب ہونگے، انہوں نے جولائی میں ٹی ٹوئنٹی بلاسٹ ٹورنامنٹ میں 68 گیندوں پر 108 رنز کی ناقابل شکست اننگز کھیل کر ثابت کیا تھا کہ 41سال کی عمر میں بھی ان میں دم خم موجود ہے۔

ورلڈ ٹی ٹوئنٹی 2012ء اور 2012ء کی چیمپئن ویسٹ انڈین ٹیم کے کپتان ڈیرن سیمی پی ایس ایل فائنل میں شرکت کرکے شائقین کے دلوں میں جگہ بناچکے ہیں،آل راؤنڈر کو کئی کمنٹریٹرز پاکستانی نام بھی دیتے رہے ہیں،ان کی سکواڈ میں موجودگی میدان میں ماحول گرمائے رکھے گی، انٹرنیشنل لیگز میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے کیریبیئن سپنر سیموئیل بدری قذافی اسٹیڈیم کی کنڈیشنز میں پاکستانی بیٹسمینوں کے لیے مشکلات پیدا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتے ہیں۔

بنگلادیشی اوپنر تمیم اقبال نے یواے ای میں پی ایس ایل میچز کھیلتے ہوئے اچھی کارکردگی سے پرستاروں کی تعداد میں اضافہ کیا،ان کو ایکشن میں دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا، سابق آسٹریلوی کپتان اور جارح مزاج بیٹسمین جارج بیلی پاکستان کے خلاف بھی کئی اچھی اننگز کھیل چکے،ون ڈے اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میں اختتامی اوورز کے بہترین بیٹسمینوں میں شمار کئے جانے والے جنوبی افریقی ڈیوڈ ملر اور نیوزی لینڈ کے ٹی ٹوئنٹی سپیشلسٹ گرانٹ ایلوئیٹ بھی ایونٹ کی رونقیں بڑھائیں گے۔

پروٹیز پیسر مورنے مورکل اور سری لنکن آل راؤنڈر تھسارا پریرا، کینگرووکٹ کیپر بیٹسمین ٹم پین اور آل راؤنڈر بین کٹنگ بھی جدید کرکٹ سے آشنا اور شائقین کو بھرپور تفریح فراہم کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، سابق زمبابوین کرکٹر اینڈی فلاور کی بطور کوچ موجودگی سے آٹھویں ملک کی بھی نمائندگی ہورہی ہے، میچ ریفری کی ذمہ داریاں سنبھالنے کے لیے سابق ویسٹ انڈین کپتان رچی رچرڈسن ورلڈ الیون سے قبل ہی لاہور پہنچ چکے تھے۔

دوسری جانب پاکستان نے زیادہ تر نوجوانوں کو مواقع دینے کا فیصلہ کرتے ہوئے ویسٹ انڈیز کے خلاف ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلنے والے محمد حفیظ، وہاب ریاض،اظہر علی، کامران اکمل اور سہیل تنویر کو ڈراپ کرکے ڈومیسٹک کرکٹ میں عمدہ کارکردگی دکھانے والے کرکٹرز عامر یامین، فہیم اشرف،عمر امین، عثمان خان شنواری کو موقع دینے کا فیصلہ کیا ہے، محمد نواز کی بھی واپسی ہوئی ہے لیکن شاداب خان، شعیب ملک، عماد وسیم کی موجودگی میں ان کی پلیئنگ الیون میں جگہ بنتی نظر نہیں آتی۔

اتوار کو پریکٹس میچ میں شعیب ملک نے جارحانہ بیٹنگ کرتے ہوئے اپنی فارم کی جھلک دکھلادی،بولرز میں شاداب خان اورحسن علی نے بیٹسمینوں کے لیے پریشانیاں پیدا کیِں،گرچہ ہیڈکوچ مکی آرتھر نے تینوں میچز جیتنے کا عزم ظاہر کیا ہے لیکن تجربہ کار کھلاڑیوں پر مشتمل ورلڈ الیون کو زیر کرنا اتنا بھی آسان نہیں ہوگا۔

شائقین کی خواہش ہوگی کہ سٹار کرکٹرز کے کھیل سے بھرپور انداز میں لطف اندوز ہوں، چوکے، چھکے دیکھنے کو ملیں، ہلہ گلہ ہواور ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی بحالی کا جشن بڑے بھرپور انداز میں اپنایا جائے، ہار جیت سے قطعہ نظر اس سیریز کی اہمیت یہ ہے کہ پاکستانی قوم سکیورٹی خدشات کیخلاف میچ جیت جائے، سری لنکن ٹیم کے بعد ویسٹ انڈیز بھی ملکی میدانوں کو آباد کرنے کے لیے آئیں۔

چیئرمین پی سی بی نجم سیٹھی نے تو ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ کی کھڑکی کھولنے والی زمبابوین ٹیم کی دوبارہ آمد اور پھر جنوبی افریقہ کو بھی بلانے کے ارادے ظاہر کردیئے ہیں لیکن اس کے لیے ورلڈ الیون کے خلاف آزادی کپ سیریز کا کامیابی سے انعقاد انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔