روزانہ 600 کیلوریزکے استعمال سے ٹائپ ٹو ذیابیطس کا خاتمہ ممکن !

ویب ڈیسک  جمعرات 14 ستمبر 2017
 ٹائپ ٹو ذیابیطس میں لبلبہ انسولین کی مناسب مقدار پیدا نہیں کرپاتا اور یوں خون میں شکر کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ فوٹو: فائل

ٹائپ ٹو ذیابیطس میں لبلبہ انسولین کی مناسب مقدار پیدا نہیں کرپاتا اور یوں خون میں شکر کی مقدار بڑھنے لگتی ہے۔ فوٹو: فائل

 لندن: برطانوی ماہری نے کہا ہے کہ اگر ذیابیطس کے مریض صرف 8 ہفتوں تک روزانہ 600 کیلوریز والی غذا کھائیں تو ان کی ٹائپ ٹو ذیابیطس بہت حد تک کم ہوکر خاتمےتک پہنچ سکتی ہے۔

نیوکاسل یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے کہا ہے کہ ٹائپ ٹو ذیابیطس میں لبلبہ انسولین کی مناسب مقدار پیدا نہیں کرپاتا اور یوں خون میں شکر کی مقدار بڑھنے لگتی ہے اور دیگر تمام جسمانی اعضا کو متاثر کرتی ہے۔

ہم جانتے ہیں کہ اضافی کیلوریز خصوصاً جگر اور لبلبلے پر چکنائی کی وجہ بنتے ہیں اور جگر پر چربی جمع ہونے کا مریض ’فیٹی لیور ڈیزیز‘ کہلاتا ہے جس میں جگر ضرورت سے ذیادہ گلوکوز بنانا شروع کردیتا ہے۔ پھر ذیادہ کیلوریز کھانے سے اضافی چربی لبلبے پر جمع ہونا شروع ہوجاتی ہے اور یوں انسولین بنانے کی صلاحیت شدید متاثر ہوتی ہے۔

لیکن اب حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اگر لبلبلےکی صرف ایک گرام چربی کم ہوجائے تو وہ دوبارہ انسولین بنانا شروع کردیتا ہے یوں ذیابیطس کم ہونی شروع ہوجاتی ہے اور ٹائپ ٹو ذیابیطس کے خاتمے کی الٹی گنتی شروع ہوجاتی ہے۔ اس ضمن میں کم کیلوریز ہی سب سے بہتر نسخہ ہے جو دوبارہ لبلبے کو انسولین بنانے میں مدد دیتا ہے۔

اس تحقیق کے ماہر پروفیسر رائے ٹیلر کہتے ہیں کہ اگر آپ دس سال سے شوگر کے مریض ہیں تب بھی کیلوریز کم کرکے اس سے نجات ممکن ہے، اس سے وزن میں 15 کلوگرام تک کی کمی بھی ممکن ہے اور ہم جانتے ہیں کہ وزن میں کمی خود شوگر بھی کرتی ہے۔ پروفیسر ٹیلر نے 40 سالہ تجربے کا نچوڑ بتاتے ہوئے کہا ہے کہ شوگر ختم کرنے کا واحد نسخہ کم کیلوریز کا استعمال ہی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ کم کیلوریز سےخالی معدے خون میں شکر کی سطح خاطر خواہ کم ہوتی ہے اور وزن کم ہوتا ہے۔ اس ساری محنت کا واحد مقصد یہ ہے کہ لبلبے سے چربی اترے اور اس کا ایک ہی راستہ یہ ہے وزن کم کیا جائے ۔ نیوکاسل یونیورسٹی کے ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے برسوں تک کئی مریضوں کو کم کیلوریز والی غذائیں دے کر اس کی آزمائش کی اور اس میں خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ہے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔