ورلڈ الیون، آزادی کپ اور ناقدین کے سفید کوّے

 منگل 12 ستمبر 2017
آئی سی سی ورلڈ الیون کی پاکستان میں آمد، دہشت گردوں اور وطن دشمنوں کو بروقت اور برمحل جواب ہے۔ (فوٹو: فائل)

آئی سی سی ورلڈ الیون کی پاکستان میں آمد، دہشت گردوں اور وطن دشمنوں کو بروقت اور برمحل جواب ہے۔ (فوٹو: فائل)

عالمی دباؤ، دشمن کی چالوں کے باوجود پی ایس ایل فائنل کا کامیاب انعقاد اور چیمپئنز ٹرافی میں ناقابل یقین کامیابی نے دنیا کو پاکستان کی طرف دیکھنے پر مجبور کردیا۔ لاہور میں پاکستانیوں نے بلے سے دہشت کو ہرایا تھا گویا پی ایس ایل 2 کا کامیاب ہونا پاکستان کیلئے بہتر مستقبل کی نوید ثابت ہوا جس کا اعتراف بدترین دشمن بھارت کے میڈیا نے بھی کیا۔ یہ اسی بیج کا ثمر ہے کہ آج آئی سی سی کی ورلڈ الیون کرکٹ ٹیم پاکستان میں موجود ہے۔ اس ٹیم میں دنیا کے سات بہترین ممالک کے کرکٹر شامل ہیں۔

پاکستانی کرکٹ کی تاریخ میں کسی ورلڈ یا انٹرنیشنل الیون کا یہ آٹھواں دورہ ہے، تاہم ماضی میں جتنے بھی دورے ہوئے ہیں ان میں یا تو فرسٹ کلاس میچز کھیلے گئے یا کھیلے گئے ون ڈے میچوں کو انٹرنیشنل میچز کا درجہ حاصل نہیں تھا۔

انٹرنیشنل الیون کے پاکستان آنے کا سلسلہ فروری 1962 میں شروع ہوا تھا جب انٹرنیشنل الیون نے ایشیا، افریقہ اور نیوزی لینڈ کے دورے کے سلسلے میں ڈھاکہ اور کراچی میں دو فرسٹ کلاس میچز کھیلے تھے۔ فروری 1968 میں مکی اسٹیورٹ کی قیادت میں انٹرنیشنل الیون نے مختلف ممالک کے دورے میں ایک فرسٹ کلاس میچ بی سی سی پی الیون کے خلاف کراچی میں بھی کھیلا اور اس میں 43 رنز سے کامیابی حاصل کی۔ پھر فروری 1971 میں انٹرنیشنل الیون کے نام سے ٹیم پاکستان آئی جس کے کپتان انگلینڈ کے مکی اسٹیورٹ تھے اور میزبان ٹیم کے کپتان انتخاب عالم تھے۔

اس دورے میں تین فرسٹ کلاس میچز کراچی، ڈھاکہ اور لاہور میں کھیلے گئے۔ نومبر 1973 میں ویسٹ انڈیز کے روہن کنہائی کی قیادت میں ریسٹ آف دی ورلڈ الیون نے پاکستان کا دورہ کیا اور کراچی اور لاہور میں دو فرسٹ کلاس میچز کھیلے۔ اسی طرح نومبر 1976 اور ستمبر 1981 میں بھی آئی سی سی کی ورلڈ الیون ٹیموں نے پاکستان کے دورے کیے۔

پاکستان کا چہرہ ایسا نہیں جیسا امریکہ اور بھارت دنیا کو دکھا رہے ہیں۔ دنیا کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اس ملک نے ہی صرف دہشت گردی کے خلاف کامیابیاں سمیٹی ہیں۔ امریکہ جیسا سپر پاور آج تک افغانستان میں ’’جھک‘‘ مار رہا ہے لیکن جو آج سے سولہ سال پہلے سفر شروع کیا تھا اس میں کامیابی نہیں ناکامی ہوئی ہے۔

دنیا کو یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ورلڈ یا انٹرنیشنل الیون کا پاکستان میں کرکٹ میچز کھیلنا کوئی نئی بات نہیں تاہم اس بار پاکستان اور ورلڈ الیون کے درمیان کھیلے جانے والے تین ٹی ٹوئنٹی میچوں کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ انٹرنیشنل کرکٹ کونسل نے ان میچوں کو انٹرنیشنل کرکٹ کا درجہ دیا ہے۔

3مارچ 2009ء کے واقعہ کے بعد پہلی بار پاکستان میں کوئی میچ ہورہا ہے جسے انٹرنیشل ہونے کا درجہ حاصل ہوگا۔ مجھے یاد ہے کہ جب وزیراعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے لاہور میں پی ایس ایل فائنل کرانے کا فیصلہ کیا تو ایک صاحب اس کے ردعمل میں اسے احمقانہ اور پاگل پن کہہ گئے اور ساتھ یہ بھی کہا کہ سنگینوں کی چھاؤں اور کرفیو کے ماحول میں یہ میچ کرانے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پھٹیچر کھلاڑیوں کے ملک میں لانے سے عالمی کرکٹ بحال نہیں ہوگی۔ میرا ان کو مشورہ ہے کہ آج قذافی اسٹیڈیم جاکر میچ دیکھ لیں اور یقین کرلیں کہ کوا کالا ہی ہے سفید نہیں!

 

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔