اگر میں کرکٹر نہ ہوتا، تو پھر کچھ بھی نہیں ہوتا ، اسد شفیق

رضوان طاہر مبین / اشرف میمن  جمعرات 14 ستمبر 2017
جو چیز اختیار میں نہیں، اس کے بارے میں نہیں سوچتا، بلے باز اسد شفیق کے حالات زیست

جو چیز اختیار میں نہیں، اس کے بارے میں نہیں سوچتا، بلے باز اسد شفیق کے حالات زیست

اُس روز ہم سرِ دوپہر بھی دھیمی نہ پڑنے والی ہزاروں گاڑیوں کے بیچوں بیچ ایک پُرشور شاہ راہ سے گزر رہے تھے، جس کے عقب میں واقع ایک مکان ہماری منزل تھا۔۔۔ شہر قائد کی طوالت ناپتے ہوئے، ہم وہاں پہنچے اور دَم لیا۔۔۔ یہاں کچھ پتوں کی سرسراہٹ اور پنچھیوں کی چہچہاہٹ سنی جا سکتی تھی، یعنی  یہ شہر کی عام سڑکوں کے برعکس ایک خاصی شانت گلی تھی۔۔۔

اپنی منزل کی طرف سِرکتا ہوا سورج اب کچھ تِرچھا ہوا تھا، جب ہی تو یہاں کے پیڑوں کے ساتھ نیچی قامت کے وسیع وعریض مکانات بھی اب پرچھائیاں دینے لگے تھے۔۔۔ سو ہم نے مطلوبہ در پہ دستک دینے کے بعد دھوپ کی تمازت سے بچنے کی خاطر اسی پست سی چھاؤں میں پناہ گزین ہوئے، کیوں کہ ہمارے میزبان ابھی گھر پر موجود نہ تھے اور اُن کے بھتیجے نے ہماری دستک پر لبیک کہا تھا، یہ فیڈرل بی ایریا میں واقع، ملکی ٹیم کے بلے باز اسد شفیق کا دولت کدہ تھا۔۔۔

کچھ ہی دیر میں وہ تشریف لاتے دکھائی دیے اور یوں ہم نے اُن کے مہمان خانے میں ٹھیرنے کا اعزاز حاصل کیا اور سلسلۂ کلام کچھ یوں روا ہوا۔۔۔ انہوں نے 28 جنوری 1986ء کو کراچی میں آنکھ کھولی، والدین حیدرآباد سے شہر قائد آئے، بہت سے رشتے دار اب بھی حیدرآباد میں مقیم ہیں، آبائی گھر بھی وہاں موجود ہے۔۔۔ جہاں کم سنی کا بہت سا وقت بیتا، جب کہ شہر قائد میں چھُٹ پن گلشن اقبال میں بسر ہوا۔ میٹرو پولیس اکیڈمی سے میٹرک اور سینٹ پیٹرک کالج سے انٹر کیا۔ اس کے بعد باقاعدہ کرکٹ کی طرف متوجہ ہوئے، جس کے سبب تعلیمی سفر میں دو تین سال کا وقفہ ہوا، بی کام کا مرحلہ سیفی کالج (حیدرآباد ) میں مکمل ہوا۔

اسد شفیق چار بھائی اور پانچ بہنوں میں سب سے چھوٹے ہیں۔ خاندان میں شوقیہ طور پر تو کرکٹ کھیلی جاتی تھی، لیکن اسد شفیق سے پہلے کسی نے بھی پیشہ ورانہ طور پر کرکٹ نہیں چُنی، اُن کے والد نے کہا تھا کہ پہلے دل لگا کر پڑھیں، انہوں نے اسد شفیق کی کرکٹ کو میٹرک کے امتحانات میں 70 فی صد نمبروں سے مشروط کر دیا تھا کہ اس کے بعد سوچیں گے۔ 2003ء میں جب انہوں نے میٹرک کے بعد کرکٹ میں باقاعدہ اپنے فن کے جوہر دکھانا شروع کیے، تو بدقسمتی سے والد کا سایہ سر سے اٹھ چکا تھا، ایسے میں بڑے بھائیوں نے والد کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ اسی برس ’ریجنل اکیڈمی‘ میں اُن کا نام آیا اور بیش تر وقت کرکٹ میں صرف ہونے لگا، کالج بھی باقاعدگی سے جاتے، لیکن اب کرکٹ پر بھی توجہ مرکوز تھی۔

کالج کرکٹ کے حوالے سے اظہار خیال کرتے ہوئے اسد شفیق کہتے ہیں کہ اِس وقت کراچی کے کالجوں سے اچھی اور معیاری کرکٹ تقریباً ختم ہو چکی ہے، وہاں اب اس شعبے کو زیادہ سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا۔ بہ مشکل ایک دو کالجوں ہی کی اچھی ٹیم ہے۔ اسد شفیق نے کراچی سے فرسٹ کلاس کرکٹ شروع کی، کیرئیر کے پہلے سال تین، چار سنچریاں بنائیں، اور اِسی برس ریجنل سے نیشنل اکیڈمی چلے گئے، جس سے آگے بڑھنے کی امید قوی ہوئی، مگر اگلے برس چار روزہ کرکٹ میں وہ صرف 500 رن بنا سکے۔ یوں وہ شکوک کے بھنور میں آنے لگے، لیکن یہاں اُن کی والدہ نے بہت ہمت بندھائی اور انہیں تلقین کی کہ ’نتائج کے بارے میں فکر کرنے کے بہ جائے اپنی کرکٹ پر متوجہ رہو۔‘ تیسرے برس انہوں نے ملک بھر میں ٹاپ کیا، جس کے بعد جون 2010ء میں وہ قومی ٹیم کا حصہ بن گئے۔

بین الاقوامی کرکٹ میں اسد شفیق مایہ ناز بلے باز سچن ٹنڈولکر کے دل دادہ رہے، اُدھر سچن بلا تھامتے، تو اِدھر اسد شفیق بھی ٹی وی کے سامنے جم جاتے۔ سچن کے بعد انہی کے ہم وطن ویرات کوہلی کو سراہتے ہیں۔ بقول اسد کہ انہوں نے سارے بلے بازوں کے لیے ایک بلند معیار قائم کیا کہ ہم اتنی جسمانی قوت اور صلاحیتوں کے حامل ہوں اور اُن کی طرح کھیل سکیں۔ ملکی بلے بازوں میں وہ محمد یوسف سے بہت زیادہ متاثر ہوئے، جب 2006ء میں انہوں نے ایک سال میں سب سے زیادہ (1788) رن بنانے کا عالمی ریکارڈ قائم کیا۔ اسد شفیق کہتے ہیں کہ انہوں نے ایک سال میں اس سے زیادہ اچھی بلے بازی نہیں دیکھی۔

بطور بلے باز متعارف ہونے کے بعد باؤلنگ کی طرف متوجہ ہونے کا ذکر چھِڑا تو اسد شفیق نے کہا کہ گزشتہ دو تین سال سے انہوں نے باؤلنگ پر توجہ دینی شروع کی، کیوں کہ ایسا بلے باز ٹیم کے لیے کافی سہولت کا باعث ہوتا ہے، جو دو، تین اوور بھی کرلے اور اسے ایک آدھ وکٹ بھی مل جائے۔‘ اسد شفیق سمجھتے ہیں کہ یوں کبھی بلے بازی میں کسر رہ جائے، تو گیند بازی سے پوری کرنے کا موقع مل جاتا ہے، اس لیے اب وہ بھرپور محنت کے بعد اچھی گیند بازی کے لیے بھی کافی پرامید ہیں۔

کرکٹ کو بطور پیشہ چننے کے حوالے سے اسد شفیق کہتے ہیں کہ یہ خاصا جوکھم والا شعبہ ہے، صرف شدید لگاؤ رکھنے والا ہی اِسے اپنا پیشہ بنا سکتا ہے، جسے یہ پتا ہو کہ وہ یہ کام کسی بھی دوسرے کام کی بہ نسبت زیادہ اچھی طرح کر سکتا ہے۔‘ کہتے ہیں کہ کسی اور کو یہ یقین دلانا مشکل ہوتا ہے۔ انہوں نے تو میٹرک سے پہلے اس کا ذہن بنا لیا تھا، لیکن گھر والے بعد میں قائل ہوئے۔ ایک کرکٹر کے لیے ورزش اور جسمانی مشق کے ساتھ کرکٹ کی تربیت کا تذکرہ ہوا، تو اسد شفیق کا خیال تھا کہ 2004ء2003-ء میں، جب انہوں نے باقاعدہ کرکٹ کھیلنا شروع کی، تب جسمانی صحت کا معیار اس قدر کڑا نہیں تھا، جتنا آج ہے، کیوں کہ آج کرکٹ بہت زیادہ بڑھ گئی ہے، اس لیے فزیکل فٹنس کو پہلی ترجیح رکھے بغیر چارہ نہیں۔ اسد شفیق سے جب یہ پوچھا گیا کہ کرکٹر نہ ہوتے، تو کیا ہوتے؟ تو کہتے ہیں کہ اگر کرکٹر نہیں ہوتا، تو کچھ نہیں ہوتا، صرف کرکٹر ہوتا۔

اسد شفیق 2010ء میں اپنے پہلے ٹیسٹ کے بعد سے ٹیسٹ ٹیم کے ایک مستقل رکن ہیں، اس کے برعکس ایک روزہ میچوں میں وہ اتنی اچھی کارکرددگی نہ دکھا سکے، جس کا وہ اعتراف کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ون ڈے میں اُن کی بلے بازی کی ترتیب متعین نہ تھی، جب کہ ٹیسٹ میچوں میں وہ چھٹے نمبر پر کھیلنے آتے ہیں۔ اسد شفیق کا ماننا ہے کہ ہر نمبر پر بلے بازی کی صورت حال مختلف ہوتی ہے، مخصوص نمبر پر کھیلنے کے سبب بلے باز درپیش کیفیت سے ہم آہنگ ہو جاتا ہے کہ دوسرے بلے باز کو کس طرح کھلانا ہے اور گیند اور گیند بازوں کی صورت حال کیا ہے وغیرہ۔ تاہم بلے بازی کی ترتیب متعین نہ ہونے کو وہ اپنی خراب کارکردگی کا عذر نہیں مانتے، بلکہ انہیں لگتا ہے کہ انہوں نے اپنی قابلیت سے بہت کم درجے کی کارکردگی دکھائی ہے۔ اب وہ اپنی کم زوریوں پر قابو پا رہے ہیں، جس کے نتیجے میں ڈومیسٹک کرکٹ اور ’پاکستان سپر لیگ‘ میں اسٹرائیک بہتر ہوا ہے۔

اسد شفیق نے جب بین الاقوامی کرکٹ میں قدم رکھا، تو اس سے ایک برس قبل 2009ء میں لاہور میں سری لنکن ٹیم پر دہشت گردوں کے حملے کے بعد پاکستان پر عالمی کرکٹ کے کواڑ پھِر چکے تھے۔ اس لیے مقامی میدانوں پر غیر ملکی کھلاڑیوں سے نبردآزما ہونے کا ذائقہ مئی 2015ء میں اُس وقت چکھا، جب زمبابوے کی ٹیم یہاں مہمان ہوئی، کہتے ہیں کہ تب مجھے معلوم ہوا کہ کس طرح اپنے شائقین ہمارے ایک، ایک رن پر داد دیتے ہیں، جب کہ پردیسی میدانوں کے تماشائیوں میں اتنا جوش وخروش نہیں ہوتا۔ اسد شفیق چاہتے ہیں کہ یہاں پہلے کی طرح بین الاقوامی کرکٹ شروع ہو، تاکہ ہم بھی دنیا بھر کی ٹیموں کی طرح اپنے میدانوں کا فائدہ اٹھا سکیں۔

ساتھی کھلاڑیوں سے ہم آہنگی کے سوال پر اسد شفیق کپتان سرفراز احمد کا نام لیتے ہیں کہ وہ کلب کے زمانے سے کئی ٹیموں میں ساتھ ساتھ رہے، کراچی، پی آئی اے، کے الیکٹرک، کراچی ڈولفنز وغیرہ سمیت پانچ چھے ٹیموں میں وہ ہم راہ تھے۔ اس کے علاوہ اظہر علی، عماد وسیم اور بابر اعظم سے بہت اچھی یاد اللہ ہے۔ اسد شفیق اس خیال سے متفق نہیں کہ کراچی کے کھلاڑیوں کو ملکی ٹیم میں کم کم موقع ملتا ہے، کہتے ہیں کہ ’مجھے کسی اور کا تو نہیں پتا، لیکن میں مطمئن ہوں، مجھے بالکل شفاف طریقے سے کھیلنے کا موقع ملا، اور اب میں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔‘

جب ہم نے اسد شفیق سے رواں برس چیمپئنز ٹرافی کی فاتح ملکی ٹیم کا حصہ نہ ہونے پر قلق ہونے کا پوچھا، تو انہوں نے کہا جو چیز اختیار میں نہیں، اس کے بارے میں سوچنے کے بہ جائے، وہ آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اسد شفیق کہتے ہیں کہ کرکٹ اتنی تیز ہوگئی ہے کہ اب ہر میچ میں 300 رن بنتے ہیں، اب وہ کرکٹ نہیں کہ 250 اور 260 رن بن جائیں تو میچ دل چسپ ہوتا تھا، جب سے فیلڈنگ کی نئی پابندیاں آئی ہیں، ’اسکور‘ بہت زیادہ ہو رہا ہے۔ 300 رن تو ایک معیار بن چکا ہے۔ اس لیے اب وہ کھیل کی جدید ضروریات پر پورا اترنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسد شفیق نے بلے بازی میں کوئی خاص ہدف مقرر نہیں کیا، جسے وہ کرکٹ کو خیرباد کہنے سے پہلے عبور کرنا چاہتے ہوں، بلکہ وہ حال میں رہتے ہیں اور صرف آنے والے دن کو بہتر کرنے پر یقین رکھتے ہیں کہ ’’اگر کل اچھا کرلیں گے، تو آگے بھی خود اچھا ہوتا چلا جائے گا۔‘‘

اسد شفیق اپنے بارے میں ہر کوچ کی ہدایات ذہن میں رکھتے ہیں۔ کلب کوچ اعظم خان سے اُن کی کرکٹ کی بنیاد بہتر بنی، اس کے بعد جلال الدین، راشد لطیف اور معین خان سے متعارف ہوئے، پھر توصیف احمد اور صادق محمد کی کوچنگ سے استفادہ کیا۔ پاکستان اکیڈمی میں اعجاز احمد نے انہیں دیکھتے ہی خامیوں کی نشان دہی کی اور کہا اگر ان پر قابو پالو، تو تمہیں ملکی ٹیم کا حصہ بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔‘ یہ لفظ مایوسی کے زمانے میں اُن کو حوصلہ دیتے رہے۔ آؤٹ ہونے کے بعد اسد شفیق کوشش کرتے ہیں کہ مثبت رہیں، کیوں کہ بہت سی گیندیں ایسی ہوتی ہیں کہ ان پر رن ملنے کے امکان بھی ہوتے ہیں اور وہی گیند واپسی کا راستہ دکھانے کا باعث بھی بن جاتی ہے۔

’کرکٹ قوانین میں بلے بازوں کو زیادہ آسانیاں دی جاتی ہیں، جب کہ گیند کرانے والا مختلف پابندیوں میں ہوتا ہے؟‘ اس سوال پر وہ کہتے ہیں ’میرا خیال ہے کہ ایسا اس لیے لگتا ہے کہ بلے باز آؤٹ ہو جائے، تو اس کے پاس موقع نہیں، جب کہ باؤلر اگر خراب گیند کرے، تو اگلی کوشش میں وہ اس کا ازالہ کر سکتا ہے، اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ قواعد اور ضابطے بلے بازوں پر زیادہ مہربان ہیں۔ انڈین پریمیئر لیگ میں کسی ذریعے سے رابطہ کرنے کی اطلاعات کو وہ ’’بکواس‘‘ قرار دیتے ہیں۔ وہ ٹی ٹوئنٹی میں اپنی کارکردگی کے ذریعے شبہات دور کرنا چاہتے ہیں۔ رواں برس دورۂ آسٹریلیا میں ایک روزہ میچوں میں ناکامی کے بعد وہ توقعات پر پورا اترنے کے لیے پرعزم ہیں، اور تینوں وضع کی کرکٹ کے لیے خود کو تیار کر رہے ہیں۔

کھلاڑیوں کے ممنوعہ ادویات کے استعمال کے بارے میں اسد شفیق کہتے ہیں کہ یہ امکان بھی ہے کہ اَن جانے میں اُن سے ایسا ہو جاتا ہو، اگر کوئی کھلاڑی اپنی غلطی قبول کر لیتا ہے، تو ہمیں معذرت قبول کرلینی چاہیے، کیوں کہ سب انسان ہیں، لیکن ساتھ وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ہمیں اچھی طرح ساری چیزیں سمجھا دی جاتی ہیں اور کہا جاتا ہے کہ جس چیز میں شبہ ہو، تو استعمال سے پہلے دریافت کرلیں۔

بین الاقوامی کرکٹ کے اعداد و شمار
اسد شفیق نے پہلا ایک روزہ میچ 21 جون 2010ء کو سری لنکا میں بنگلا دیش کے خلاف کھیلا۔ ان کا ابھی تک کھیلا گیا آخری ایک روزہ میچ 19 جنوری 2017ء کو آسٹریلیا میں تھا، جس میں وہ خاطر خواہ کارکردگی نہ دکھا سکے۔ ایک روزہ کرکٹ میں ان کے اعدادو شمار کچھ یوں رہے: 60 ایک روزہ میچوں کی 58 اننگز میں 24.74 کی اوسط سے 9نصف سنچریوں کی مدد سے 1336 رن بنائے۔ بلند ترین رن کا مجموعہ 84، جب کہ اسٹرائیک ریٹ 67.50 رہا۔
اسد شفیق کے پہلا ٹیسٹ میچ کھیلنے کا واقعہ 20 نومبر 2010ء کو ہوا۔ ابوظہبی کے میدان میں مقابل ٹیم جنوبی افریقا تھی، 56 میچوں کی 93 اننگز میں 39.43 کی اوسط سے 3431 رن جمع ہوئے، جس میں 10 سنچریاں اور 18نصف سنچریوں نے بھی حصہ بانٹا، بلند ترین رن 137، جب کہ اسٹرائیک ریٹ 47.42 رہا۔
بین الاقوامی ٹی ٹوئنٹی کریئر کی شروعات 28 دسمبر2010ء کو ہیملٹن (Hamilton) میں میزبان نیوزی لینڈ کے خلاف ہوئی۔ آخری ٹی ٹوئنٹی میچ ابوظہبی میں انگلستان کے خلاف 27 فروری 2012ء کا کھیلا، جس کے بعد موقع نہ مل سکا۔ 10 ٹی ٹوئنٹی میچوں کی 10 اننگرز میں 19.20 کی اوسط سے 192 رن اکٹھے ہوئے، زیادہ سے زیادہ رن 38 رہے، جب کہ اسٹرائیک ریٹ 103.78 رہا۔
اسد شفیق کی گیند بازی کے شعبے کو دیکھیے تو 56 ٹیسٹ میچوں کی چھے اننگز میں 120 بالوں پر 84 رن دے کر ایک وکٹ حاصل کی، جب کہ دو ون ڈے میچوں میں 12 بالوں پر 18 رن دیے، وکٹ کا کھاتہ نہ کھول سکے۔

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔