مبارک، قذافی اسٹیڈیم کی رونقیں لوٹ آئیں

سلیم خالق  بدھ 13 ستمبر 2017
قذافی اسٹیڈیم میں جب قومی ترانہ بجا تو عوام کا جوش آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ فوٹو: فائل

قذافی اسٹیڈیم میں جب قومی ترانہ بجا تو عوام کا جوش آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ فوٹو: فائل

مجھے یاد بھی نہیں آج کتنے عرصے بعد لاہور آیا شاید ایک سال یا پھر اس سے بھی زیادہ عرصہ بیت گیا، مگر آج یہاں آنے کی جو خوشی ہوئی وہ پہلے کبھی نہیں ہوئی، اور کیوں نہ ہو طویل عرصے بعد ہمارے ملک میں انٹرنیشنل کرکٹ جو لوٹ آئی ہے۔

پی آئی اے کی پرواز پر بیٹھتے ہی اندازہ ہو گیا کہ پاکستانی میچ کے حوالے سے کتنے پُرجوش ہیں، جہاز میں کئی ایسے افراد تھے جو خاص طور پر پاکستان اور ورلڈ الیون کا مقابلہ دیکھنے لاہور جا رہے تھے، ان میں زیادہ تعداد نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کی تھی، کئی ٹی وی اسٹارز بھی نظر آئے،لاہور پہنچنے کے بعد ایئرپورٹ سے باہر آیا تو انتہائی سخت سیکیورٹی نظر آئی ، جگہ جگہ پولیس اہلکار تعینات تھے، ایکسپریس کے دفتر میں بیٹھے ابھی کچھ دیر ہی ہوئی تھی کہ لبرٹی چوک سے بلاوا آ گیا جہاں سے ایکسپرس نیوز کی براہ راست نشریات جاری تھی، یہ وہی جگہ تھی جہاں سری لنکن ٹیم پر حملے سے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ ختم ہو گئی۔

وہیں ٹی وی شو میں شریک ہو کر میں یہی سوچ رہا تھا کہ جہاں کرکٹ رکی اسی شہر سے دوبارہ آغاز ہو رہا ہے، یہ سلسلہ بس اب رکنا نہیں چاہیے، وہاں سینئر اینکرز جاوید چوہدری اور منصورعلی خان کے ساتھ میچ پر گفتگو ہوئی، منصور اب منجھے ہوئے سیاسی اینکر بن چکے مگر شاید کم لوگ جانتے ہوں کہ وہ پہلے اسپورٹس رپورٹر تھے بعد میں اس شعبے میں آئے۔

جاوید چوہدری نے بتایا کہ وہ بچپن میں کرکٹ کھیلا کرتے تھے اور کھیل سے خاصا شغف رکھتے ہیں، چونکہ اس ایریا میں سیکیورٹی کی وجہ سے گاڑیوں کی آمدورفت بند ہو چکی تھی، لہذا میں نے وہاں سے قذافی اسٹیڈیم کی جانب پیدل سفر شروع کیا ، ایکسپریس لاہور کے رپورٹرز عباس رضا اور میاں اصغر سلیمی بھی ساتھ تھے، راستے میں سابق چیئرمین پی سی بی خالد محمود سے ملاقات ہوئی، وہ بھی لبرٹی چوک ایکسپریس کے پروگرام میں شرکت کیلیے جا رہے تھے انھوں نے ملک میں کرکٹ کی واپسی پر خوشی کا اظہار کیا۔

اسٹیڈیم کے گیٹس پر شائقین کی لمبی لائنیں لگی ہوئی تھیں، مجھے یہ دیکھ کر خوشگوار سا احساس ہوا کہ اپنے ہیروز کو سامنے کھیلتے دیکھنے کو ترسے لوگ آج کس قدر مسرورہیں، گرین شرٹس اور جھنڈے بھی فروخت ہوتے دکھائی دیے، خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد نظر آئی جس سے واضح ہو رہا تھا کہ خوف کی دیوار ٹوٹ چکی ہے، سیکیورٹی کے انتہائی سخت انتظامات کیے گئے تھے، کم از کم پانچ جگہ ہماری بھی تلاشی ہوئی، بیگ کھول کر لیپ ٹاپ نکال کر دیکھا گیا، اسکیننگ مشین سے بھی اسے گزارا گیا، بار بار تلاشی اور لمبی قطاروں کے باوجود شائقین کا جوش و خروش کم نہیں ہوا، سب سونے میدان آباد ہونے پر مسرور تھے۔

ویسے آپس کی بات ہے اب ہمیں ایسے ہی سخت انتظامات کی ضرورت ہے تاکہ پھر کبھی کرکٹ کا سلسلہ نہ رکے، البتہ طریقہ کار میں بہتری لانا چاہیے تاکہ لوگوں کو کم سے کم زحمت ہو، ابھی تو پہلا میچ تھا امید ہے سامنے آنے والی غلطیوں سے حکام سبق سیکھیں گے تاکہ آئندہ عوام کو کم مشکلات ہوں،پریس باکس میں ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور بھی آئے۔

ملک میں آج جو کرکٹ واپس آئی اس میں پاک فوج کا بہت بڑا کردار ہے جس نے امن بحال کرایا، آصف غفورصاحب کا کہنا تھا کہ پاکستان کا ہر شہر کرکٹ کی میزبانی کرنے کیلیے تیار ہے، فاٹا میں بھی بہترین گراؤنڈ بن چکا، میں نے ان سے کہا کہ کراچی والے ورلڈالیون کا میچ نہ ہونے پر ناراض ہیں تو انھوں نے کہا کہ جلد ہر شہر میں میچز ہوا کریں گے۔ میرا پہلے لاہور میں میچز کیلیے اکثر آنا جانا ہوتا تھا، اب کافی عرصے بعد قذافی اسٹیڈیم کا میڈیا سینٹر آباد دیکھا، کئی لوگوں سے تو برسوں بعد ملاقات ہوئی۔

ویسے پی سی بی نے بڑی خوبصورتی سے میڈیا کو گراؤنڈ کے دوسرے سرے پر بھیج دیا ہے، پہلے مین بلڈنگ میں میڈیا سینٹر ہوا کرتا تھا تو بورڈ کی اعلیٰ شخصیات سے بھی ملاقات ہو جاتی، اب میڈیا سینٹر میں رضا راشد، شکیل خان اور نذیر ہی نظر آئے، دیگر افسران وی آئی پی ایریا میں تھے،قذافی اسٹیڈیم ویسے ہی آہستہ آہستہ میڈیا کیلیے نوگو ایریا بنتا جا رہا ہے، صحافیوں کو ایک مخصوص ایریا تک محدود کر دیا گیا ہے۔

اب روایتی میڈیا بورڈ کی ترجیح بھی نہیں رہا، ’’ٹویٹر آرمی‘‘ کے ذریعے معاملات چلائے جا رہے ہیں۔ جس کا یہ حال ہے کہ اس نے فہیم اشرف کو ٹی ٹوئنٹی میں ون ڈے کیپ دلا دی،بورڈ میں ابھی یہ نہیں سوچا جا رہا کہ جس دن چینلز اور اخبارات نے سوشل میڈیا کی پوسٹ کو بریکنگ نیوز نہ بنایا یا شہ سرخیوں میں شائع نہ کیا تب وہ کیا کریں گے،معلوم ہوا ہے کہ اب بھی بورڈ نے اعلیٰ حکومتی و سیاسی شخصیات میں خوب ٹکٹیں بانٹیں تاکہ تعلقات بہتر بنائے جا سکیں۔

اس سے بڑا مذاق کیا ہو گا کہ عبدالقادر جیسے عظیم سابق اسپنر جن کے نام پر قذافی اسٹیڈیم کا ایک انکلوژر بھی ہے انھیں مدعو کرنے کی زحمت نہ کی گئی، یہ بات انھوں نے خود مجھے بتائی تھی، خیر چھوڑیں آج اچھی باتیں ہی کرتے ہیں، گراؤنڈ میں جس وقت مہمان کرکٹرز کو کھلے رکشے میں بٹھا کر چکر لگوایا گیا وہ منظر بہترین تھا، قذافی اسٹیڈیم میں جب قومی ترانہ بجا تو عوام کا جوش آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا، اب آغاز تو ہو گیا مگر اس سلسلے کو برقرار رکھنا ہوگا۔

یہ سیریز کامیابی سے ہوئی تو آگے سری لنکا سے ٹوئنٹی 20 میچ ہوگا،پھر ویسٹ انڈیز کی ٹیم آئے گی، جنوبی افریقی بورڈ نے اپنے 5 کھلاڑیوں کو اس ایونٹ کیلیے ریلیز کیا،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ پاکستان کرکٹ کیلیے نرم گوشہ رکھتا اور آئندہ مکمل ٹیم بھی بھیج سکتا ہے، اسی طرح کرکٹ ہوتی رہے گی، پھر ایک وقت آئے گا جب سیکیورٹی نہیں کھیل پر بات ہو گی، مگر اس کیلیے ضروری ہے کہ سہل پسندی کا شکار نہ ہوں، پہلا میچ ہو یا آخری سب میں بہترین سیکیورٹی انتظامات کریں، پھر یہ معمول بنا لیں۔

اب دنیا کے ہر ملک میں سخت سیکیورٹی میں ہی میچز ہوتے ہیں، پاکستان اگر ایسا کر رہا ہے تو اس میں کوئی غیرمعمولی بات نہیں، ورلڈ الیون سے میچز میں بورڈ نے بھاری رقم خرچ کر دی،ایک، ایک کروڑ روپے دے کر پلیئرز کو بلایا گیا، اب اس سرمایہ کاری سے فائدہ اٹھانا چاہیے ، اتنے اچھے انداز میں میچز کرائیں کہ دیگر ٹیموں کے دورے کی بھی راہ کھلے، پاکستانی جنون کی حد تک کرکٹ سے محبت کرتے ہیں، بدقسمتی سے انھیں کچھ عرصے اپنے محبوب کھیل کے ملک میں دیدار سے محروم رہنا پڑا، مگر اب وہ بُرے دن ختم ہو گئے ہیں، لوگوں کے چہروں کی مسکراہٹیں واپس لوٹ آئی ہیں، اب انھیں ہمیشہ برقرار رکھنا چاہیے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔